باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 19 اپریل، 2024

ہوا (7) ۔ کھاد کا مسئلہ


ہمارے جسم کے تین سو کھرب خلیوں میں سے ہر ایک میں ڈی این اے کے تین ارب base ہیں۔ ہر ایک میں نائیٹروجن ہے۔ ہر پروٹین میں نائیٹروجن ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جہاں پر نائیٹروجن نے اپنے تنہا پسند طبیعت کی وجہ سے زمین کی فضا کو زندگی کے لئے مہربان کر دیا، وہاں پر اس قدر تنہائی پسندی کا مطلب یہ نکلا کہ ہم نائیٹروجن کے سمندر میں بھی پیاسے رہ جاتے ہیں۔ یہ مرحلہ نائیٹروجنیز نامی ایک اینزائم کے ذریعے طے ہوتا ہے۔ چند خاص بیکٹیریا میں موجود لوہے، سلفر اور مولبڈینم سے بنی یہ انزائم زندگی کے جبڑے ہیں جو اس نائیٹروجن کے ایٹموں کی آپس کی تین مضبوط زنجیروں کو ایک ایک کر کے توڑتی ہے۔ یہ عمل بڑی توانائی مانگتا ہے اور اس کے لئے پانی کے سولہ مالیکیولز کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے تا کہ امونیا بن سکے اور یہ جسم کا حصہ بن سکے۔ ان کے بغیر دنیا میں نہ کوئی پودا ہوتا اور نہ ہی کوئی جانور۔
نائیٹروجن فکس کرنے والے بیکٹیریا کچھ پودوں کی جڑوں میں رہتے ہیں اور ان سے باہمی تعاون کے رشتے میں ہوتے ہیں۔ کونسی جگہ پر کتنی آبادی ہونا ممکن ہے؟ اس کا سب سے زیادہ انحصار مٹی میں موجود نائیٹروجن پر ہے۔
کسانوں نے اس حد کو آگے بڑھانے کے اپنے طریقے نکال لئے۔ مویشیوں کا فضلہ بکھیر کر، فصلوں کو روٹیٹ کر کے، گلتے سڑتے پتوں کی مدد سے۔ (سویابین جیسے فصلیں نائیٹروجن والے بیکٹیریا کی دوست ہیں)۔ ان کی مدد سے ان نائیٹروجن فکس کرنے والے بیکٹیریا کی محنت دوبارہ استعمال کرنے کا موقع ملتا تھا۔ لیکن دنیا کی آبادی بڑھتی جا رہی تھی اور جانوروں کے فضلے کی بھی حد تھی۔ لیکن اٹھارہویں صدی کے اختتام تک صنعتی دور میں نائیٹروجن کی پیاس ملکی سرحدوں سے باہر نکل چکی تھی۔ یہ فضلے کی ایک عالمی اور تاریخی مانگ تھی۔ انیسویں صدی میں برِصغیر  کی ایک بڑی برآمد گائے کے گوبر کے اپُلے تھے۔ مزدوری کی کم لاگت کی وجہ سے آبادی کا بزا حصہ اس کام میں مشغول تھا۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی نظر پرندوں کے فضلے پر پڑی جو کئی جگہوں پر کروڑوں برس سے اکٹھا ہو رہا تھا۔ یہ اس قدر پرکشش تھا کہ پرندوں کے فضلے سے بھری جزیروں پر جنوبی امریکی ممالک کی جنگیں ہوئیں۔ امریکہ نے 1856 میں قانون منظور کیا جس کے تحت کوئی بھی امریکی شہری دنیا میں کسی بھی جگہ پر کسی غیرآباد جزیرے پر حقِ ملکیت کا دعویٰ کر سکتا تھا، اگر اس پر پرندوں کا فضلہ ہو۔ اس قانون کے تحت امریکہ نے بحرالکاہل میں سو سے زائد جزیروں پر قبضہ لیا۔
جرمنی اس میں پیچھے رہ گیا تھا۔ اس کے پاس کھاد حاصل کرنے کے لئے نہ ہی برصغیر کا گوبر تھا اور نہ ہی جزائر۔ یہ لاکھوں ٹن کھاد درآمد کرتا تھا۔
یہ وہ پس منظر تھا جس وجہ سے جرمنی میں کھاد کی ضرورت اشد تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیبر نے اس کے بعد ایک جرمنی کیمیکل ادارے میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ BASF تھا۔ اور یہاں پر ہیبر نائیٹروجن اور ہائیڈروجن کا جوڑ پریشر کے ذریعے کروانا چاہر رہے تھے۔
زیادہ درجہ حرارت امونیا کو توڑ دیتا تھا۔ پریشر اس کا متبادل تھا۔ اور یہاں پر فضائی پریشر سے سینکڑوں گنا پریشر درکار تھا۔
اس کے علاوہ انہیں کیٹالسٹ کی تلاش تھی۔ ایسا کیمیکل جو اس ری ایکشن کو تیز کر سکے۔ بالآخر انہیں اوسمیم مل گیا۔
جولائی 1909 میں کئی سالوں کی محنت کے بعد انہوں نے نائیٹروجن اور ہائیڈروجن کو ملا کر پہلی بار امونیا بنا لی۔ یہ چائے کے چمچ کا ایک چوتھائی تھا۔ جو کہ اس سمت میں بہت اہم کامیابی تھی۔ بعد میں اس کو بڑھا لیا گیا لیکن ابھی بھی دو گھنٹے میں صرف ایک پیالی امونیا بنتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیبر کی دریافت تاریخ کا سنگِ میل تھا۔ ہوا سے خوراک بنا لینا معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ لیکن ابھی مقدار کم تھی۔ کمپنی میں اس ڈویژن کے سربراہ کارل بوش لائے گئے تھے۔ وہ یہ کام بڑے پیمانے پر کرنے کا خواب رکھتے تھے۔
(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں