باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 27 اپریل، 2024

ہوا (16) ۔ بے ہوشی


سن 1850 سے پہلے لوگ سرجری کروانے سے زیادہ اس بات کو ترجیح دیتے تھے کہ خود اپنی جان لے لیں۔ آپریشن انتہائی تکلیف دہ چیز ہوا کرتی تھی۔ بہترین سرجن وہ سمجھے جاتے تھے جن کی رفتار تیز ہو۔ ٹانگ کاٹ دینے یا پتھری نکال دینے سے زیادہ پیچیدہ آپریشن کرنا ممکن نہیں تھا۔ سرجن بننا بھی بڑا دل گردے والا کام تھا۔
دسمبر 1844 کو ہوریس ویلز اور ان کے دوستوں نے نائیٹرس پہلی بار استعمال کی اور مدہوش ہو گئے۔ جب وہ واپس نارمل ہوئے تو یہ دیکھ کر چونک گئے کہ ان کے دوست کی ٹانگ خون سے بھری ہے۔ دوست کے لئے بھی یہ اتنا ہی حیران کن تھا۔ وہ تکلیف میں تھے لیکن کسی کو علم نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے۔
ویلز ڈینٹسٹ تھے اور اس پر سوچتے رہے۔ اگلی صبح انہوں نے نائیٹرس کا ایک بڑا تھیلا لیا اور ایک اور ڈینٹسٹ کو پکڑا۔ تھیلا سونگھا اور مست ہو گئے۔ ان کے دوست نے اس دوران میں فٹافٹ ویلز کی عقل داڑھ نکال دی جو انہیں تنگ کر رہی تھی۔ چند منٹ بعد جب ویلز کے حواس بحال ہوئے تو انہوں نے نکلے ہوئے دانت کو محسوس کیا۔ “مجھے اتنی تکلیف بھی نہیں ہوئی تھی جتنی سوئی چبھنے کی ہوتی ہے”۔
اگلے چند ہفتوں میں ویلز نے اس گیس کا تجربہ کرنا شروع کر دیا۔ اپنے ایک دوست مورٹن کو اپنا ساتھی بنایا۔ ہر روز ہزاروں لوگوں کے دانت نکالے جاتے تھے۔ دیلز اور مورٹ ن کے لئے یہ بڑا موقع تھا۔
جنوری 1845 کو مورٹن نے میسی چیوسٹس جنرل ہسپتال میں اس کی عوامی نمائش رکھی۔ ایک طالبعلم کا دانت نکالے جانا تھا۔ لیکن تجربہ زیادہ کامیاب نہیں ہوا۔ اسے آپریشن کے درمیان کراہتے دیکھا جا سکتا تھا۔ شاید ہر شخص پر اس کا اثر ایک جیسا نہیں تھا۔
مورٹن یہاں پر رکے نہیں۔ اگر نائیٹرس نے کام نہیں کیا تھا تو کیا کوئی اور شے ہو سکتی تھی؟ نہ ہی ان کے پاس میڈیکل کی تربیت تھی اور نہ ہی کیمیکل لیکن انہیں امید تھی کہ کچھ تلاش کر لیں گے اور ایک سال کے اندر اندر انہوں نے یہ کر لیا۔ یہ کیمیکل ایتھر تھا۔
اس پر کئے جانے والے ٹرائل اچھے رہے۔ اور انہوں نے اگلی نمائش اسی ہسپتال میں اکتوبر 1846 کو طے کر لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت زیادہ تر سرجن تکلیف کو زندگی کی ناخوشگوار لیکن ناگزیر حقیقت سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر وارن ان میں سے نہیں تھے اور جب مورٹن نے اس نمائش کا ذکر کیا تو انہوں نے خوشدلی سے اس کی حامی بھر لی۔
ایک رنگساز کے جبڑے سے ٹیومر نکالنے جانا تھا۔ ڈاکٹر وارن نے مورٹن کو سولہ اکتوبر کو صبح دس بجے بلا لیا۔
مورٹن کو ایک اور مسئلہ تھا۔ وہ اس ایجاد سے بہت سے پیسے کمانا چاہتے تھے لیکن ایتھر تو عام سی شے تھی۔ یہ کیسے کیا جائے کہ کسی کو پتا نہ لگے کہ یہ کام کس کیمیکل سے کیا جا رہا ہے۔ ایتھر کی میٹھی خوشبو اس کا بتا دیتی تھی۔ انہوں نے اس کے لئے ایک بوتل بنائی جس کے والو اور پائپ سے یہ نکلتی تھی اور اسے لے کر ہسپتال پہنچ گئے۔
رنگساز چند منٹ بعد ہوش کھو بیٹھا تھا۔ سرجری میں وقت لگا لیکن اس تمام وقت میں مریض کو کچھ معلوم نہیں ہوا کہ اس پر کیا بیت رہی تھی۔ اس روز جو تماشائی اس کو دیکھ رہے تھے، اس میں اکثریت میڈیکل کے طلبا کی تھی۔ سب سے اچنبھے والی چیز ان کے لئے خاموشی تھی۔
آپریشن ختم ہوا تو تھیٹر تالیوں سے گونج اٹھا۔
سرجری کے لئے یہ اہم سنگ میل تھا۔
(جاری ہے)

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں