باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

بدھ، 19 مارچ، 2025

حیوانات کی دنیا (6) ۔ انسانوں سے محبت؟


کیا جانور ہم سے محبت کر سکتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے جس پر مختلف آراء موجود ہیں۔ یہاں پر کچھ اہم نکات ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ایک ہی نوع کے جانوروں کے درمیان محبت کے جذبات کی تصدیق کرنا مشکل ہے تو مختلف انواع کے درمیان محبت کی تصدیق کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ اور پھر جب بات ہم پر آتی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ آیا ہم صرف اپنی تمنا کے لئے جانوروں پر محبت کا لیبل لگا دیتے ہیں؟ کیا ہم اپنے پالتو جانوروں کو قید رکھنے کو جائز قرار دینے کے لئے ایسا کرتے ہیں؟
اس کیلئے پہلے ہم ماں اور بچے کے رشتے کی طرف دوبارہ توجہ دیتے ہیں۔
اگر انڈے سے چوزہ نکلنا ہے اور اس کے سامنے پہلی حرکت کرنے والی اور بات کرنے والی شے آپ ہیں۔ اور اسے ابتدائی دنوں میں پیار سے برتاؤ کرتے ہیں۔ ہاتھ سے کھلاتے ہیں تو آپ سے اس کا رشتہ پوری عمر رہ سکتا ہے۔
اس طرح سے جانوروں کی اپنے نگہداشت کرنے والوں کی دل چھو لینے والی کہانیاں عام ہیں لیکن یہ رضاکارانہ طور پر اس جانور کا انتخاب نہیں۔ خواہ وہ جانور خود اپنی نگہداشت کرنے والوں کے شکرگزار ہی کیوں نہ ہوں۔  کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی جانور اپنی مرضی سے ہمارے پاس آئے اور رہے؟ کیا ایسا ہوتا ہے؟
کم عمر کی بلی یا کتا جلد اپنی نگہداشت کرنے والوں سے مانوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیا بالغ جانور اپنی مرضی سے ایسا کرتے ہیں؟
پالتو جانوروں کے لئے اس کا جواب واضح طور پر “ہاں” میں ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ آوارہ کتا یا بلی کسی ہمدرد انسان کو مجبور کریں کہ وہ ان کا خیال رکھیں۔ لیکن ہم جنگلی جانوروں کی دنیا میں یہ جاننا چاہیں گے۔ کیونکہ ان کی سرشت میں انسانوں کے ساتھ تعلق جوڑ لینے کی چاہت نہیں ہے۔ اور اس میں ہم اس صورت میں تعلق کو الگ رکھنا چاہیں گے جہاں پر خوراک کھلا کر جانوروں کو مانوس کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایسا کیا جانا بہت عام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی دوستیاں ہمیں سمندر میں نظر آتی ہیں۔ ڈولفن اور انسان کے درمیان۔ آئرلینڈ میں رہنے والی ڈولفن “فنجی” اس میں شہرت رکھتی ہے جو کہ خلیج ڈنگل میں رہتی ہے اور سیاحوں کے ساتھ تیرنا اور کھیلنا پسند کرتی ہے۔ تیس سال سے فنجی یہاں کا مشہور جانور ہے۔
لیکن عام طور پر جنگلی جانور انسان کے ساتھ دوستی کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دسیوں ہزار سالوں سے انسان انہیں شکار کرتے آئے ہیں۔ اور اگر کوئی انسان کو دیکھتے ہی بھاگ نہ جائے تو خطرے میں ہو گا۔
جانوروں کے لیے اب بھی یہی صورتحال ہے، جیسا کہ آپ ان جانوروں کی فہرست پر ایک نظر ڈال کر دیکھ سکتے ہیں جن کا شکار کرنا اب بھی قانونی ہے۔ چاہے وہ بڑے شکار جیسے ہرن یا جنگلی سؤر ہوں، یا چھوٹے چار ٹانگوں والے ہدف جیسے لومڑی یا خرگوش، یا پرندے، شکاری پرندوں سے لے کر مرغابی اور بطخوں یا تیتر تک، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں گولیوں کی بوچھاڑ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس طرح، دو ٹانگوں والی کسی بھی چیز پر کچھ عدم اعتماد بالکل قابل فہم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مخلوق اپنی فطری احتیاط پر قابو پا کر ہم سے رابطہ قائم کرتی ہے تو ہم بہت متاثر ہوتے ہیں۔
ایک جنگلی جانور کے لئے ایسا کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کھانے کے لالچ میں راغب کرنا ایک وجہ ہے۔
تاہم، ایک اور محرک بھی ہے — جو انسانوں کے لیے بھی اہم ہے — اور وہ ہے تجسس۔  مجھے کم از کم ایک متجسس نوع سے ملنے کا موقع ملا: لیپلینڈ میں بارہ سنگھے۔ ان بارہ سنگھوں نے اپنی جنگلی فطرت کو برقرار رکھا ہے اور عام طور پر لوگوں کے آس پاس بہت محتاط رہتے ہیں۔
(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں