خون کی جدید سمجھ کا آغاز 1900 میں ویانا کے ایک محقق کی اہم دریافت سے ہوا۔ کارل لینڈسٹائنر نے نوٹ کیا کہ اگر الگ لوگوں کے خون کو آپس میں ملایا جائے تو کئی بار اس میں ڈلیاں سے بن جاتی تھیں جبکہ کئی بار نہیں بنتی تھیں۔ جب اس کا تجزیہ کیا کہ ایسا کب ہوتا تھا تو وہ خون کو تین گروپس میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسے A, B, O کا نام دیا گیا۔ (او گروپ کو لینڈسٹائنر نے دراصل صفر کا نام دیا تھا کیونکہ اس میں کبھی ڈلیاں نہیں بنتی تھیں)۔ ان کی لیبارٹری کے دو اور محققین نے ایک چوتھا گروپ دریافت کیا۔ اسے AB کہا۔
اس سے چالیس سال بعد لینڈسٹائنر نے Rh فیکٹر کی دریافت میں بھی حصہ لیا۔ (اسے پوزیٹو یا نیگیٹو کہا جاتا ہے)۔ خون کی ان اقسام کی دریافت سے اس بات کی وضاحت کرنے میں کامیابی ہوئی کہ آخر خون لگوانے کئی بار ناکام کیوں ہو جاتا تھا۔ یہ ایک بہت اہم دریافت تھی لیکن بدقسمتی سے کسی نے بھی اس وقت اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ تیس سال بعد جا کر انہیں اس دریافت پر 1930 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
اب سوال یہ کہ خون کی ٹائپ ہے کیا اور کام کیسے کرتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام خون کے خلیات اندر سے ایک جیسے ہیں لیکن ان کے باہر اینٹی جن میں فرق ہے۔ یعنی وہ پروٹین جو خلیے کی سطح کے باہر ہے۔ اور یہ خون کی ٹائپ ہے۔ تقریباً چار سو اقسام کے اینٹی جن ہیں لیکن ان میں سے محض چند ہی ایسے ہیں جن کا تعلق خون کی منتقلی کے بارے میں اہمیت رکھتا ہے۔ اور وجہ سے ہم سب نے اے، بی، اے بی یا او کے بارے میں تو سنا ہے لیکن کیل، گبلٹ یا ای ٹائپ کے بارے میں نہیں (اور ایسی بہت سے اقسام ہیں)۔ ٹائپ اے والے لوگ اے یا اے بی والوں کو خون دے سکتے ہیں۔ او ٹائپ والے ہر ایک کو (اس وجہ سے یونیورسل ڈونر کہلاتے ہیں)۔ ٹائپ اے کے خلیات کی سطح پر ٹائپ اے اینٹی جن ہے۔ ٹائپ بی کے خلیات کی سطح پر ٹائپ بی کی۔ ٹائپ اے بی کی سطح پر دونوں طرح کی۔ اگر ٹائپ اے کی قسم کا خون ٹائپ بی والے شخص کو دے دیا جائے تو وصول کرنے والے شخص کا جسم اسے حملہ آور کے طور پر دیکھے گا اور نئے خون پر حملہ کر دے گا۔
ہمیں معلوم نہیں کہ خون کی یہ اقسام کیوں موجود ہیں۔ ایک جزوی وجہ یہ ہے کہ ان کے نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ یعنی کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ایک شخص کا خون دوسرے میں (قدرتی طور پر) داخل ہو جائے۔ اس وجہ سے اس مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی میکانزم کا ارتقا نہیں ہوا۔ جب کہ خون میں کسی خاص اینٹی جن کی حمایت کرنے میں کچھ خاص بیماریوں کے خلاف مزاحمت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف اسی کی قیمت دینا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر او ٹائپ کے خون والے ملیریا کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتے ہیں جبکہ ہیضے کے خلاف کم۔ مختلف ورائٹی کا خون ڈویلپ ہونے اور آبادی میں پھیل جانے کا مطلب کسی نوع کے لئے فائدہ ہے، اگرچہ کسی ایک فرد کو ہمیشہ نہیں۔
خون کی ٹائپ کا ایک اور فائدہ جو حاصل کیا گیا ہے، وہ کسی کی ولدیت کا تعین ہے۔ 1930 میں شکاگو کے ایک مشہور کیس میں دو الگ خواتین نے ایک ہی وقت میں ایک ہسپتال میں بچوں کو جنم دیا۔ گھر آنے کے بعد انہیں پتا لگا کہ ان کے لیبل دوسری فیملی کے لگے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا غلط بچے دے دئے گئے ہیں یا پھر لیبل غلط لگے تھے؟ ہفتوں تک یہ غیریقینیت رہی۔ اس دوران دونوں کے والدین نے وہی کیا جو والدین کرتے ہیں۔ اپنے پاس جو بچے تھے، وہ ان کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ آخر کار ایک پروفیسر کو بلایا گیا۔ انہوں نے چاروں والدین کے بلڈ ٹیسٹ کئے (جو اس وقت کے دور میں دستیاب بہترین ٹیکنالوجی تھی)۔ پروفیسر فش بیک کے ٹیسٹ نے دکھایا کہ ایک جوڑے میں دونوں کا خون او ٹائپ کا تھا۔ ان کا بچہ صرف او ٹائپ کا ہی ہو سکتا تھا۔ جبکہ ان کے پاس جو بچہ تھا، اس کا خون اے بی تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ لیبل درست تھے جبکہ بچے غلط تھے۔ میڈیکل سائنس کی مدد سے بچوں کو درست والدین کے حوالے کر دیا گیا۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں