باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

جمعرات، 27 مارچ، 2025

حیوانات کی دنیا (15) ۔ سیاہ و سفید


"بہت سے لوگ  جانوروں کے جذبات میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ان کی دلچسپی میں عام طور پر تمام انواع شامل نہیں ہوتیں، خاص طور پر وہ جنہیں خطرناک یا ناگوار سمجھا جاتا ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں: "چچڑیوں کا کیا فائدہ ہے؟" ایسے سوال مجھے حیران کرتے ہیں، کیونکہ ایسا نہیں کہ کسی ایک جانور کا ماحولیاتی نظام میں دوسرے سے زیادہ اہم کام ہے۔ اور یہ اصول تمام مخلوقات کیلئے ہے۔
سب سے پہلے، کچھ کیڑوں کی مثالیں دیکھتے ہیں—مثال کے طور پر، بھڑیں۔ گرمیوں میں، یہ سماجی کیڑے پریشان کن ہو سکتے ہیں۔ اور ان دھاری دار چھوٹے ڈنک مارنے والوں کے ناگوار تجربات عام ہیں۔ ہم ڈنک مارنے والے کیڑوں کو دور بھگانا چاہیں گے۔
اگر آپ بند گوبھی اگاتے ہیں تو آپ کے لئے سفید کیٹرپلر کی آمد بہت مسئلہ ہو گی جو کہ گوبھی کے پتوں کو سوراخوں سے چھلنی کر دیتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لئے کئی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ کیڑے مار سپرے، یا پھر نیم کا تیل۔ لیکن سب سے موثر طریقہ بھڑیں ہیں۔ یہ ان سفید کیٹرپلر کو چبا کر ریزہ ریزہ کر دیں گی اور اپنے بچوں کو کھلائیں گی۔ بھڑیں اچھی بند گوبھی کی فصل کی ضامن ہوں گی۔  لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھڑیں مفید ہیں؟
اس طرح کی سوچ کے ساتھ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ فطرت ایسے کام نہیں کرتی کہ اچھے اور برے کے الگ ڈبے بنے ہوں۔ یہ نظام ایسی سادہ تفریق سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ماحول اور کروڑوں انواع کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی کا کھیل مطابقت کا ہے۔ انواع نے دنیا کو اور دنیا کے انواع کو شکل دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ایک بڑی مثال کے لئے ڈھائی ارب سال پہلے چلتے ہیں۔ زمین پر بہت سی انواع تھیں لیکن یہ سب اینیروبک طور تھیں، یعنی زندگی آکسیجن کے بغیر تھی۔ اس وقت کی زندگی کے لیے، آج ہم جو سب سے اہم گیس سانس لیتے ہیں وہ خالص زہر تھی۔ ایک دن، سائنوبیکٹیریا حیرت انگیز رفتار سے پھیلنے لگے۔ انہوں نے فوٹوسنتھیسز کے ذریعے اپنی خوراک حاصل کی، اور ایسا کرتے ہوئے، انہوں نے ہوا میں ایک فضلہ خارج کیا: آکسیجن۔ پہلے، یہ گیس چٹانوں نے جذب کی گئی، اور وہ چٹانیں جن میں لوہا موجود تھا زنگ آلود ہو گئی۔ لیکن رفتہ رفتہ اضافی آکسیجن ہوا میں پھیلنے لگی اور ہوا آکسیجن سے بھرپور ہونے لگی۔ یہاں تک کہ آخر کار، ایک مہلک حد عبور کر لی گئی۔ بہت سی انواع ختم ہو گئیں، اور جو باقی رہ گئیں انہوں نے آکسیجن کے ساتھ جینا سیکھ لیا۔ آکر میں آپ کی بیشتر مخلوقات، ان مخلوقات کی اولاد ہیں جو نئے ماحول سے مطابقت رکھتی تھیں۔ زندگی کا کھیل ایسا ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر روز انواع میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جاری ہیں۔ جس چیز کو ہم شکاری اور شکار کے درمیان ایک باریک توازن سمجھتے ہیں وہ درحقیقت بہت سے ہارنے والوں کے ساتھ ایک سخت جدوجہد ہے۔ جب ایک تیندوا اپنے وسیع علاقے میں گھوم رہا  ہے، تو وہ ہرن کا بھوکا ہے۔ تاہم، یہ دوڑنے میں مقابلہ نہیں کر پاتا اور اس لیے اسے سرپرائز کے عنصر پر انحصار کرنا چاہیے۔ بے خبر، لاپرواہ چرنے والے جنہوں نے ابھی تک علاقے میں ایک بڑی شکاری بلی کے بارے میں خبر نہیں سنی ہے خاص طور پر آسان شکار ہیں۔ ایک تیندوا دو ہفتے میں ایک ہرن کا لطف اٹھا سکتا ہے، لیکن صرف اس وقت تک جب تک کہ علاقے کے تمام ہرنوں کو اس کی موجودگی خفیہ رہے۔ لیکن جب اس کی موجودگی خبر بن جائے تو ہر جگہ پر گھبراہٹ پھیل جاتی ہے اور سب جانور محتاط ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ علاقے کے پالتو جانور بھی۔ جنگل میں تحقیق کرنے والے میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ جب علاقے میں ایک لنکس (ایک جنگلی بلی) ہوتا ہے تو اس کی پالتو بلی باہر قدم رکھنے سے انکار کرتی ہے۔ وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ بلی کو کس چیز سے یہ خبر ہوتی ہے۔ لیکن یہ خبر جنگل میں شک کی فضا اور محتاط رویے کو جنم دیتی ہے۔ اور اس وجہ سے شکاری کو شکار کم ملتا ہے اور اسے کچھ میل چھوڑ کر اگلے علاقے میں جانا پڑتا ہے جہاں شکار آسان ہو۔
اگر ایک ہی علاقے میں لنکس کی تعداد زیادہ ہو جائے تو کوئی بے خبر شکار نہیں رہے گا۔ پھر، جب سردیاں کم درجہ حرارت اور توانائی کی ضروریات میں اس کے مطابق اضافے کا باعث بنتی ہیں، تو بہت سے لنکس بھوک سے مر جاتے ہیں—خاص طور پر نوجوان، کم تجربہ کار جانور۔ قدرت کی اس خودکار تنظیم کا یہ مطلب بھی ہے کہ بہت سے  جانور خوفناک موت مرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت نفیس خانوں میں منقسم نہیں ہے۔ کئی نوع بنیادی طور پر اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ ہمارے لئے گلہریوں میں دلچسپی لینا چچڑیوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ لیکن ان ننھی مخلوقات کے بھی جذبات اور احساسات ہیں۔ بھوک جیسی چیز کی موجودگی اس کا ثبوت ہے۔ جب ان کو بھوک لگتی ہے تو یہ ممالیہ کا خون چوستے ہیں۔ خالی معدہ ان کے لئے ناگوار احساس ہو گا۔ (یہ ایک سال تک بھی بھوک برداشت کر سکتے ہیں)۔
جب کوئی بڑا جانور قریب سے گزرتا ہے، تو چچڑیاں ہلچل کو محسوس کر سکتی ہیں۔ پسینے اور دیگر جانوروں کی بو سونگھ سکتی ہیں۔ وہ تیزی سے اپنے اگلے پاؤں پھیلاتی ہیں، اور اگر خوش قسمتی ہو تو، وہ قریب سے گزرنے والے پاؤں یا جسم کو پکڑ لیتی ہیں اور سواری کر لیتی ہیں۔ یہ رینگ کر آرام دہ اور گرم جگہ پر آ جاتی ہیں جہاں جلد بہت موٹی نہیں ہوتی، اور وہاں آباد ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے پھیلے ہوئے منہ کے حصوں کو جلد کے اندر دھکیلتے ہیں اور نکلنے والے خون کو چوس لیتی ہیں۔ یہ چھوٹے ویمپائر خوراک کھاتے وقت اپنے وزن میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں، اور وہ چھوٹے مٹروں کی طرح پھول جاتے ہیں۔ اپنی عمر میں انہیں تین بار خول بدلنا پڑتا ہے، اور ہر مرحلے سے پہلے انہیں پیٹ بھرنے کے لیے ایک نیا شکار تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے انہیں بالغ ہونے میں دو سال تک لگ سکتے ہیں۔ جب وہ اس مرحلے پر پہنچ جاتے ہیں جب چھوٹے نر اور بڑی مادہ خود پیٹ بھر کر خون چوس چکے ہوتے ہیں، تو آخری مرحلے کی باری ہے۔
ان کو جنسی ملاپ کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا “کرنا ہوتا ہے یا وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں”۔ ہماری طرح، وہ خواہشات سے مغلوب ہوتے ہیں، اور وہ ایک ایسے ساتھی کی تلاش میں رہتے ہیں جسے وہ آخری عمل مکمل کرنے کے لیے پکڑ سکیں۔ اس کے بعد—اور ہماری ان سے مماثلت ختم ہو جاتی ہیں— نر مر جاتے ہیں۔ مادہ دو ہزار تک انڈے دینے کے لیے کافی دیر تک زندہ رہتی ہیں، اور پھر وہ بھی مر جاتی ہیں۔ چچڑی ایک ایسی مخلوق ہے جس کی حتمی خوشی یا اس کی زندگی کا عروج، ہزاروں اولاد پیدا کرنے اور پھر مکمل طور پر ختم ہو کر مر جانے پر مشتمل ہے۔ اگر یہ ایک ممالیہ جانور ہوتا، تو ہم اس رویے کو اپنی قربانی دینا کہتے۔ چچڑیوں کے لیے، بدقسمتی سے، لوگ فی الحال صرف ایک ہی جذبہ رکھتے ہیں اور وہ ناپسندیدگی کا ہے۔
(جاری ہے)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں