باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 17 اپریل، 2024

ہوا (6) ۔ نائیٹروجن


ہمارے اور دیگر جانداروں کی اجسام کا 93 فیصد وزن صرف تین عناصر کی وجہ سے ہے۔ یہ آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن ہیں۔ خلیات کو کام کرنے کے لئے درجنوں دیگر عناصر کی بھی ضرورت ہے۔ پودے یا جانور انہیں ماحول سے آسانی سے نکال لیتے ہیں۔ لیکن اس میں ایک بڑا استثنا ہے۔ یہ نائیٹروجن ہے۔
ہمارے جسم میں یہ چوتھے نمبر پر پائے جانے والا عنصر ہے اور وزن کا تین فیصد حصہ ہے۔ اور یہ ہوا میں سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر ہے۔ ہم جو سانس اندر لے کر جاتے ہیں، اس میں پانچ میں سے چار مالیکیول نائیٹروجن کے ہوتے ہیں۔ اسے جسم میں لے جانا آسان ہونا چاہیے؟ بالکل نہیں۔ اگرچہ اس کی بہتات ہے لیکن زیادہ تر جانداروں کو اس کے ہر ایٹم کے لئے لڑائی کرنا پڑتی ہے۔ ہم گیس کی صورت میں اسے براہ راست استعمال نہیں کر سکتے۔ اسے پہلے کسی اور شے میں بدلنا ہوتا ہے۔
زمین پر اربوں سال تک یہ کام صرف چند خاص جراثیم کرتے رہے جن کے پاس یہ ضروری جادو تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ان بیکٹریا کے علاوہ انسان وہ پہلی نوع بن گئے جنہوں نے یہ کام کر دکھایا۔ یہ کرنے والے دو جرمن سائنسدان تھے جو صنعتی کیمیکل میں مہارت رکھتے تھے۔ دونوں نے نوبل انعام جیتے اور دونوں کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔لیکن بہرحال، وہ اس بات میں کامیاب ہو گئے تھے کہ ہوا سے اس عنصر کو نکال کر ہمارے جسموں تک پہنچانے کا راستہ تلاش کر لیا تھا۔ فرٹز ہیبر اور کارل بوش کی کہانی کے بغیر ہوا کی کہانی ادھوری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسٹریا کی ایک کمپنی نے 1905 میں ہیبر کے سپرد یہ کام کیا تھا کہ امونیا بنانے کا نیا طریقہ نکالا جائے۔
بظاہر یہ سادہ کام لگتا ہے۔ ہوا میں نائیٹروجن بہت سی ہے جبکہ ہائیڈروجن کو پانی سے بجلی گزار کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ امونیا بنانے کے لئے ان دونوں گیسوں کو ملا کر گرم کرنا ہے۔ امونیا تیار۔۔۔۔ لیکن اس میں ایک مسئلہ تھا۔ نائیٹروجن کے مالیکیول توڑنے کے لئے بہت سی حرارت درکار ہے۔ اور اتنی زیادہ حرارت امونیا کے نازک مالیکیول کو توڑ دیتی تھی۔ ہیبر مہینوں تک اس چکر میں پھنسے رہے اور آخر میں رپورٹ دے دی کہ یہ نہیں ہو سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی کو اس میں بہت دلچسپی تھی کیونکہ اس میں کامیابی جرمنی کو عالمی طاقت بنا سکتی تھی۔ جرمنی کے پاس کھاد کی کمی تھی۔امونیا کھاد کی کنجی ہے۔ اس میں نائیٹروجن ایسی شکل میں موجود ہوتی ہے جس سے پودے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
نائیٹروجن کے آپس کے ایٹم ٹرپل بانڈ سے بندھے ہوتے ہیں جن کو الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ اور اس بانڈ کی مضبوطی وہ وجہ ہے جس باعث یہ ہوا میں اتنی زیادہ موجود ہے۔
آتش فشاں جو گیس اگلتے ہیں، اس میں نائیٹروجن بہت تھوڑی مقدار میں ہوتی ہے لیکن جہاں پر دوسری گیسیں غائب ہو جاتی ہیں (کسی سے ری ایکشن کر کے یا الٹراوائلٹ شعاعوں سے ٹوٹ کر)، وہاں پر نائیٹروجن کسی بھی شکست و ریخت سے مزاحمت کرتی ہے۔ آتش فشانوں کی اگلی ہوئی گیسوں میں اس کا باقی رہ جانا اس کے ہماری فضا میں غلبے کی وجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب ہماری فضا کا غلاف تیسری بار بنا تو اس میں نائیٹروجن زیادہ مقدار میں تھی۔ اور یہ زمینی زندگی کے لئے موافق ہے۔ کیونکہ یہ تنہا پسند گیس حیاتیاتی مالیکیول پر حملہ نہیں کرتی۔
(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں