آپ کے جسم میں کتنا خون ہے؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کتنے بڑے ہیں۔ ایک نوزائیدہ بچے میں تقریباً ایک چوتھائی لٹر خون ہے جبکہ بالغ شخص میں پانچ لٹر۔ لیکن جو بھی ہے، آپ خون سے بھرے پڑے ہیں۔ اپنے جلد میں کہیں پر بھی سوئی چبھوئیں اور یہ نکل پڑے گا۔ آپ کے جسم میں خون کی شریانوں کی لمبائی پچیس ہزار میل ہے۔ اور ان میں سے بڑی تعداد چھوٹی رگوں (capillaries) کی ہے۔ تاکہ کوئی بھی حصہ ہیموگلوبن کی تازگی سے دور نہ رہے۔ یہ وہ مالیکیول ہے جو جسم بھر میں آکسیجن پہنچاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب جانتے ہیں کہ خون آکسیجن کو خلیات تک پہنچاتا ہے لیکن یہ اس سے بہت زیادہ کام کرتا ہے۔ یہ ہارمون اور دوسرے اہم کیمیکل کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ فاضل مادے لے جاتا ہے۔ حملہ آور پیتھوجن کی نشاندہی اور ان کا قلع قمع کرتا ہے۔ اس بات کو یقنی بناتا ہے کہ آکسیجن ان جگہوں تک پہنچے جہاں زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ یہ جذبات کی نشاندہی کرتا ہے (مثلاً، شرم سے چہرے کا سرخ ہو جانا، خوف سے زرد پڑ جانا یا غصہ سے لال بھبھوکا ہو جانا)، جسم کا درجہ حرارت برقرار رکھنے میں مددکرتا ہے۔ یہ پہت پیچیدہ میٹیریل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق خون کے ایک قطرے میں چار ہزار اقسام کے مالیکیول ہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ آپ کے ڈاکٹر کو خون کے ٹیسٹ اس قدر پسند ہیں۔ خون آپ کے بارے میں انفارمیشن سے لدا ہوا ہے۔
خون کی ایک ٹیسٹ ٹیوب کو سینٹری فیوج میں گھمایا جائے تو یہ چار تہوں میں الگ ہو جائے گا۔ سرخ خلیات، سفید خلیات، پلیٹلٹ اور پلازمہ۔ سب سے زیادہ پلازمہ ہے جو نصف سے زائد ہے۔ اس میں نوے فیصد سے زیادہ پانی ہے۔ کچھ نمکیات، فیٹ اور دوسرے کیمیکل اس میں شامل ہیں۔ اینٹی باڈیز، کلاٹنگ فیکٹر اور دوسرے اجزا کو نکال کر الگ کیا جا سکتا ہے اور ان کو آٹوامیون بیماریوں یا ہیموفیلیا کے علاج کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ دنیا میں پلازمہ کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ کل امریکی برآمدات کا 1.6 فیصد اس سے آتا ہے اور ہونے والی آمدنی جہازوں یا فولاد کی برآمد سے زیادہ ہے۔
خون کے سرخ خلیات خون کا 44 فیصد حجم رکھتے ہیں۔ ان کا اپنے کام کے لئے بہترین ڈیزائن ہے اور ان کے ذمے صرف ایک ہی کام ہے۔ آکسیجن کی ٹرانسپورٹ۔ یہ بہت چھوٹے ہیں اور تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ خون کے ایک چائے کے چمچ میں پچیس ارب سرخ خلیات سما جائیں گے۔ اور ان میں سے ہر ایک میں ہیموگلوبن کے ڈھائی لاکھ مالیکیول۔ یہ وہ پروٹین ہے جس کے ساتھ آکسیجن بخوشی چپک جاتی ہے۔ یہ ایک طشتری کی شکل کا مالیکیول ہے جو درمیان سے پچکا ہوا ہے۔اس کی وجہ سے اس کا سطحی رقبہ زیادہ ہے۔ سرخ خلیات خود کو زیادہ سے زیادہ ایفی شنٹ بنانے کے لئے روایتی خلیے کے بہت سے اجزا سے جان چھڑا چکے ہیں۔ ڈی این اے، آر این اے، مائیٹوکونڈریا، گولجی اپریٹس اور انواع و اقسام کے انزائم کے تکلفات ان میں نہیں پائے جاتے۔ یہ سامان اٹھانے والے کنٹینر کی طرح ہے۔
اس میں ایک دلچسپ تضاد یہ ہے کہ اگرچہ سرخ خلیات جسم کے ہر حصے تک آکسیجن فراہم کرتے ہیں لیکن یہ خود آکسیجن استعمال نہیں کرتے۔ اپنے توانائی کی ضروریات کے لئے یہ گلوکوز استعمال کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہیموگلوبن کے ساتھ ایک عجیب اور تاریک شے ہے۔ اسے آکسیجن سے زیادہ کاربن مونوآکسائیڈ پسند ہے۔ اگر کاربن مونوآکسائڈ اسے مل جائے تو یہ اسے اٹھا لیتا ہے اور آکسیجن کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ کاربن مونوآکسائیڈ ہمیں مار دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخ خلیے کی عمر چار ماہ ہے۔ اپنے مصروف اور متحرک زندگی کے لئے یہ بھی بہت عرصہ ہے۔ ایک خلیہ اپنے زندگی میں آپ کے جسم کے 150,000 چکر لگائے گا۔ یہ ایک سو میل کا سفر ہے۔ آخر میں تھک ہار کر اس کو scavenger cell پکڑ لیں گے اور تلی میں بھیج دیں گے تا کہ ان کا خاتمہ کیا جا سکے۔ روزانہ ایک کھرب سرخ خلیات ختم ہوتے ہیں۔ ان کے اجزا ری سائیکل کئے جاتے ہیں اور جو بچ جائے وہ جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
خون کے سفید خلیات انفیکشن کا مقابلے کرتے ہیں۔ اور ہمارے دفاعی نظام کا بہت اہم حصہ ہیں۔ یہ سرخ خلیات کے مقابلے میں تعداد میں بہت کم ہیں۔ سات سو سرخ خلیوں کے مقابلے میں صرف ایک سفید خلیہ۔ اور یہ خون کے حجم کا ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔
پلیٹلٹ بھی خون کے ایک فیصد سے کم ہیں۔ بہت دیر تک یہ پرسرار شے رہے۔ انہیں سب سے پہلے 1841 میں جارج گلیور نے خوردبین کے نیچے دیکھا تھا۔ لیکن ان کا نام 1910 میں رکھا گیا، جب جیمز ہومر رائٹ نے خون کے جمنے میں ان کا کردار سمجھا۔
خون کا جمنا آسان کام نہیں۔ خون کو ہر وقت جم جانے کے تیار رہنا ہے اور ضرورت پڑنے پر یہ کام بہت جلد ہو جانا چاہیے۔ اور ساتھ ہی ساتھ بلاضرورت یہ کام کبھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر خون بہنے لگے تو زخم کے گرد دسیوں لاکھ پلیٹلٹ گھیرا ڈال لیتے ہیں اور ان کا ساتھ دینے بہت سی پروٹینز آ جاتی ہیں۔ یہ ایک میٹیریل کا ذخیرہ کر دیتی ہیں جو فبرین (fibrin) ہے۔ یہ پلیٹلٹ کے ساتھ ملکر ایک پلگ بنا دیتا ہے۔ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ اس عمل میں ناکامی نہ ہو، بارہ الگ میکانزم ہیں۔ بڑی شریانوں میں خون نہیں جمتا کیونکہ یہاں بہاو بہت تیز ہے۔ اگر کوئی clot بن بھی جائے تو یہ بہہ جائے گا۔ اور یہ وجہ ہے کہ بڑے زخم کو روکنے کے لئے رکاوٹ لگانا پڑتی ہے۔ اگر زیادہ گہرے زخم آئیں جن سے تیزرفتاری سے خون بہے تو جسم اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ ہمارے اہم اعضاء کی طرف خون کی سپلائی جاری رہے اور کم اہم اعضاء (جیسا کہ سطح کے ٹشو یا مسلز) کی طرف سے اس کا راستہ موڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ زخمی مریض جن کا خون بہہ رہا ہو، کسی لاش کے طرح سفید پڑے ہوتے ہیں اور ہاتھ لگانے پر سرد ہوتے ہیں۔
پلیٹلٹ کی زندگی صرف ایک ہفتے کے قریب ہے اور انہیں مسلسل بنتے رہنا پڑتا ہے۔ پچھلی دہائی میں سائنسدانوں کو علم ہو رہا ہے کہ ان کا کام صرف خون کے جمنے کا نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہے۔ یہ اہم فنکشن میں کردار ادا کرتے ہیں جن میں مدافعتی نظام اور ٹشوز کا دوبارہ بننا بھی شامل ہیں۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں