باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 22 اپریل، 2024

ہوا (13) ۔ توازن کی ڈور


آکسیجن فوٹوسنتھیسس کرنے والی نباتات اور بیکٹیریا سے آتی ہے۔ اس بات کو سائنسدان بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ البتہ، ابھی اس کی مکمل سمجھ نہیں کہ جانداروں نے آکسیجن کو کس طرح پیدا کرنا شروع کیا تھا اور اس نے زمین کی نائیٹروجن سے بھری پرانی فضا کو کس طرح بدل دیا۔
امکان ہے کہ ابتدائی جاندار سمندروں کے نیچے آتش فشانی دہانوں کے پاس نمودار ہوئے تھے۔ اور اپنے میٹابولزم کے لئے سلفر استعمال کرتے تھے۔ انہیں اینایروبک بیکٹیریا کہا جاتا ہے اور ایسے بیکٹیریا آج بھی موجود ہیں۔ تین ارب سال پہلے، ان بیکٹیریا کی ایک لائن کا ارتقا سائنوبیکٹیریا کی صورت میں ہوا۔ یہ نہ صرف زیرِسمندر آتش فشانی حرارت کو استعمال کرتے تھے بلکہ دھوپ کو بھی۔ یہ فوٹوسنتھیسس کرنے والی پہلی نوع نہیں تھے۔ خیال ہے کہ کئی دیگر انواع موجود تھیں جو کہ دھوپ سے ایک خاص ویولینتھ کو استعمال کرتی تھیں۔ اس وقت کے ساحلوں اور لہروں میں ان کے جامنی، سرخ، سبز قالین سے تیرتے ہوں گے۔
سائنوبیکٹیریا کے منفرد ہونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ دھوپ کو استعمال کر کے پانی کے مالیکیول سے الیکٹران اتار دیتے تھے۔ اب انہیں سلفر کی ضرورت نہیں تھی اور یہ زمین پر پائے جانے والے سب سے عام مالیکیول کو استعمال کر سکتے تھے جو کہ پانی ہے اور اب تیزی سے پھیل سکتے تھے۔
دھوپ سے توانائی بدلنے کا کام سبز رنگ کے مالیکیول، کلوروفل، سے شروع ہوتا ہے۔ یہ اینٹینا کا کام کرتا ہے اور آسمان سے روشنی کو جذب کرتا ہے۔ اس سے آگے بائیوکیمسٹری ذرا پیچیدہ ہو جاتی ہے لیکن بنیادی طور پر یہ دھوپ سے کچھ مالیکیول کو توڑ کر نئے مالیکیول بناتے تھے جن کو بعد میں توانائی کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہ گلوکوز جیسی شوگر ہیں۔
اور اس ری ایکشن میں جو چیز فاضل رہ جاتی ہے، یہ آزاد آکسیجن ہے۔ سائنوبیکٹیریا نے زمین پر پھیلنا شروع کیا۔ اور زمین کی تاریخ میں پہلی بار آزاد آکسیجن فضا کا حصہ بننے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آکسیجن اس وقت کے جانداروں کے لئے سخت زہریلی شے تھی۔ جب الٹراوائلٹ شعاعیں اس سے ٹکراتی ہیں تو آزاد ریڈیکل بن جاتے ہیں۔ یہ ڈی این اے اور پروٹین کو چبا کر پھاڑ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ نائیٹروجن فکس کرنے والے بیکٹیریا کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔ آکسیجن خالص موت تھی۔
ان جانداروں کی خوش قسمتی یہ تھی کہ آزاد آکسیجن کو اکٹھا ہونے میں دشواری تھی۔ کیونکہ آکسیجن ہر شے سے فٹافٹ ملاپ کر لیتی ہے۔ سمندروں میں اس نے حل شدہ لوہے سے ملاپ کر کے اسے زنگ بنا دیا۔ اس کے چھوٹے ذرات سمندر کی تہہ میں بیٹھ گئے۔ ہزاروں سالوں میں ان تہوں میں اکٹھے ہوتے گئے۔ جب اس دور کے قدیم سمندر کی تہہ خشکی پر آئی ہے تو یہی تہیں ہیں جہاں پر لوہے کے نوے فیصد ذخائر موجود ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ قدیم بیکٹیریا ہیں۔
جب تک لوہا موجود تھا، آکسیجن نے فضا کو زیادہ آلود نہیں کیا تھا۔ لیکن وقت گزرتا گیا اور سمندر میں لوہے کے ذخائر ختم ہونے لگے۔ اس کے بعد بڑی بربادی کا وقت تھا۔
آزاد آکسیجن سمندروں میں اکٹھی ہونے لگی جہاں پر اس نے زندگی کا خاتمہ شروع کر دیا۔ پھر یہ اوپر آئی اور فجا کا حصہ بننے لگی۔ اگلے چند سو ملین سالوں میں اس نے فضا کو بھرنا شروع کر دیا۔ سائنسدان اسے Great oxygenation event کہتے ہیں۔ زندگی کی معدومیت کا یہ سب سے بڑا خطرہ تھا۔ ہر قسم کی زندگی کو خاتمے کا سامنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب کچھ مائیکروب نے اس کا زہر کا مقابلہ شروع کیا۔ کچھ نے باہر سخت جھلی ڈویلپ کر لی تا کہ آکسیجن کو باہر رکھا جا سکے۔ کچھ نے خاص دفاعی دیواریں بنا لیں تا کہ نازک مالیکیلول بچائے جا سکیں۔ جبکہ کچھ نے کمال ہی کر دیا، ان کے خلیاتی مشینری نے اس گیس کو توانائی کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور یہ گیس اپنے فعال ہونے کی وجہ سے اس کے لئے بہترین تھی۔ یہ ناقابلِ یقین کام جن سپیشل بیکٹیریا نے کیا انہیں ایروبک بیکٹریا کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ان بیکٹیریا کے شکرگزار ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے کثیرخلوی زندگی بھی ممکن ہوئی۔ حیوانات کے خلیات میں مائیٹوکونڈریا ہوتا ہے جو خلیات میں آکسیجن کا استعمال ممکن بناتا ہے۔ یہ ان بانی بیکٹیریا سے آیا ہے۔
مائیٹوکونڈریا آکسیجن اور جانداروں کے تعلق کو سمجھنے کی کنجی ہے۔ ہر بچہ بھی یہ جانتا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے آکسیجن درکار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ “کیوں” درکار ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مائیٹوکونڈریا آکسیجن کو استعمال کرتے ہوئے  گلوکوز جیسے مالیکیول کو توڑ کر توانائی نکال لیتا ہے۔ اس کے بغیر ہماری بیٹریاں ختم ہو جائیں اور ہم سیکنڈوں میں وفات پا جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آکسیجن نے نہ صرف زندگی کی شکل کو بدل دیا بلکہ زمین کی سطح کو بھی۔ ایک بار جب آکسیجن ہوا میں اکٹھی ہو گئی تو اس نے گرین ہاؤس گیسوں، جیسا کہ میتھین، پر حملہ کیا۔ اور انہیں ختم کر دیا۔ اس سے زمین کا تھرموسٹیٹ گر گیا اور درجہ حرارت گرنے لگا۔ اس قدر کم کہ ایک خیال ہے کہ زمین پر ایسا دور آیا تھا جب تمام زمین برف سے ڈھکی تھی (snowball earth)۔ اور اس وقت خطِ استوا کے قریب بھی گلیشیر تھے۔ اس کے علاوہ آکسیجن نے زمین کو سنوارنا شروع کیا۔ زمین پر 4500 معدنیات میں سے دو تہائی صرف اس وقت بن سکتے ہیں جب زمین پر آکسیجن ہو۔  اس میں فیروزہ، مرمرِ سبز، ایزورائٹ جیسے پتھر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی معدنیات ہیں جو آکسیجن کے موجودگی میں نہیں رہ سکتے۔ ان کا خاتمہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آکسیجن اب ہوا کا 21 فیصد حصہ ہے۔ تقریباً نصف نباتات سے جبکہ باقی مائیکروب سے آتا ہے۔ نائیٹروجن اربوں سال میں آہستہ آہستہ جمع ہوئی ہے لیکن آکسیجن کے ساتھ ایسا نہیں۔ سب سے پہلے 2.3 ارب سال پہلے یہ فضا کا حصہ بنی تھی۔ اگلے چند سو ملین سال میں یہ ایک ٹریلین میں سے ایک مالیکیول سے بڑھ کر پانچ سو میں سے ایک مالیکیول تک پہنچ گئی تھی۔
آکسیجن کا یہ تناسب 1.8 ارب سال پہلے رک گیا۔ اس وقت زمین کے معدنیات اسے جذب کر رہے تھے۔ لیکن ساٹھ کروڑ سال پہلے یہ پھر بڑھنے لگی۔ معدنیات مزید جذب نہیں کر سکتے تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں پودوں اور جانداروں کی پیچیدگی فاسل ریکارڈ میں نظر آنے لگتی ہے۔ یہ بھاگ سکتے تھے، لڑ سکتے تھے، شکار کر سکتے تھے۔
اگلے سینکڑوں ملین سال میں آکسیجن کی سطح اوپر نیچے ہوتی رہی ہے۔ پندرہ فیصد سے پینتیس فیصد تک یہ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ اور ان تبدیلیوں کے اثرات ہوتے تھے۔ جب یہ زیادہ ہو تو آگ فوری لگ جاتی ہے۔ جب یہ کم ہو تو آتش فشاں اور آسمانی بجلی کے لئے کچھ جلانا دشوار ہوتا تھا۔
آگ کے سب سے پہلے آثار صرف چند سو ملین سال پرانے ہیں جب جلے درختوں کا کوئلہ ملتا ہے۔ اگر ہم وقت میں سفر کر کے پیچھے جا سکیں تو یہ وہ پہلا مقام ہے جب ہم زمین کی ہوا میں سانس لینے کے قابل ہوں گے۔ (اگر آکسیجن سترہ فیصد سے نیچے ہو تو ہمارا ذہن دھندلانے لگے گا اور حرکت کرنا مشکل ہو گا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ آکسیجن سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے حشرات تھے۔ چونکہ کیڑوں کے پاس پھیپھڑے نہیں ہوتے۔ ان کے بیرونی خول میں سوراخوں سے آکسیجن اندر جاتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ اگر کیڑوں کا سائز بڑھ جائے تو پھر مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ جیومیٹری ہے۔ سطحی رقبہ کے مقابلے میں حجم تیزی سے بڑھتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ ان کے سوراخ ان کے حجم کو آکسیجن فراہم کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ وجہ ہے کہ کیڑے چھوٹے ہوتے ہیں۔
لیکن جب آکسیجن پینتیس فیصد تک پہنچ گئی تھی تو پھر سائز کی یہ قدغن ڈھیلی ہو جاتی ہے۔ اور اگر ٹائم مشین والے صاحب تیس کروڑ سال پہلے جائیں تو انہیں تین فٹ لمبے کنکھجورے، کبوتر کے سائز کی مکھیاں اور ٹائر جتنی بڑی مکڑیاں ملیں گی۔ یہ آکسیجن کا کمال تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ سطح پر ہمیں چار سیکنڈ میں ایک سانس کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی بیس ہزار سانس روزانہ۔ اس کا مطلب یہ کہ ہمیں روز 1,000,000,000,000,000,000,000,000 آکسیجن مالیکیول استعمال کرنا ہوتے ہیں۔ سات ارب انسان ہوں تو اسے ضرب دے لیجئے۔ اس کے علاوہ ان گنت دوسرے جاندار جو آکسیجن لیتے ہیں۔
اگر آکسیجن پیدا کرنے والے جاندار غائب ہو جائیں تو ایک ہزار سال کے اندر اندر تمام آکسیجن استعمال کر لی جائے گی اور تمام جاندار وفات پا جائیں گے۔
لیکن پودے اور سائنوبیکٹریا روزانہ کے آکسیجن بجٹ کو واپس پورا کرتے ہیں۔ اور اگر جانداروں کی الگ انواع کو دیکھیں تو یہ خوبصورت تجارت کا توازن ہے۔ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی لے کر شوگر اور آکسیجن بناتے ہیں۔ جانور شوگر اور آکسیجن لے کر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی بناتے ہیں۔ یہ نفیس توازن ہے جس میں کوئی ماہر اکاؤنٹنٹ بھی غلطی تلاش نہیں کر سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
فزکس میں ہم سمٹری اور فطرت کی گہری خوبصورتی کی بات سنتے ہیں۔ یہ درست ہے۔ لیکن آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی یہ سمٹری کسی سے کم نہیں۔ اسے پانے میں بہت وقت لگا ہے۔ اور اس میں اس قدر زیادہ چیزیں ہیں جو خراب ہو سکتی ہیں ۔۔۔ لیکن ہوتی نہیں۔ برگد کے درخت، جنگل کے جانور، رنگ برنگے پرندے، سائنوبیکٹیریا اور ہم ۔۔۔۔ سب میں اکٹھے ہیں۔

(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں