پرندے لمبے سفر میں سمت کا درست تعین کیسے کر لیتے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش مشکل رہی مگر اب ہمارا خیال ہے کہ ہم اس سوال کا مکمل جواب جاننے کے قریب ہیں اور وہ جواب یہ ہے کہ پرندے کی آنکھ کا قطب نما انہیں سمت دکھا دیتا ہے اور ایسا کوانٹم اینٹینگلمینٹ سے ہوتا ہے۔
اس جواب تک کیسے پہنچے، اس کی قدم بہ قدم تفصیل دیکھتے ہیں۔ یورپ کی لال چڑیا رابن سردیوں میں جنوب کا سفر کرتی ہے اور زیادہ سفر رات کو ہوتا ہے۔ خیال تھا کہ اس سمت کے تعین میں زمین کے مقناطیسی فیلڈ کا کردار ہو گا۔ اسے ثابت کرنے کے لئے ہجرت کرتے رابن پکڑے اور ان کو ایک پنجرے میں بند کیا جس کے اوپر نکلنے کے لئے فنل تھی۔ ان پرندوں کے پاؤں پر سیاہی مل کر رات کو فنل کو کھول دیا۔ فنل پر بنے پنجوں کے نشانوں نے بتا دیا کہ یہ اُڑتے وقت کونسی سمت لیتے ہیں۔ جب ان کے پنجرے میں مقناطیسی فیلڈ کو معمولی سا بدلا تو اڑنے کی سمت بھی بدل گئی۔
اس سے اگلا سوال کہ جسم کا کونسا حصہ اس سمت کا تعین کرتا ہے تو وہ جواب ان کو ہیلمٹ پہنانے سے ملا کہ جب ان کی آنکھوں میں روشنی نہیں پہنچتی تو یہ سمت پہچاننے کی صلاحیت بھی کھو دیتے ہیں۔ اب اگلی تلاش آنکھ کی اس چیز کی تھی جو زمین کے انتہائی کمزور فیلڈ سے اثر لے سکے۔ زمین کا میگنیٹک فیلڈ اس قدر کمزور ہے کہ کسی کیمیکل ری ایکشن کو اثرانداز نہیں کر سکتا۔ یہاں پر مدد کوانٹم مکینکس سے ملی۔ رابن کی آنکھ کے ریٹینا میں کرپٹوکروم نامی ایک پروٹین ہے۔ اس پر پڑتی روشنی اس کے دو الیکٹران آپس میں الجھا دیتی ہے اور رات کی مدھم روشی بھی ایسا کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ الجھاؤ سو مائیکروسیکنڈ تک برقرار رہتا ہے اور زمین کے مقناطیسی فیلڈ سے اثرانداز ہو کر رابن کے دماغ تک سمت کی معلومات پہنچا دیتا ہے۔ یہ پرندہ نہ صرف انٹینگلمنٹ دیکھ لیتا ہے بلکہ اس کے ذریعے سمت کا تعین کر لیتا ہے۔ اس دریافت سے ہمیں باقی جانوروں کی سمت محسوس کر لینے کی صلاحیت اور بائیولوجیکل کمپاس کے اسرار کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔
کوانٹم بائیولوجی ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہے مگر خیال ہے کہ علم کا یہ شعبہ زندگی کے بہت سے راز ڈھونڈنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
جو اس عمل کی فزکس کو زیادہ تفصیل سے جاننا چاہیں، ان کے لئے مندرجہ ذیل آرٹیکل۔ کچھ پرانا ہے مگر اس میں لکھے جانے والے خیالات کی آج تک ہونے والے تجربات نے حمایت کی ہے۔
اس جواب تک کیسے پہنچے، اس کی قدم بہ قدم تفصیل دیکھتے ہیں۔ یورپ کی لال چڑیا رابن سردیوں میں جنوب کا سفر کرتی ہے اور زیادہ سفر رات کو ہوتا ہے۔ خیال تھا کہ اس سمت کے تعین میں زمین کے مقناطیسی فیلڈ کا کردار ہو گا۔ اسے ثابت کرنے کے لئے ہجرت کرتے رابن پکڑے اور ان کو ایک پنجرے میں بند کیا جس کے اوپر نکلنے کے لئے فنل تھی۔ ان پرندوں کے پاؤں پر سیاہی مل کر رات کو فنل کو کھول دیا۔ فنل پر بنے پنجوں کے نشانوں نے بتا دیا کہ یہ اُڑتے وقت کونسی سمت لیتے ہیں۔ جب ان کے پنجرے میں مقناطیسی فیلڈ کو معمولی سا بدلا تو اڑنے کی سمت بھی بدل گئی۔
اس سے اگلا سوال کہ جسم کا کونسا حصہ اس سمت کا تعین کرتا ہے تو وہ جواب ان کو ہیلمٹ پہنانے سے ملا کہ جب ان کی آنکھوں میں روشنی نہیں پہنچتی تو یہ سمت پہچاننے کی صلاحیت بھی کھو دیتے ہیں۔ اب اگلی تلاش آنکھ کی اس چیز کی تھی جو زمین کے انتہائی کمزور فیلڈ سے اثر لے سکے۔ زمین کا میگنیٹک فیلڈ اس قدر کمزور ہے کہ کسی کیمیکل ری ایکشن کو اثرانداز نہیں کر سکتا۔ یہاں پر مدد کوانٹم مکینکس سے ملی۔ رابن کی آنکھ کے ریٹینا میں کرپٹوکروم نامی ایک پروٹین ہے۔ اس پر پڑتی روشنی اس کے دو الیکٹران آپس میں الجھا دیتی ہے اور رات کی مدھم روشی بھی ایسا کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ الجھاؤ سو مائیکروسیکنڈ تک برقرار رہتا ہے اور زمین کے مقناطیسی فیلڈ سے اثرانداز ہو کر رابن کے دماغ تک سمت کی معلومات پہنچا دیتا ہے۔ یہ پرندہ نہ صرف انٹینگلمنٹ دیکھ لیتا ہے بلکہ اس کے ذریعے سمت کا تعین کر لیتا ہے۔ اس دریافت سے ہمیں باقی جانوروں کی سمت محسوس کر لینے کی صلاحیت اور بائیولوجیکل کمپاس کے اسرار کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔
کوانٹم بائیولوجی ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہے مگر خیال ہے کہ علم کا یہ شعبہ زندگی کے بہت سے راز ڈھونڈنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
جو اس عمل کی فزکس کو زیادہ تفصیل سے جاننا چاہیں، ان کے لئے مندرجہ ذیل آرٹیکل۔ کچھ پرانا ہے مگر اس میں لکھے جانے والے خیالات کی آج تک ہونے والے تجربات نے حمایت کی ہے۔
http://hore.chem.ox.ac.uk/PDFs/The_Quantum_Robin.pdf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں