باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 5 اکتوبر، 2018

بجلی سے شکار




ندی کی تہہ میں پتھروں اور پودوں کی جڑوں کی بھول بھلیاں ہیں۔ صبح صادق کا وقت ہے اور ندی کا گدلا پانی ان رکاوٹوں کے اوپر سے سست رفتاری سے بہہ رہا ہے۔ سطح سے ایک گز نیچے پتھر کے نیچے سے دو چھوٹے اینٹینا نکلے ہوئے ہیں۔ اس پانی کے ساتھ ہلکے سے جھومتے ہوئے۔ کوئی حرکت قریب ہوئی اور یہ غائب ہو گئے۔ یہ تازہ پانی کا جھینگا ہے۔ مردارخور جاندار۔ بھوکا مگر خطرے میں۔ اس پانی کے بہاؤ کے اوپر ایک شکاری تاریک پانی میں اترا ہے۔ اپنے دو جھلی دار پنجوں کی مدد سے پانی کی سطح پر چپو چلاتا ندی کے درمیان میں آ گیا ہے۔ اب اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، ناک بند کر لی، کان ڈھک لئے اور غوطہ لگا دیا۔ پلیٹی پس اپنے ناشتے کے لئے تیار ہے۔

اگر جھینگا ساکن رہے گا تو محفوظ ہے۔ پانی میں پلیٹی پس نہ دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے، نہ سونگھ سکتا ہے لیکن اس کی تہہ میں اعتماد سے اور تیزی سے تیر رہا ہے۔ اس کی چپٹی چونچ تہہ کے کیچڑ پر ہر طرف پھرتی تیزی سے جائزہ لے رہی ہے۔ اپنا ناشتہ کرتے جھینگے نے پانی میں حرکت محسوس کر لی اور پتھر کے نیچے پناہ لینے کے لئے بھاگا۔ اپنی دم ہلاتا ہوا۔ شکاری اس کی طرف بڑھا۔ جھینگے کی دم کو سکیڑنے والے مسل نے برقی سگنل پیدا کیا تھا۔ اس برقی نبض نے جھینگے کے جسم پر وقتی طور پر برقی فیلڈ پیدا کیا۔ یہ برقی ڈسٹربینس پانی میں پھیل گئی۔ قریبی الیکٹرانز کو ہلکا سا کھینچنے اور دھکیلنے لگی۔ یہ سب کچھ ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے کے لئے تھا، لیکن کافی تھا۔ پلیٹی پس کی چونچ کے اوپر اور نیچے کی سطح میں چالیس ہزار برقی سینسر لگے ہیں۔ پانی کی حرکت اور برقی نبض اس کے لئے کافی معلومات ہیں۔ اسے سمت اور فاصلے کا علم ہو گیا۔ اس کی چونچ نے اب ریت میں بالکل ٹھیک جگہ پر وار کیا۔ جھینگا اب شکاری کا ناشتہ بن چکا۔

حرکت برقی فیلڈ تبدیل کرتی ہے۔ پٹھوں کی تمام حرکات پٹھوں کے اندر برقی چارج کو حرکت دیتی ہیں اور ان کی وجہ سے برقی فیلڈ پیدا ہوتا ہے۔ پانی کے نیچے الیکٹروسینسنگ شکار کا زبردست طریقہ ہے۔ جتنا بھی اچھا کیموفلاج ہو جائے، برقی سگنل نہیں چھپتا۔ شکار نے کبھی بہ کبھی ہلنا ہے اور معمولی ترین حرکت بھی شکاری کے لئے کافی ہے۔

لیکن ہم اگر خود بھی یہ فیلڈز پیدا کرتے ہیں تو ان سے کیوں آگاہ نہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ بہت کمزور ہیں اور دوسرا یہ کہ ہوا میں یہ بڑی جلد ختم ہو جاتے ہیں۔ ندی کا پانی یا سمندر کا نمکین پانی بجلی کے اچھے کنڈکٹر ہیں اور ان کا دور سے پتہ لگ جاتا ہے۔ الیکٹروسینس کی حس رکھنے والی انواع زیادہ تر وہ ہیں جو پانی میں ہوتی ہیں۔ (شہد کی مکھی، کاکروچ یا ایکنڈا استثنا ہیں)۔

شہد کی مکھی کی اس حس کے بارے میں پہلے کی گئی پوسٹ
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_31.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں