بہت طویل عرصے تک یہ معلوم نہیں تھا کہ خون کا مقصد کیا ہے۔ صرف یہی علم تھا کہ یہ زندگی کے لئے ضروری ہے۔ جالینوس کے وقت سے یہ تصور کیا جاتا رہا تھا کہ یہ جگر میں مسلسل پیدا ہوتا رہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ جسم کے دوسرے حصوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس بارے میں طبِ یونانی کے یہ خیالات صدیوں تک رائج رہے۔
ولیم ہاروے وہ پہلے فزیشن تھے جنہیں یہ احساس ہوا کہ ایسا نہیں۔ یہ ایک بند سسٹم میں گردش کرنے والا مائع ہے۔ اپنی تحریر (جانوروں میں دل کا کردار اور خون کی حرکت) میں انہوں نے خاکہ پیش کیا کہ دورانِ خون کا نظام کیسے کام کرتا ہے۔
ہاروے کی تھیوری کا ان کے وقتوں میں مذاق بنایا گیا اور تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کے ہم عصر انہیں خبطی شخص سمجھتے تھے۔ (یہ جان آبرے کے الفاظ ہیں)۔ ہاروے کے مریضوں نے بھی ان سے علاج کروانا ترک کر دیا اور ان کی وفات تلخ شخص کے طور پر ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاروے کو تنفس کا علم نہیں تھا۔ اس لئے وہ یہ وضاحت نہیں کر سکتے تھے کہ خون کا مقصد کیا ہے۔ یا پھر یہ گردش کرتا ہی کیوں ہے۔ ان کے ناقدین کے لئے تھیوری میں یہ دو بڑے نقائص تھے۔ اس وقت کے رائج طبِ یونانی کے مطابق جسم میں رگوں کے دو الگ نظام ہیں۔ ایک میں چمکدار سرخ خون ہے جبکہ دوسرے میں اس کا رنگ پھیکا ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ پھیپھڑوں سے آنے والے خون میں آکسجن لدی ہوتی ہے اور اس وجہ سے یہ چمکدار سرخ ہے۔ جبکہ واپس آنے والے خون میں آکسجن نہ ہونے کی وجہ سے اس کا رنگ پھیکا ہوتا ہے۔ ہاروے اس بات کی وضاحت نہیں کر سکے تھے کہ اگر یہ ایک ہی سسٹم ہے تو پھر یہ دو الگ رنگ کیوں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنفس کا راز ہاروے کی وفات کے بعد برطانیہ کے ایک اور سائنسدان رچرڈ لوئر نے معلوم کیا۔ لوئر کا کہنا تھا کہ خون نائیٹرس آکسائیڈ اٹھاتا اور دیتا رہتا ہے۔ (آکسیجن اس سے ایک صدی بعد دریافت ہوئی)۔ اور یہ وجہ ہے کہ یہ گردش میں رہتا ہے۔
یہ ایک اچھی بصیرت تھی لیکن ان کی شہرت ایک اور چیز کے بارے میں ہوئی۔ 1660 کی دہائی میں لوئر کی دلچسپی اس چیز پر تھی کہ کیا خون کسی دوسرے کو لگایا جا سکتا ہے؟ اور کیا اس سے انسانی جان بچ سکتی ہے؟ نومبر 1667 میں بہت سے لوگوں کے سامنے انہوں نے ایک تجربہ کیا۔ اس کا کسی کو علم نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ انہوں نے ایک بھیڑ سے آدھا لٹر خون لیا اور ایک رضاکار آرتھر کوگا کے بازو میں لگا دیا۔ کئی منٹ تک لوئر، کوگا اور تماشائی دیکھتے رہے کہ کیا ہو گا۔ خوش قسمتی رہی کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ کوگا نے مشروب کا گلاس پکڑ کر تمباکو کا پائپ سلگایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہفتے بعد یہ تجربہ پھر دہرایا گیا اور ایک بار پھر کچھ مضر اثرات نہیں رہے۔ اور یہ حیرانی کی بات تھی۔ عام طور پر خون میں اگر بیرونی شے شامل کی جائے تو وہ شخص شاک میں چلا جاتا ہے۔ اس لئے یہ معلوم نہیں کہ کوگا اس سے کیسے بچ گئے۔ بدقسمتی سے اس نے دوسرے سائنسدانوں کو ایسے تجربات کرنے کے لئے ہمت دی۔ اور یہ نت نئے تجربات تھے۔ رضاکاروں میں دودھ، شراب اور حتیٰ کہ پارہ انڈیلا گیا۔ اور ہر قسم کے جانور کا خون بھی ڈالا گیا۔ اس کے نتائج میں کئی اموات شامل تھیں جو سب کے سامنے ہوئیں۔ جلد ہی ایسے تجربات پر پابندی لگ گئی۔ اور اگلے ڈیڑھ سو سال تک کسی نے اسے دہرانے کی کوشش نہیں کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سائنس کی دنیا “روشن خیال کے عہد” میں دریافتوں اور علم کے سفر پر تھی تو میڈیسن تاریک دور میں جا چکی تھی۔ خاص طور پر اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا بڑا حصہ اس حوالے سے ناقابلِ رشک رہا۔
مثال کے طور پر جارج واشنگٹن کی دسمبر 1799 میں طبعیت خراب ہو گئی۔ گلا خراب ہونے کی وجہ سے نگلنے میں اور سانس میں تکلیف تھی۔
ڈاکٹروں کو بلایا گیا۔ علاج کے طور پر ان کے بازو سے اٹھارہ اونس خون نکال لیا گیا۔ طبیعت خراب ہونے پر گلے میں سوئیاں ڈال کر “برے مادے” نکالے گئے۔ پھر جلاب دے کر قے کروائی گئی۔ جب اس سے طبیعت بہتر نہ ہوئی تو تین بار مزید خون نکالا گیا۔
امریکہ کے بانیوں میں سے ایک اور اس کے پہلے صدر 67 سال کے تھے جب گلے کی انفیکشن ہونے کے بعد (جس کا بہتر علاج کچھ دن کا آرام ہوتا) اپنے علاج کے ہاتھوں چل بسے۔
فوت ہو جانے کے بعد بھی معالجوں نے ہار نہیں مانی۔ تجویز کیا کہ ان کی جلد کی مالش کی جائے اور اس میں بکری کا خون انڈیلا جائے تا کہ بہہ جانے والے لہو کا تازہ متبادل مل سکے۔ ان کے اہل و عیال نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تو ہمیں عجیب لگے کہ کسی بیمار شخص میں سے خون کیوں نکالا جائے لیکن صدیوں تک یہ رائج دانائی رہی تھی۔ یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اس سے بیماری ختم ہو گی اور ذہنی حالت بہتر ہو گی۔ جرمنی کے فریڈرک اعظم جنگ سے پہلے اعصابی سکون کے لئے خون نکلوالتے تھے۔ یہ کام کرنے والے پیالے خاندانوں میں نسل در نسل چلتے تھے۔ برطانیہ میں میڈیکل کا مشہور جریدہ لانسٹ (Lancet) ہے۔ یہ لہوکاری کرنے والے آلے کا نام تھا۔ (یہ جریدہ 1823 میں شروع ہوا تھا)۔
لیکن یہ کام اتنا طویل عرصہ کیوں ہوتا رہا؟ اس کی وجہ میڈیکل میں انسانی جسم اور بیماریوں کے بارے میں تصورات کی کمزوری تھی۔ “جسم کی گرمی نکلتی ہے” “فاسد مادے خارج ہوتے ہیں” جیسے فقرے شاید آپ نے اب بھی کہیں سنے ہوں۔ اب ہم انہیں نظرانداز کر دیتے ہیں لیکن یہ انیسویں صدی میں رائج دانائی تھی۔
لہوکاری کی بہت مشہور شخصیت بینجمن رش رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسم کے تمام عارضوں کی وجہ خون کا زیادہ گرم ہو جانا ہے۔ رش بہت دانا شخصیت تھے۔ یہ امریکہ کی آزادی کے دستخط کنندگان میں بھی تھے۔ انسانی خون کے بارے میں ان کے خیالات ٹھیک نہیں تھے۔
زرد بخار کی وبا کے دوران انہوں نے سینکڑوں مریضوں کی لہوکاری کی۔ انہیں یقین تھا کہ انہوں نے سینکڑوں جانیں بچائی ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ وہ سینکڑوں تھے جنہیں ان کا طریقہ مار نہیں سکا تھا۔
اور یہ ایسے طریقوں کی خامی تھی۔ اگر آپ خود کو یقین دلا لیں کہ جو ٹھیک ہو گیا، وہ آپ کے طریقے کی وجہ سے اور جو نہ ہو سکا، وہ اس وجہ سے کہ حالت زیادہ خراب ہو چکی تھی ۔۔۔ تو پھر آپ کا پسندیدہ طریقہ ہمیشہ درست رہے گا۔
(اور یہ وجہ ہے کہ میڈیکل سائنس میں سب سے بڑی ایجاد کوئی طریقہ علاج نہیں بلکہ طریقوں کو پرکھنے کا ٹیسٹ ہے جو بیسویں صدی میں عام ہوا ہے)۔
جہاں تک رش کا تعلق ہے تو انہیں سرسٹھ سال کی عمر میں 1813 میں بخار ہوا۔ جب کچھ دن تک یہ نہ اترا تو انہوں نے اپنے طبیب کو لہوکاری کرنے کا کہا۔
ان کی وفات اس سے اگلے روز ہو گئی۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
ہفتہ، 28 مئی، 2022
بدن (40) ۔ خون کی غلط فہمیاں
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں