دِل کی خرابی کے بہت سے طریقے ہیں۔ یہ درمیان کی کسی دھڑکن کو چھوڑ (skip) سکتا ہے۔ یہ ایکسٹرا دھڑک سکتا ہے جس کی وجہ برقی نبض کا غلط فائر ہو جانا ہے۔ کئی لوگوں میں دن میں ایسی ہزاروں دھڑکنیں ہو سکتی ہیں جس کا انہیں علم بھی نہ ہو۔ جبکہ کچھ کے لئے دھڑکن کی بے ترتیبی ایک کبھی ختم نہ ہونے والی بے آرامی ہو سکتی ہے۔
ہارٹ اٹیک اور کارڈیک اریسٹ دو الگ چیزیں ہیں اگرچہ عام طور پر انہیں ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہارٹ اٹیک اس وقت ہوتا ہے جب آکسیجن سے بھرا خون شریان کے بلاک ہونے کی وجہ سے دل کے پٹھے تک نہ پہنچ سکے۔ یہ اچانک ہوتا ہے، اس وجہ سے اسے اٹیک کہا جاتا ہے۔ جبکہ دل کے دوسرے فنکشنز میں ناکامی اتنی تیز نہیں ہوتی۔ شریان کے بلاک ہونے پر آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے دل کا مسل مرنے لگتا ہے۔ یہ ایک گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ اور اس طریقے سے مر جانے والے مسل کبھی واپس نہیں آتا۔
اور یہ ہمارے لئے کوفت کا باعث ہے۔ کئی دوسری بڑی سادہ مخلوقات ۔۔۔ مثلا، زیبرا فِش ۔۔۔ دل کے ٹشو کی مرمت کر لیتے ہیں۔ اس قدر مفید سہولت سے ہم کیوں محروم رہ گئے؟ یہ بھی جسم کے بہت سے کھلے سوالات میں سے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارڈیک اریسٹ کا مطلب ہے کہ جب دل دھڑکنا بند کر دے۔ عام طور پر یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کا برقی سگنلنگ کا نظام ناکام ہو جائے۔ جب دل دھڑکنا روک دے تو دماغ میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ جلد بے ہوش ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اگر جلد علاج نہ دیا جائے تو جلد ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے کارڈیک اریسٹ ہو سکتا ہے لیکن یہ ہارٹ اٹیک کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ میڈیکل کے حوالے سے ان میں فرق کرنا اہم ہے کیونکہ ان کے علاج مختلف ہیں۔ (اس کا شکار ہونے والوں کے لئے ان کا مختلف ہونا خاص اہمیت نہیں رکھتا)۔
دل کی ناکامی کے طریقے ظالمانہ طور پر چوری سے آتے ہیں۔ اس کے ایک چوتھائی شکاروں کے لئے انہیں جب پہلی (اور بدقسمتی سے آخری) مرتبہ اپنے دل کے مسئلے کا اس وقت معلوم ہوتا ہے جب انہیں جان لیوا ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ اور نصف سے زیادہ ہارٹ اٹیک (جان لیوا یا دوسرے) ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو صحت مند اور فِٹ ہوتے ہیں اور بظاہر انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ نہ ہی لائف سٹائل میں، نہ بلڈ پریشر کا مرض ہوتا ہے اور نہ ہی کولیسٹرول میں کچھ گڑبڑ ہوتی ہے۔ صحت مند انداز میں اچھے طریقے سے زندگی گزارنا بلاشبہ اس کا امکان کم کر دیتا ہے لیکن دل کے عارضے سے فرار کی گارنٹی نہیں دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے کہ کوئی سے دو ہارٹ اٹیک ایک سے نہیں ہوتے۔ خواتین اور مردوں میں یہ الگ طریقے سے ہوتا ہے۔ خواتین کو متلی اور پیٹ میں درد ہونے کا امکان زیادہ ہے جس وجہ سے ان میں اس کی غلط تشخیص کا تناسب زیادہ ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ پچاس سال سے کم عمر کی خواتین میں ہارٹ اٹیک کا شکار ہو جانے والوں میں خواتین کے مر جانے کا امکان مردوں سے دگنا ہے۔
کچھ لوگوں پر، جنہیں سخت ہارٹ اٹیک ہونے والا ہو، یکایک موت کی دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کنڈیشن کا کئی بار مشاہدہ کیا جا چکا ہے اور اس کا نام angor animi (روح کی بے چینی) ہے۔
کچھ لوگوں پر اس کی وجہ سے موت اس قدر سرعت سے آتی ہے کہ انہیں کسی طرح کی تکلیف یا آگاہی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
کسی نامعلوم وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا کے ہمونگ نسل کے لوگوں میں ایک اور کنڈیشن پائی جاتی ہے جسے sudden unexplained nocturnal death syndrome کہا جاتا ہے۔ اس کا شکار ہونے والوں کا دل سوتے میں رک جاتا ہے۔ اور پوسٹ مارٹم میں دل نارمل اور صحتمند نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائیپرٹروفک کارڈیومائیوپیتھی ایک کنڈیشن ہے جس میں کھیل کے میدان میں ایتھلیٹ اچانک انتقال کر جاتے ہیں۔ اس کی وجہ دل کے ایک وینٹریکل کا موٹا ہو جانا ہے جس کی تشخیص نہیں ہو پاتی۔ اس کی وجہ سے امریکہ میں سالانہ ہونے والی اموات کی تعداد گیارہ ہزار ہے اور شکار ہونے والوں کی عمر 45 برس سے کم ہوتی ہے۔
دل میں ہونے والے عارضے کسی بھی دوسرے عضو کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ان میں سے ہر ایک ہی بری خبر ہے۔
بیسویں صدی کے وسط میں میڈیکل میں بڑے مسائل تپدق، ٹائیفائیڈ یا خناق تھے۔ ان کا صفایا ہونے کے بعد صحت میں دل منظرِ عام پر آیا۔ اور اس کی ایک وجہ امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کی موت تھی۔ ان کا بلڈپریشر 300/190 تک پہنچ گیا اور ان کی اس کے بعد جلد ہی 63 سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اس کے بعد یہ احساس عام ہوا کہ دل کا عارضہ سنجیدہ اور عام مسئلہ ہے اور اس کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے۔
اس نے 1948 میں ایک سٹڈی کو شروع کیا جو فرینگھم تحقیق ہے۔ اس میں پانچ ہزار رضاکاروں کی زندگیوں کا قریب سے مطالعہ شروع کیا گیا۔ یہ تحقیق جاری ہے اور اپنی تیسری نسل میں ہے۔ اس کا مقصد وہ عوامل جاننا تھا جس کی وجہ سے دل کا عارضہ ہوتا ہے۔ اور ہم اسی تحقیق کے شکرگزار ہیں جس نے اس بارے میں بڑے خطرات کی نشاندہی یا تصدیق کی۔ اس میں ذیابیطس، سگریٹ نوشی، موٹاپا، غیرمعیاری خوراک، کاہلی جیسی چیزیں ہیں۔ اور “رِسک فیکٹر” کا لفظ بھی اسی سٹڈی میں بنایا گیا۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں