باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 جولائی، 2023

ذہانت (22) ۔ دماغ کا تجربہ


ڈیوڈ سنوڈن نے 1986 میں ایک تجربہ شروع کیا۔ انہوں نے 678 راہباؤں (nun) کو قائل کیا کہ وہ انہیں اپنا دماغ دے دیں۔ یہ غیرمعمولی سائنسی تحقیق الزائمر کی وجوہات جاننے کے لئے تھی۔
اس تحقیق کے شروع میں ان خواتین کی عمر 75 سے 103 سال کے درمیان تھی۔ انہوں نے بقیہ زندگی سالانہ ایک ٹیسٹ لینا تھا جو کہ ان کی یادداشت کا تھا۔ اور مرنے کے بعد ان کے دماغ کو اس تحقیق کے لئے عطیہ کر دیے جانا تھا۔
اس میں شریک خواتین کی مہربانی کی وجہ سے ایک بہت ہی قابلِ ذکر ڈیٹا سیٹ اکٹھا ہو گیا۔ ان سب کا طرزِ زندگی ایک طرح کا تھا۔ نہ ان کے بچے تھے، نہ ہی تمباکو نوشی یا شراب نوشی وغیرہ سے شغف تھا۔ اس وجہ سے سائنسدان بہت سے خارجی عوامل الگ کر سکتے تھے۔ ان کو صحت کی ایک ہی جیسی سہولیات میسر تھیں۔ ایک ہی قسم کا سماجی سیٹ اپ تھا تو یہ بہترین ڈیٹا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحقیق آگے بڑھ رہی تھی۔ چند سال کے بعد اس ٹیم نے ڈیٹا کا ایک اور خزانہ دریافت کیا۔ جب یہ نوجوان تھیں تو انہوں نے داخلے سے قبل ہاتھ سے اپنے بارے میں مضمون لکھا تھا۔ اس وقت اوسطاً ان کی عمر 22 سال تھی۔ ڈیمنشیا (dementia) کی کوئی بھی علامت ظاہر ہونے سے دہائیاں قبل کا وقت تھا۔ اور حیران کن طور پر سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ یہ مضمون بھی ان کے دور کے مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کر سکتا تھا!
محققین نے ان مضامین کی زبان کا تجزیہ کیا کہ یہ کتنی پیچیدہ تھی۔ نوجوانی میں اچھی قوتِ اظہار اور بڑھاپے میں ڈمنشیا ہو جانے کے امکان کا گہرا تعلق تھا۔
مثال کے طور پر ایک راہبہ، جن کی یادداشت بہترین رہی تھی، ان کا فقرہ اس طرح کا تھا،
“میں نے آٹھویں جماعت 1921 میں مکمل کی تھی تو میری تمنا تھی کہ میں خود کو وقف کر دوں لیکن مجھے اپنے والدین سے اجازت لینے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ میری فرمائش پر سسٹر آگریڈا نے ان سے بات کی اور انہوں نے بخوشی اجازت دے دی”۔
جبکہ ایک اور راہبہ جن کی یادداشت ہر سال خراب ہوتی گئی تھی، انہوں نے آنے سے پہلے کی ساری کہانی ایسے بتائی تھی،
“سکول کے بعد میں نے پوسٹ آفس میں کام کیا، پھر یہاں آ گئی”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تعلق اتنا گہرا تھا کہ محققین صرف یہ خطوط پڑھ کر اندازہ لگا سکتے تھے۔ جن کی لسانی قابلیت “کم” کے گریڈ میں تھی۔ ان میں سے نوے فیصد کو یہ ذہنی بگاڑ ہوا تھا جبکہ جنہوں نے بڑھاپے میں اپنی اچھی ذہنی صلاحیت برقرار رکھی تھی، ان میں سے صرف تیرہ فیصد ایسی تھیں جن کا سکور کم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سٹڈی سے جو چیز سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ محض ڈیٹا کی بنیاد پر ہم مستقبل میں دور کی کتنی اچھی پیشگوئی کر سکتے ہیں۔ خواہ ہمیں اس تعلق کی وجہ کا کچھ بھی علم نہ ہو۔ (مثلاً، کیا تعلیم کی وجہ سے ڈیمیشیا کا امکان کم ہوتا ہے؟ یا کیا الزائمر کا رجحان رکھنے والے سادہ زبان کو ترجیح دیتے ہیں؟)۔
لیکن ڈیٹا اس وجہ کو جانے بغیر آئندہ دہائیوں میں اس بگاڑ کے ڈویلپ ہونے کے امکان کے بارے میں بتا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے لئے اس میں جو اہم نکتہ ہے، وہ یہ کہ مستقبل کی صحت کے بارے میں خفیف سگنل ڈیٹا کے غیرمتوقع حصوں سے مل سکتے ہیں۔ اور مستقبل میں اگر ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والے طاقتور الگورتھم اس کی چھان بین کر سکیں تو یہ کیا کچھ بتا سکیں گے۔۔۔
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں