دنیا میں بہت سی جگہوں پر شاندار سائنسی تجربہ گاہیں موجود ہیں جن کے بارے میں جتنا جانیں ان کی ٹیکنالوجی اتنا حیران کرے گی۔ انٹارٹیکا کی آئس کیوب آبزرویٹری، شنگھائی کی سنکروٹون، شکاگو کی فرمی لیب اور اس طرح کی دنیا میں پھیلی ہوئی بہت سی لیبارٹریز ہیں جن میں ہونے والے تجربات ہمارے علم میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان میں حال میں لارج ہیڈرون کولائیڈر کو شہرت ملی ہے۔ اس کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔
کوئی بھی ذرہ جو کوارکس، اینٹی کوارکس اور گلیون سے ملکر بنا ہو وہ ہیڈرون ہے اور اس کی عام مثالیں نیوٹرون اور پروٹون ہیں۔ اس کولائیڈر میں ان کا آپس میں انتہائی تیز رفتاری سے تصادم کروا کر بنیادی ذرات کو سمجھا جاتا ہے۔ ان تصادم میں نوے فیصد تجربات پروٹون کے تصادم سے اور باقی کے تجربات اس سے بڑے نیوکلئیس کو ٹکرانے سے کئے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کا نام لارج ہیڈرون کولائیڈر ہے۔
پہلی بات یہ کہ تصادم ہی کیوں؟ جب ہم عام زندگی میں جو چیزوں کو ٹکراتے ہیں تو وہ تخریبی عمل ہے لیکن جب ایسا سب ایٹمک لیول پر کیا جائے تو یہ تعمیری عمل بن جاتا ہے اور اس کی وجہ کنزرویشن کے اصول ہیں۔ پروٹون بہت پیچیدہ سٹرکچر ہے۔ جب یہ ٹوٹتا ہے تو ہونے والی توڑ پھوڑ میں بھی تمام خصوصیات نے مسلسل ہر وقت کنزرو رہنا ہے اور فطرت کی یہ سخت پابندی بکھرے پروٹون سے نئے ذرات کو جنم دیتی ہے۔
یہ تصادم کیسے کیا جاتا ہے، اب اس کو دیکھ لیتے ہیں۔ پارٹیکل ایکسلریٹر سترہ میل لمبائی پر ایک دائرے کی صورت میں پھیلی ایک سرنگ ہے جس کا قطر بیس فٹ ہے۔ جب اسے چلایا جاتا ہے تو مخالف سمتوں میں پروٹونز کو گروپس کی شکل میں بھیجتے ہیں۔ پروٹون انتہائی چھوٹا ذرہ ہے اور اس کا تصادم کرنے کے لئے ان کی بڑی تعداد چاہئے۔ ہر گروپ میں ایک کھرب پروٹونز کو روشنی کی رفتار کے قریب تک ایکسیلیریٹ کیا جاتا ہے اور وہ ایک سیکنڈ میں سرنگ کے دس ہزار چکر لگا سکتے ہیں۔
خاص جگہ پر ان پروٹونز کے گچھوں کا نشانہ ایک دوسرے پر باندھتے ہیں اور یہ انتہائی باریک کیلکولیشن سے ایسے کیا جاتا ہے کہ ہر بار آمنے سامنے آنے پر ان میں سے دو یا زائد پروٹونز کے درمیان تصادم ہو۔ اس قدر تیز رفتار کا مطلب یہ ہے کہ پروٹون کو جوڑنے والی قوت اسے جوڑے نہیں رکھ سکتی اور یہ پاش پاش ہو جاتا ہے۔
پروٹون اس سرنگ میں آزاد نہیں گھومتے بلکہ چند سینٹی میٹر کے ایک پائپ میں قید رہتے ہیں۔ اس پائپ کے اپنے اندر بالکل خلا درکار ہے کہ اندر کسی گیس کا کوئی مالیکئیول نہ آ جائے اور پروٹون کے گھچے میں سے کچھ دوست بچھڑ نہ جائیں۔
جب تک کوئی قوت نہ لگائی جائے ہر چیز سیدھی لکیر میں سفر کرتی ہے اور پروٹون کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے تو انتہائی طاقتور مقناطیس ان کو مخصوص راستے پر رکھتے ہیں، جو ہزاروں کی تعداد میں ان پائپوں کو گھیرے میں لئے ہوتے ہیں۔ یہ عام مقناطیس نہیں۔ ان کو عین کیلکولیشن کے مطابق کام کرنے کے لئے سپرکنڈکٹیویٹی چاہیئے اور یہ اس وقت آ سکتی ہے جب کہ درجہ حرارت انتہائی کم ہو، ڈیپ سپیس کے درجہ حرارت سے بھی کم۔ یہ درجہ حرارت منفی دو سو اکہتر درجہ سینٹی گریڈ ہے، یعنی صفر کیلون سے صرف دو درجے اوپر۔ اس کے لئے ریفریجیریشن کا زبردست نظام درکار ہے۔ اس کے لئے مائع ہیلئیم ان مقناطیسوں کو گھیرے رکھتی ہے۔ ریفریجیریشن کا یہ نظام زمین پر پایا جانے والا اپنی طرز کا سب سے بڑا سسٹم ہے۔
یہ تو اس ایکسیلیریٹر کے بنیادی حصے ہو گئے۔ اب اس تصادم کے بعد اصل سائنس کا آغاز ہوتا ہے۔ تصادم کے جن خاص مقامات کا ذکر کیا وہاں پر ڈیٹیکٹر لگے ہوتے ہیں جو کسی چھوٹے آفس کی بلڈنگ کے سائز کے ہیں تا کہ تصادم سے بننے والے ملبے کا مشاہدہ کیا جا سکے اور اس کو سٹڈی کر کے سمجھا جا سکے۔ اس سرنگ پر چار ڈیٹیکٹر لگے ہیں۔ یہ ڈیٹکٹر خود کیا ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں، یہ خود ٹیکنالوجی کا عظیم شاہکار ہیں اور اپنے اندر پوری کہانی رکھتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں