باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 10 اکتوبر، 2023

جغرافیہ کے قیدی (55) ۔ کوریا اور جاپان


کوریا کے جزیرہ نما پر بڑا مسئلہ ہے۔ یہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کا ہے۔ اسے کس طرح سے حل کیا کریں؟ اسے نہیں کیا جا سکتا۔ بس، آگے کے لئے ٹالنا ہے۔
ملیشیا سے لے کر روس تک، اس خطے کی نگاہیں اس مسئلے پر رہتی ہیں۔ تمام ہمسائے جانتے ہیں کہ یہ پھٹ سکتا ہے اور اپنے ساتھ بہتوں کو ڈبو سکتا ہے۔
چینی شمالی کوریا کی طرف سے لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ لیکن نہ ہی یہ متحد کوریا چاہتے ہیں جس میں امریکی فوجی اڈے ان کی سرحد کے قریب آ جائیں۔ امریکی جنوبی کوریا کی طرف سے لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن یہ نہ ہی یہ افورڈ کر سکتے ہیں کہ ایسا لگے کہ اپنے دوست کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔
جاپان کی اس جزیرہ نما میں ملوث ہونے کی پرانی تاریخ ہے لیکن وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ یہ ان کے لئے جھنجھٹ ہے۔
حل سمجھوتہ ہے۔ لیکن نہ ہی شمالی کوریا کی قیادت اس میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی جنوبی کوریا کی۔ کسی کو واضح نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔
امریکہ اور کیوبا برسوں تک ایک دوسرے کے ساتھ نازک رقص کرتے رہے ہیں۔ اپنی دیرینہ دشمنی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو باور کرواتے رہے ہیں کہ وہ دوسرے سے الجھنا نہیں چاہتے۔ لیکن یہاں پر ایسا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمالی کوریا ڈھائی کروڑ کی آبادی رکھنے والا غریب ملک ہے۔ کمیونسٹ ہائیرارکی رکھنے والا اور ایک منفرد ہی ملک۔ چین اس کی حمایت کرتا ہے۔ اس کی جزوی وجہ اس کا خوف ہے کہ پناہ گزینوں کا ریلا دریائے یالو پار کر کے یہاں کا رخ نہ کر لے۔
امریکہ کو فکر ہے کہ اگر یہاں سے فوج میں تخفیف کرے گا تو شمالی کوریا کو غلط پیغام جائے گا اور جھگڑا بڑھانے کے لئے شہہ ملے گی۔ سرحد پر اس کے تیس ہزار فوجی تیار بیٹھے ہیں۔
اس جزیرہ نما کا دوسرا نصف جنوبی کوریا ہے جو ترقی یافتہ ہے۔ جھگڑے کی صورت میں بڑا نقصان اسکا ہو گا اور یہ اپنی ترقی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن دوستی کی طرف کوئی خاص کوشش بھی نہیں کرتا۔
مشرقی ایشیا کے اس ڈرامہ کے ایکٹر یہ جانتے ہیں کہ اگر غلط وقت پر کسی بھی چیز پر زور دیا جائے گا تو حالات بگڑنے کا خطرہ بہت ہے۔ بلکہ بہت زیادہ بگڑنے کا خطرہ ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ دو دارالحکومت راکھ کا ڈھیر بن جائیں، خانہ جنگی چھڑ جائے، میزائل ٹوکیو پر گر رہے ہوں۔ چین اور امریکہ کی افواج آمنے سامنے ہوں۔ اور ایک سائیڈ کے پاس نیوکلئیر ہتھیار ہیں۔ اگر شمالی کوریا گرتا ہے تو یہ پھٹ بھی سکتا ہے اور ساتھ ہی یہ گڑبڑ سرحدوں پار پھیل سکتی ہے۔ جنگ اور پناہ گزینوں کی صورت میں۔ اس لئے یہاں کے فیصلہ ساز پھنسے ہوئے ہیں۔ اور اس کا طریقہ یہ نکالتے ہیں کہ اس کا حل قیادت کی اگلی نسل پر ڈال دیا جائے اور پھر اس سے اگلی پر۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمالی کوریا اپنے پاگل پن کو اپنی پالیسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی میں ہر ایک سے مشکوک اور ہوشیار رہنا شامل ہے، ماسوائے چین کے۔ اور چین پر بھی مکمل زیادہ بھروسہ نہیں کرتا۔ تاہم، اس کی 84 فیصد سے زائد تجارت چین سے ہی ہے۔
اپنی آبادی کیلئے یہ طاقتور اور شاندار ریاست ہے جو تمام ظالم دنیا کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے۔ یہ خود کو Democratic People’s Republic of Korea (DPRK)
کہلاتا ہے۔ اس کا ایک منفرد سیاسی فلسفہ ہے جس کا نام juche ہے۔ یہ سخت نیشنلزم، کمیونزم اور قومی خودانحصار کا مرکب ہے۔
حقیقت میں یہ دنیا کی سب سے کم جمہوری ریاست ہے، نہ ہی یہ لوگوں کے لئے ہے اور نہ ہی ری پبلک ہے۔ یہ ایک خاندان اور ایک پارٹی کی حکمرانی ہے۔ آمریت کے ٹیسٹ کو پورے نمبر سے پاس کرتی ہے۔ من مانی گرفتاریاں، تشدد، عقوبت گاہیں، سنسرشپ، خوف کی حکومت، کرپشن، شو ٹرائل ۔۔۔ اکیسویں صدی میں کوئی ان معاملات میں اس کے مقابلے پر نہیں۔
شمالی کوریا خودساختہ تنہائی کا شکار ہے۔ ریاست کا نالج پر مکمل قبضہ ہے جس سے خبر نہ آ سکتی ہے اور نہ ہی نکل سکتی ہے۔ اس کا تجزیہ کرنا غیرشفاف شیشے میں سے دھوپ کی عینک پہن کر نظارہ کرنے جیسا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوریا کی لوک کہانی یہ ہے کہ اس کی پیدائش 2333 قبلِ مسیح میں ہوئی تھی۔ جب آسمانی دیوتا ہے اپنے بیٹے ہواننگ کو زمین پر پائیکٹو پہاڑ پر اتارا۔ اس نے ایک ریچھ کو عورت بنا کر اس سے شادی کی۔ اور ان کے بیٹے ڈانگون نے قوم بنائی۔
تخلیق کی یہ کہانی تیرہویں صدی کی ہے اور یہ اس چیز کی وضاحت کرتی ہے کہ کمیونسٹ ریاست میں ایک خاندان کی موروثی حکومت کیوں ہے۔ اس کے سربراہ کم جون ال کو “پائیکٹو پہاڑ کا چمکتا ستارہ” کہا جاتا تھا۔ ان کے دوسرے القابات بھی ہیں۔ ان کے والد کے بھی تھے اور ان کے بیٹے کم جونگ ان کے بھی ہیں۔
یہاں کے لوگ کیا سوچتے ہیں؟ اس کا علم نہیں لیکن یہ غالباً اہم بھی نہیں۔ لیکن اس کے ایسے رویے کی وجہ جزوی طور پر اس کی تاریخ اور لوکیشن کی ہے۔
(جاری ہے)

 
   

1 تبصرہ:

  1. بہت اچھا سلسلہ ہے ۔ علم کی نئی راہیں کھل رہی ہیں ۔۔لیکن کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے ترجمہ ٹھیک نہیں ہوا ۔ جسے یہاں زرد دریا کا ترجمہ یالو دریا کیا گیا ہے ۔ اور بھی ترجمے میں بہت سقم ہے ۔ اور ساتھ ہی قسط نمبر 54 بھی غائب ہے ۔ پلیز ذرا اس کو بھی دیکھ لیں

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں