باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 22 اپریل، 2024

ہوا (12) ۔ لاووسیے کی دریافتیں


لاووسیے امیر گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ جب انہوں نے این میری سے شادی کی تو امیر تر ہو گئے۔ اور جب انہوں نے فرمی جنرالی کے نصف حصص خریدے تو مزید امیر ہو گئے۔ یہ نجی کمپنی بادشاہ کے لئے ٹیکس اکٹھا کرتی تھی۔ ہزاروں اشیا پر ٹیکس کی وصولی اس کمپنی کے پاس تھی۔ یہ ان کی زندگی کی بہترین سرمایہ کاری تھی ۔۔۔ اس سے سالانہ پچاس لاکھ ڈالر کے برابر کی آمدنی ہو جاتی تھی۔ اور یہ ان کی زندگی کی بدترین سرمایہ کاری تھی ۔۔۔ اس کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر چکانا پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاوسیے 1772 میں انتیس سال کے تھے جب انہوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ سائنس پر خرچ کرنا شروع کر دیا۔ ان کا ایک مشہور تجربہ دھوپ سے ہیرا جلانے کا تھا۔ بہت بڑا محدب عدسہ تھا جس سے دھوپ کو ہیرے پر مرکوز کیا۔ اور ہیرا غائب ہو گیا۔
جہاں پر یہ دھوپ کی طاقت دکھاتا تھا، وہاں پر اس نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہیرا غائب ہو کر کہاں گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاوسیے کو فلوگسٹان کی تھیوری سے اتفاق نہیں تھا۔ نومبر 1772 کو ان کے پاس ٹھوس ثبوت آ گیا۔
جب لکڑی یا موم بتی وغیرہ جلتے ہیں، تو خیال یہ تھا کہ فلوگسٹان نکل جاتا ہے جس وجہ سے ان کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ لیکن جب لاوسسیے عدسے کی مدد سے چیزیں جلاتے تھے تو وزن زیادہ ہو جاتا تھا۔ اور اس کی کوئی تک نہیں بن رہی تھی۔
لاووسیے نے پریسٹلے کے تجربات دیکھے تھے۔ اور انہیں شک تھا کہ پریسٹلے نے کوئی نئی گیس آزاد کی ہے لیکن انہیں اس کا معلوم نہیں۔ وہ ان تجربات کو اپنی لیبارٹری میں دہرانے لے آئے۔ کئی تجربات کے بعد انہوں نے اس گیس کو الگ کر لیا اور اسے آکسیجن کا نام دیا۔  انہوں نے دریافت کیا کہ جلنے کی کیمسٹری کی وضاحت یہ گیس اچھے طریقے سے کر دیتی ہے۔ جلنے کے عمل میں آکسیجن کسی شے کے ساتھ ملکر روشنی اور حرارت خارج کرتی ہے۔ لکڑی اور کوئلے کا کاربن آکسیجن کے ساتھ ملکر کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتا اور اڑ جاتا ہے۔ آکسیجن دھاتوں کے ساتھ بھی اسی طریقے سے ملتی ہے لیکن یہ بھاری کمپاؤنڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی طرح اڑ نہیں جاتے۔ اور یہ وجہ ہے کہ دھاتیں جلنے کے بعد وزن بڑھا لیتی ہیں کیونکہ انہوں نے آکسیجن جذب کی ہوتی ہے۔ اس وضاحت نے فلوگسٹان کو غیرضروری کر دیا۔ لاووسیے اس کے بغیر جلنے کی وضاحت کر سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاووسیے کے تجربات کی اگلی سیریز آکسیجن اور سانس پر تھی۔ (ان کی لیبارٹری میں شوقین تماشائیوں کے لئے دیکھنے کی جگہ تھی اور یہ شایقین کے لئے دلچسپی کا باعث تھے)۔ انہوں نے اپنی ساتھی سیگوئن کو ہر طرف سے پٹیوں سے ڈھک دیا۔ اس پر ربڑ چڑھا کر سیل کر دیا۔ ایک ٹیوب سیگوین نے ہونٹوں پر لگائی اور اسے آکسیجن کی بوتل سے جوڑ دیا۔
تجربات میں ان سے کئی طرح کے کام کروایا گئے۔ خالی بیٹھنا، مرغن اور بھاری کھانا کھا کر ہضم کرنا، پیر سے ورزش کرنا وغیرہ ۔۔۔ لاووسیے یہ پیمائش کرتے کہ کتنی رفتار سے آکسیجن صرف ہو رہی ہے۔ ان کے کام نے واضح طور پر یہ کنکشن بنا دیا کہ سانس اور گیس کے استعمال ہونے کا براہ راست تعلق ہے۔ جتنی محنت کرنا پڑتی، اتنی تیزی سے آکسیجن استعمال ہوتی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ نکلتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان تجربات نے پہلی بار ایک پرانی پہیلی کا جواب بھی دے دیا۔ جب آپ ورزش کرتے ہیں اور وزن کم ہوتا ہے تو یہ جاتا کہاں پر ہے؟ اس کا زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صورت میں باہر نکلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام تر شواہدات کے ساتھ لاووسیے نے ستمبر 1775 کی کانفرنس میں اپنے نتائج کو پیش کر دیا۔ یہ کیمسٹری کے لئے اہم سنگِ میل تھا۔ اگرچہ پریسٹلے کو یہ پسند نہیں آیا۔ انہیں اس پر غصہ تھا کہ لاووسے آکسیجن کی دریافت کا سہرا لے رہے ہیں۔ 
یہ بحث آج بھی ہوتی ہے کہ آکسیجن کو دریافت کیا کس نے تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شیل اور پریسٹلے نے اسے پہلے اکٹھا کیا تھا۔ اور اگر پریسٹلے نے نہ بتایا ہوتا تو لاووسیے کی اس جانب توجہ بھی نہ جاتی۔ لیکن اس کو سمجھا پہلی بار لاووسیے نے تھا۔
یہ بحث اہم نکتہ نظرانداز کر دیتی ہے۔ لاووسیے کی دلچسپی آکسیجن میں نہیں تھی بلکہ اس میں تھی کہ یہ کیمسٹری کے بارے میں کیا بتاتی ہے۔ اس سے پہلے کئی کیمسٹ یہ تجویز کر چکے تھے کہ جلنے اور سانس لینے میں کچھ مشترک ہے لیکن لاووسیے نے آکسیجن کی مدد سے اس ربط کو نکالا تھا۔ ہائیڈروجن کو “جلا” کر پانی بنایا تھا ( یہ کام کیونڈش پہلے کر چکے تھے)۔ کیونڈش نے ری ایکشن سے پہلے اور بعد میں بننے والی گیس اور پانی کے ماس کی پیمائش کی تھی اور معلوم کیا تھا کہ یہ برابر ہیں۔ لاووسیے نے بھی یہ کیا اور اس کے لئے حیران کن طور پر ایکوریٹ ترازو ایجاد کیا تھا جس میں 0.0005 گرام تک کا فرق نکالا جا سکتا تھا۔ کیونڈش کے برعکس، لاووسیے زیادہ بڑی تصویر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ برابری صرف اس ری ایکشن تک محدود نہیں بلکہ “کسی بھی” کیمیائی ری ایکشن کے لئے درست ہے۔ اور یہاں سے انہوں نے کیمسٹری کا اہم ترین قانون دریافت کیا جو کہ ماس کی کنزرویشن کا اصول تھا۔ اس کے مطابق کسی بھی ری ایکشن میں کچھ بھی تبدیل ہو سکتا ہے لیکن ماس بالکل تبدیل نہیں ہو گا۔  پہلے اور بعد میں یہ یکساں ہو گا۔ ماس برقرار رہنے والی شے ہے۔
یہ کیمسٹری میں لاووسیے کی خدمات کا آغاز تھا۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے وضاحت کی کہ کوئی بھی شے درجہ حرارت کی تبدیلی پر ٹھوس، مائع یا گیس کی حالت میں بدل سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ ہر شے یا تو عنصر ہے (آکسیجن، کاربن، لوہا وغیرہ) یا پھر ان عناصر کا ملاپ ہے۔ اور یہ کیمسٹری کا سب سے مرکزی خیال ہے۔ ایک کیمسٹ کے مطابق “لاووسیے نے کوئی ایسی چیز دریافت نہیں کی جو پہلے نامعلوم تھی۔ لیکن ان کی لازوال عظمت اس میں ہے کہ انہوں نے اس سائنس میں نئی روح پھونک دی۔ ان کی خدمات ایک نئے زاویہ فکر دینے کی تھیں”۔
لاووسیے کی لکھی کتاب (Traite Elémentaire de Chimie) کی حیثیت کیمسٹری میں ویسی سمجھی جاتی ہے جیسے فزکس میں نیوٹن کی پرنسپیا یا بائیولوجی میں ڈارون  کی اوریجن آف سپیشیز کی ہے۔
لاووسیے کی کتاب 1789 میں شائع ہوئی۔ یہ وہ سال تھا جب فرانس میں ایک اور انقلاب آیا۔ لاووسیے نے اپنی کتاب سے کیمسٹری کی دنیا میں انقلاب برپا کیا لیکن بدقسمتی سے وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور فرانس کے انقلابیوں کا شکار ہو گئے۔
(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں