باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 22 جون، 2019

کتاب



لفظ رابطہ ہیں۔ تہذیبوں کی گوند ہیں۔ ہم اپنے خیالات، احساسات، جذبات اور علم ایک دوسرے سے الفاظ کے ذریعے شئیر کرتے ہیں۔ اگلی نسلوں تک علم کی منتقلی بھی انہی الفاظ کے ذریعے ہوتی رہی ہے۔ تاریخ کے بڑے حصے تک یہ طریقہ زبانی رہا۔ قصوں، نظموں، نغموں اور حکایتوں کے ذریعے یا کسی سیانے کی شاگردی اختیار کرنا علم حاصل کرنے کا طریقہ تھا اور یہ سینہ بہ سینہ آگے بڑھتا تھا۔ یہ طریقہ ناقابلِ اعتبار تھا اور اس کا پھیلاوٗ سست رفتار تھا کیونکہ بولا ہوا لفظ تو ایک بڑی عارضی چیز ہے۔ کوئی بھی نشان نہیں چھوڑتا۔

لفظ کو مستقل بنانا، اس کو محفوظ کر دینا لازم تھا تا کہ تہذیبی سفر تیز رفتاری سے ہو سکے۔ یہ طریقہ لکھائی کی ٹیکنالوجی تھا۔ صدیوں تک اس پر ہر جگہ پر کئی طرح کی کوششیں ہوتی رہیں۔ مسئلہ ایک ایسے میٹیریل کا تھا جو لفظ کو آسانی سے محفوظ کر سکے۔ پتھر اور مٹی کی تختیاں استعمال ہوئیں۔ لیکن ٹوٹ جاتی تھیں اور بھاری تھیں۔ اٹھا کر دوسرے جگہ لے کر جانا محنت کا کام تھا۔ لکڑی یا چھال پھٹ جاتی تھی اور خراب ہو جاتی تھی۔ دیواروں پر نقش بڑی جگہ لیتے تھے اور زیادہ معلومات نہیں لکھی جا سکتی تھی۔ درختوں کے پتے مستقل طریقہ نہ تھا۔ چین میں ہونے والی چار بڑی ایجادات میں سے ایک کاغذ تھی، اس نے یہ مسائل حل کر دئے۔

اس میں ایک بڑا ہی اہم اضافہ رومیوں نے دو ہزار سال قبل کیا۔ یہ کوڈکس  تھا جسے آج کتاب کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل کاغذ کو لپیٹ کر رکھا جاتا تھا۔ اس نئے فارمیٹ میں کاغذ کی ایک سائز کے ٹکڑے کر کے ان کو آپس میں جوڑ لیا جاتا تھا۔ یہ ٹکڑے صفحے کہلائے۔ اور آپس میں جڑ کر کتاب بنے۔ دو ہزار سال سے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کا یہی طریقہ رہا ہے۔

کاغذ لکڑی یا پتھر سے نرم ہے اس لئے لکھے ہوئے لفظ کی کہانی کا فاتح بنا۔ اس کا پتلا ہونا اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ کیونکہ اس کی لچک اس کو پکڑنا اور اٹھانا آسان کر دیتی ہے۔ جب اس کو جوڑ کر کتاب بنا لی جائے تو پھر ایک بار سخت اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ مضبوط جلد سے باندھے گئے یہ کاغذ ان الفاظ کی حفاظت صدیوں تک کر لیتے ہیں۔

مضبوط جلدوں کے درمیان بنایا گیا کاغذ کے انبار کا سینڈوچ جس کی ایک طرف اس کی “ریڑھ کی ہڈی” ہو اور دوسری طرف سے کھل سکتا ہو، یہ کوڈیکس کا فارمیٹ ہے۔ اس نے جلد ہی لپیٹے گئے کاغذ (سکرول) کی جگہ لے لی۔ اس کے دونوں اطراف میں لکھا جا سکتا تھا اور پڑھنے والے کو مسلسل لکھی تحریر کا تجربہ فراہم کرتا تھا۔

کچھ اور کلچرز میں کچھ اور فارمیٹ بھی بنائے گئے۔ ایک بڑا سا صفحہ جس کو فولڈ کر لیا جاتا لیکن کوڈیکس جتنا کامیاب کوئی بھی نہیں رہا۔ اس کا ایک اور فائدہ کاتبین کو یہ تھا کہ ایک ہی کتاب کو لکھنے میں کئی کاتیبین الگ الگ کام کر سکتے تھے اور ان صفحات کو جوڑ کر ایک کتاب بنا لی جاتی۔ جب چھاپہ خانے کی ایجاد ہوئئی تو ایک ہی کتاب کی کاپیاں اسی طریقے سے نکال لی جاتیں۔ بائیولوجی نے یہ پہلے ہی دریافت کر لیا تھا کہ کسی بھی چیز کو پھیلانے اور محفوظ کرنے کا سب سے اہم ضرورت اس کی کاپی کرنے کا اچھا، تیزرفتار اور قابلِ اعتبار طریقہ ہے۔ کتاب نے یہ کام خیالات اور کلچر کے پھیلاوٗ کے لئے سرانجام دیا۔

اس نئے فارمیٹ میں لکھی پہلی کتابوں میں سے ایک بائبل تھی جس نے مسیحی مبلغین کے لئے کام آسان کر دیا۔ پورے سکرول میں چھان کر ڈھونڈنے کے بجائے صفحہ نمبر سے کسی بھی عبارت تک پہنچا جا سکتا تھا۔ اس طرح کی “رینڈم ایکسس میموری” ڈیجیٹل دور سے پہلے آ گئی تھی اور شاید ڈیجیٹل دور کے بعد بھی رہے۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں