بیسویں صدی میں میڈیکل میں جتنی تیز رفتار ترقی دل کے بارے میں ہوئی ہے، شاید ہی کسی اور علاقے میں ہوئی ہو۔ اب اس پر ہونے والے آپریشن معمول ہیں۔ اور اس تک پہنچنے میں بہت سے لوگوں کا بہت سا وقت، محنت اور صبر لگا ہے۔
فورسمین وہ پہلے ڈاکٹر تھے جنہوں نے 1929 میں catherer کی مدد سے دل تک براہِ راست رسائی حاصل کی تھی اور یہ تجربہ انہوں نے خود پر کیا تھا۔ فورسمین کا پروسیجر دل کی سرجری کے لئے اہم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر جان گبن نے 1930 کی دہائی میں مشین بنائی تھی جو خون کو مصنوعی طور پر آکیسیجن دیتی تھی۔ اس مشین نے اوپن ہارٹ سرجری ممکن کی۔ اور اس کے لئے بھی انہوں نے خود پر تجربات کئے۔ بیس سال کے تجربات کے بعد انہوں نے 1953 میں پہلی مشین چالو کی۔ سب سے پہلا آپریشن اٹھارہ سالہ لڑکی کے دل کے سوراخ کو ٹھیک کرنے کے لئے کیا گیا۔ اس آپریشن نے اسے تیس سال کی مزید زندگی دی۔
بدقسمتی سے اگلے چار مریض زندہ نہ بچ سکے اور گبن نے اس مشین کو چھوڑ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر اگلا کام والٹن لائلہے نے کیا۔ انہوں نے ایک سسٹم متعارف کروایا جس میں مریض کو ایک رضاکار (عام طور پر قریبی عزیز) سے جوڑ دیا جاتا تھا۔ اور اس کا خون مریض میں گردش کرتا رہتا تھا۔ اس تکنیک کی کامیابی نے انہیں شہرت اور دولت دی۔ لیکن مالی معاملات میں گڑبڑ کرنے کی وجہ سے انہیں ٹیکس چوری کے پانچ مقدمات میں 1973 میں سزا ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپن ہارٹ سرجری نے ایسے نقائص درست کرنا ممکن بنایا جہاں تک پہلے نہیں پہنچا جا سکتا تھا۔ لیکن اگر دل کی دھڑکن ٹھیک نہ ہو تو یہ مسئلہ سرجری سے حل نہیں ہوتا۔ اس کے لئے جو آلہ ہے اسے پیس میکر کہا جاتا ہے۔
سویڈن سے تعلق رکھنے والے انجینیر رونے ایلمقوسٹ نے 1958 میں آکے سیننگ کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنے گھر میں دو پیس میکر تجرباتی طور پر بنائے تھے۔ پہلے کو ایک 43 سالہ مریض آرنے لارسن کے سینے میں ڈالا گیا۔ وہ قریب المرگ تھے۔ پہلا آلہ صرف چند گھنٹے ہی چل سکا۔ فوری طور پر دوسرا آلہ ڈالا گیا اور یہ تین سال تک چلتا رہا۔ درمیان میں اس کی بیٹریاں ہر چند گھنٹوں بعد بدلنی پڑتھی تھیں۔ ٹیکنالوجی کے بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ پیس میکر بھی بہتر ہوتے گئے۔ لارسن میں نئے پیس میکر ڈالے جاتے رہے۔ ان کا انتقال 2002 میں ہوا تو ان کی عمر 86 سال تھی۔ انہوں نے اس ایجاد کے دونوں موجدین سے زیادہ عمر پائی تھی۔ پہلا پیس میکر سگریٹ کی ڈبی کے سائز کا تھا۔ آج کے پیس میکر ایک روپے کے سکے سے بڑے نہیں ہوتے اور دس سال تک رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بائی پاس کے آپریشن میں مریض کی ٹانگ سے صحتمند اور لمبی شریان کو لے کر دل کی بیمار شریان کو بدلا جاتا ہے۔ یہ امریکہ میں کلیولینڈ کلینک کے فاوولارو کی 1967 کی ایجاد ہے۔
فاوولارو کا تعلق ارجنٹینا سے تھا اور ان کے پروسیجر نے زبردست کام کیا۔ ان کے پہلے مریض نے مکمل صحتیابی حاصل کی اور تیس سال مزید زندگی پائی۔ فاوولارو نے دولت کمائی اور اپنے کیرئیر کے آخر میں واپس اپنے ملک ارجنٹینا چلے گئے۔ یہاں پر انہوں نے دل کا کلینک اور ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا جہاں ڈاکٹروں کی تربیت بھی کی جا سکے اور ضرورت مندوں کا علاج کیا جا سکے، خواہ وہ اس کی مالی استطاعت نہ بھی رکھتے ہوں۔ انہوں نے یہ سب کچھ کر لیا لیکن ارجینٹنا کو سنگین معاشی بحران نے آ لیا۔ ان کا ہسپتال بھی اس سے نہ بچ سکا۔ اس کی پریشانیوں سے تنگ آ کر فاوولارو نے 2000 میں خودکشی کر لی۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں