باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 28 اکتوبر، 2018

مقصد، فزکس، ذہانت اور بغاوت



فٹبال کے میچ میں گیند گول کی طرف جا رہی ہے۔ اس گیند کا کھلاڑی کے پیر سے لے کر گول کے جال تک کا سفر صرف حرکت کے قوانین کے تحت ہوا۔ گول کے اندر جا کر ایک ٹیم کو میچ جتنوانا اس کا مقصد نہیں تھا۔ فزکس کے اصولوں میں مقصد نہیں ہوتا۔ مگر جو کھلاڑی اس کے گول میں جانے کے بعد خوشی سے ہاتھ فضا میں بلند کئے دوڑ رہا ہے، اس کا اس کو مہارت سے کِک لگا کر گول میں ڈال دینا بلامقصد نہیں تھا۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ میچ جیتنا چاہتا تھا۔ اس شخص میں یہ کہاں سے آیا؟ فزکس کے اصولوں سے۔ مقصد فزکس کے بنیادی اصولوں کا حصہ ہے۔ کوانٹم فزکس اور تھرموڈائنمکس کے دوسرے قانون کے سبب۔

اکیسویں صدی میں مصنوعی ذہانت ایک بڑی امید بھی ہے اور ایک بڑا خطرہ بھی مگر اس کا خطرہ وہ نہیں جو سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ڈر مصنوعی اور قدرتی ذہانت کے مقاصد میں ہم آہنگی نہ ہونے کا خطرہ ہے۔ 'مقصد' سائنس میں وہ لفظ ہے جسے قالین تلے دھکیل دیا جاتا رہا ہے لیکن مصنوعی ذہانت کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لئے اس پر سنجیدہ بحث ہونے کی ضرورت ہے۔ اس دفعہ مصنوعی ذہانت میں ہونے والی کانفرنس میں یہ موضوع سب سے زیادہ زیرِبحث رہا۔ مختصر تعارف اس بحث کے پس منظر کا جس کا آغاز فزکس سے بنتی بائیولوجی سے ہے۔ اس کی تفصیل میں جاننے کے لئے پہلے لنک کا آرٹیکل۔

ساتھ لگی تصویر میں ایک لائف گارڈ نے ایک ڈوبتے شخص کو بچانا ہے۔ لائف گارڈ زمین پر تیز بھاگ سکتا ہے اور پانی میں اس کی رفتار کم ہو گی۔ اس کو دیکھتے ہوئے بہترین راستہ کیا ہو گا؟ پاتھ A یا پاتھ B کی نسبت پاتھ C بہتر ہے اور ایک اچھا لائف گارڈ یہ راستہ لے گا کیونکہ یہ جلد از جلد پہنچنے کا راستہ ہے۔ پانی میں داخل ہونے والی روشنی کی کرن بھی یہی کرتی ہے اور جلد از جلد منزل پر پہنچنے والا راستہ لیتی ہے (یہ فزکس میں فغماں کا اصول ہے)۔ فزکس میں تمام اصولوں میں ہمیں اس طرح nature میں کسی کوانٹٹی کی optimization نظر آتی ہے۔ یہ طریقہ عام فزکس میں نہیں پڑھایا جاتا کیونکہ یہ اس کی ریاضی مشکل بنا دیتا ہے لیکن فزکس کو سمجھنا کا گہرا طریقہ یہی ہے۔ جب فزکس کے قوانین میں سادہ ترین چیز بھی کسی مقصد (optimization) کے اصول پر ہے۔ (اس کی گہری سمجھ کے لئے فائن مین کے لیکچر جو انہیوں نے یونیورسٹی آف آکلینڈ میں دئے)۔ مقصد بائیولوجی سے خاص نہیں۔ یہ قدرت کی بنیادی خاصیت ہے۔

قدرت میں ایک اور چیز کی بھی optimization ہے اور وہ اینٹروپی ہے۔ کائنات کا اور وقت کا تیر اس میں اضافے کی طرف ہے۔ قدرت کا ایک مقصد اس کے اضافے کی maximization ہے۔ اگر مالیکیولز پر سورج پڑتا رہے تو وہ اپنی شکل آہستہ آہستہ اس طرح بدل لیں گے کہ زیادہ توانائی جذب کر سکیں۔ یہ MIT میں حال میں ہونے والا کام ہے جو dissipation-driven adaption کہلاتا ہے۔ کیا زندگی محض اتفاقی ہے؟ نہیں۔ یہ فزکس کے قوانین سے نکلا گہرا نتیجہ ہے۔ زندگی اور بائیولوجی کی مقصدیت بھی اسی سبب ہے۔ (اس کی تفصیل ساتھ دئے گئے لنک سے)۔ اینٹروپی زیادہ کرنے کا تیز ترین طریقہ زندگی ہے۔ کیونکہ اپنی شکل برقرار رکھنے کے لئے یہ اپنے ماحول کی اینٹروپی میں اضافہ کرتی ہے۔ اس پر (زندگی اور اینٹروپی کے لئے شروڈنگر کا پیپر نیچے دئے گئے لنک سے)۔

اس میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کے لئے اس کو اپنی زیادہ سے زیادہ کاپیاں بنانی ہے۔ یہ dissipation سے replication تک کا سفر ہے۔ کیا اس میں فزکس یا مقصد بدلا؟ نہیں۔ لیکن ابھی کہانی باقی ہے۔

ایک مقصد کو پورا کرنے مقاصد آئے۔ بقا کے لئے توانائ، تنفس، کاپی کا بہتر عمل، تعاون، مقابلہ، آرام، ماحول سے مطابقت۔ ان سے سفر سے ذہانت نکلی اور پھر metacognition. لیکن یہ سفر اس بنیادی مقصد سے بغاوت کر چکا تھا۔ اس ذہانت کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اپنے سفر کے نشان تھے تو لیکن اس کی قیدی نہیں تھی۔ ذہانت کی سیڑھی کا فائدہ یہ تھا کہ اگر ایک بیکٹیریا کو کسی چیز سے الرجی ہے تو وہ اس سے مر جائے گا مگر کھانا نہیں چھوڑے گا۔ ذہین زندگی کو اگر مونگ پھلی سے الرجی کا پتہ لگ گیا تو اگلی بار اس کے قریب نہیں جائے گی۔ اس کا دماغ اور اس کا تجسس اس کو زندہ رکھنے کا انتہائی مؤثر آلہ ہے۔

اپنے پچھلے سفر سے بغاوت کی ایک مثال یہ کہ زندگی اپنی زیادہ سے زیادہ کاپیاں بنانا چاہتی ہے اور پھیلنا چاہتی ہے۔ ذہین زندگی کے جینز میں بھی یہی لکھا ہے لیکن اس کا دماغ اس سے مختلف فیصلے لینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ سینکڑوں ذیلی مقاصد میں اتفاق نہیں ہوتا۔ (کیا زیادہ کھانا بہتر ہے یا کچھ بھوک رکھ کر؟)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جینز میں معلومات دماغ کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں۔ (اس کی پیمائش اگرچہ یونٹ میں کرنا بس ایک approximation ہے لیکن جین کے 1.6 گیگابائیٹ یادداشت کے مقابلے میں دماغ میں 100 ٹیرابائیٹ معلومات ہوتی ہے)۔ ہم اب کھانے پینے اور اگلی نسل کی تعداد زیادہ سے زیادہ کرنے کے لئے زندہ نہیں رہتے۔

ذہن میں بہت سے متضاد سوچیں ہیں (تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے)۔ یہ سوچیں اور یہ جذبات مختلف ذیلی مقصد کا نتیجہ ہے۔ جینیات سے آئی ہوئی مقصد کی انسٹرکشن کو دماغ override کر سکتا ہے۔

مقصد کی یہ دوڑ زمین کے مادے کو بدل رہی ہے۔ یہ کائنات کا مقصدیت کا سفر (teleological journey) ہے۔ زمین پر اس وقت سب سے زیادہ بائیوماس بیکٹیریا کا ہے جو چار سو ارب ٹن ہے۔ نباتات کا بھی اتنا ہی وزن ہے۔ بائیولوجی میں مقصد واضح ہے۔ لیکن اب ذہانت دوسرے مادے کو بھی بدل رہی ہے۔ سو ارب ٹن کنکریٹ اور بیس ارب ٹن سٹیل میں بنی ترتیب گھروں یا گاڑیوں یا کاغذ پر لگی پِن یا چوہے دان کی صورت میں کسی مقصد کے لئے ڈھل چکی ہے۔

اب مصنوعی ذہانت کی باری ہے۔

یہ مشینیں ہم سے بہت زیادہ تیزرفتاری سے کام کر سکتی ہیں۔ کیا ہم ان کو اپنے مقصد سے آگاہ کر پائیں گے؟ کیا ہم اپنا مقصد خود جانتے ہیں (یا پھر شاہ میداس کی طرح ہر شے کو سونے میں بدلنے کو اپنا مقصد سمجھ بیٹھیں گے)؟ کیا یہ ہمارا مقصد سمجھ سکیں گی؟ کیا یہ اس کو برقرار رکھیں گی یا پھر ویسی بغاوت کر دیں گی جیسا کہ ہم اپنی ذہنات کی وجہ سے کر چکے ہیں۔

فزکس نے مقصد کو جنم دیا، مقصد نے زندگی کو، زندگی نے ذہانت کو، ذہانت نے بغاوت کر دی اور اپنے مقاصد الگ کر لئے۔ ذہانت نے مصنوعی ذہانت بنائ جو آگے کا سفر تیزی سے کر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا سفر کیا راستہ لے گا؟ یہ آج کے سوال ہیں۔ کسی بھی ترتیب تک پہنچا کیسے جائے؟ یہ ٹیکنالوجی کا مسئلہ ہے جس پر کام تیزی سے ہو رہا ہے۔ عناصر کی ترتیب ہونی کیسے چاہیۓ؟ اس پر کوئی اتفاقِ رائے نہیں۔ یہ سفر کس رخ لے جائے گا؟ اس وقت اس پر دنیا میں مباحث ہو رہے ہیں۔

اس پر ایک بہترین آرٹیکل یہاں سے
https://futureoflife.org/background/benefits-risks-of-artificial-intelligence/?cn-reloaded=1

شروڈنگر کا پیپر
http://www.whatislife.ie/downloads/What-is-Life.pdf

فزکس سے بائیولوجی تک
https://www.quantamagazine.org/first-support-for-a-physics-theory-of-life-20170726/

متضاد سوچوں پر
https://waharaposts.blogspot.com/2018/10/blog-post_2.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں