باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 5 جون، 2019

چھوٹی دنیا میں ۔ خلیوں کا اکٹھ




کوانوفلیگ لیٹ یا کوانوز ایک یک خلوی مخلوقات کا گمنام سا گروپ ہے جو دنیا بھر میں پانی میں پایا جاتا ہے۔ ٹراپیکل علاقے کے دریا سے لے کر اینٹارٹیکا کی برف تلے بھی۔ بیضوی جسم، ایک عدد دُم اور کالر پر لگے سخت فلامنٹ۔ یہ دم بیکٹیریا اور نامیاتی ذرات کو کالر کی طرف لے کر آتی ہے، جہاں پر یہ پھنس جاتے ہیں، کھائے اور ہضم کر لئے جاتے ہیں۔ یہ یک خلوی جاندار یوکارئیوٹ ہیں، جیسے میں اور آپ یعنی خلیے کی مکمل مہنگی اور ڈی لکس خاصیتوں کے ساتھ۔ مائیٹوکونڈریا اور نیوکلئیس والے خلیے جو بیکٹیریا کے پاس نہیں۔ لیکن بیکٹیریا کی طرف ان کا صرف ایک ہی خلیہ ہے جو آزاد تیرتا پھرتا ہے۔


کئی مرتبہ یہ معاشرتی رویہ بھی دکھاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر کالونیاں بنا لیتے ہیں۔ ان کی ایک نوع سالپن گوکا روزیٹا ایسا کرنے میں ماہر ہے۔ درجنوں خلیے جنہوں نے سر جوڑے ہوتے ہیں اور دم باہر کی طرف ہوتی ہے، جیسے کوئی ریشوں والا پھل ہو اور اسی طرف تیرتے پھرتے ہیں۔ ان کا یہ ملاپ جمع کا نہیں بلکہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔ یعنی کہ ایسا نہیں کہ یہ ایک دوسرے سے مل کر ایسا کرتے ہیں بلکہ جب یہ افزائشِ نسل کے لئے تقسیم کرتے ہیں تو مکمل طور پر الگ نہیں ہوتے اور ایک چھوٹا سا کنکشن رہ جاتا ہے۔ ایسا بار بار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک گیند سی بن جاتی ہے جس کو روزٹ کہا جاتا ہے۔ کیا روزٹ ایک کثیر خلوی جاندار ہے اور یہ بنتا کیسے ہے؟ یہ دلچسپ سوال بہت ہی دلچسپ جواب رکھتا ہے۔

پہلے پہلے جانور کیسے تھے؟ ہمیں بہت کم علم ہے کیونکہ ان کے نرم جسم فوسلائیز نہیں ہوئے۔ وہ آئے اور چلے گئے جیسے کسی کی بھری سرد آہ۔ لیکن ہم کچھ اندازے لگا سکتے ہیں۔ تمام جدید جانور کثیر خلیاتی ہیں جو اپنی زندگی کا آغاز خلیوں کی کھوکھلی گیندوں کے طور پر کرتے ہیں اور زندہ رہنے کے لئے دوسری چیزوں کو کھاتے ہیں۔ اس سے ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ابتدائی جانور بھی ایسے ہوں گے۔ ابتدائی کثیر خلوی شاید ایسے روزیٹ ہوں۔ خلیوں کی کالونی جس میں ہونے والی ارتقائی جدت نے زندگی کے نئے روپ کو جنم دیا۔ ہر خلیے نے تمام کام کرنے کے بجائے اپنی اپنی ذمہ داری سنبھالنا شروع کی۔ اس اتحاد کی کامیابی ابتدائی پروٹو جانور بنے۔ معصوم سے یک خلوی جانداروں سے یہ گلہریوں، بطخوں، کبوتروں اور ہم جدید جانور کی طرف کا سفر ہو گا۔

ان پرتحقیق کرنے والی سائنسدان نکول کنگ کو ان کے روزیٹ بنانے کے طریقے کی تلاش نے بہت کھپایا۔ ان کو علم تھا کہ قدرتی ماحول میں یہ کالونیاں آسانی سے بنا لیتے تھے لیکن ان کی لیب میں یہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ ان کے اور دوسرے سائنسدانوں کے ہاتھ میں یہ پرسرار طور پر تنہائی پسند ہو جاتے تھے۔ درجہ حرارت، تیزابیت، غذائیت، ہر قسم کے تجربے کر کے دیکھ لئے لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ یہ مسئلہ اس وقت حل ہوا جب تھک کر نکول کنگ نے ہار مان لی اور توجہ دوسری طرف کر لی جو کہ ان کے جینوم کو سیکونس کرنا تھا۔

جینوم کے مطالعے کے لئے ان کو بیکٹیریا سے مکمل طور پر صاف کرنا تھا  تا کہ بیکٹیریا کا جینیاتی کوڈ اس میں خلل نہ ڈالے۔ اس لئے ان کو اینٹی بائیوٹک کی طاقتور خوراک دی گئی اور ان کی کالونی بنانے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ اگر پہلے وہ کالونی بنانے میں مزاحمت کر رہے تھے تو اب ایک دوسرے کے قریب بھی نہیں آنا چاہتے تھے۔ نکول کنگ کو احساس ہوا کہ اس سب کا تعلق کسی طرح بیکٹیریا سے ہو سکتا ہے۔

ان کی گریجویٹ سٹوڈنٹ روزی آلیگاڈو نے پانی کے سیمپل لیے جہاں یہ پائے جاتے تھے اور اس میں موجود بیکٹیریا شناخت کئے۔ اس میں 64 اقسام کے بیکٹیریا تھے۔ ان کوانوز کو یہ بیکٹیریا ایک ایک کر کے کھلائے۔ ان میں سے ایک بیکٹیریا ایسا نکلا جن کے کھلانے پر انہوں نے واپس کالونیاں بنانا شروع کر دیں۔ نکول کنگ کو ناکامی اس لئے ہوئی تھی کہ یہ بیکٹیریا ان کی لیبارٹری میں نہیں تھا۔ آلیگاڈو کی شناخت کردہ یہ ایک نئی نوع تھی۔

اس کے بعد انہوں نے ڈھونڈا کہ یہ کام ہوتا کیسے تھا۔ اس کی وجہ اس بیکٹیریا سے نکلنے والا فیٹ کی طرح کا ایک مالیکیول تھا جس کا نام آر آئی ایف ون رکھا گیا۔ اس کے بعد ان کی ٹیم اس طرح کے کئی بیکٹیریا اور ان کے مالیکیول شناخت کر چکی ہے جو کوانوز کا سوشل رویہ تبدیل کرتے ہیں۔

اس مالیکیول سے کوانوز کو پتا لگتا ہے کہ خوراک قریب ہے۔ کوانوز الگ الگ ان کو نہیں پکڑ پاتے اور ان کے قریب ہونے پر اکٹھے ہو جاتے ہیں کیونکہ تیراکی میں یہ سست رفتار ہیں۔ کالونی بنا کر شکار کرنا آسان ہے اور ان بیکٹیریا کو خوراک بنایا جا سکتا ہے۔ بیکٹیریا ان کو اکٹھا کر کے کثیر خلوی سٹرکچر میں بدل دیتے ہیں۔

تو اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ کیا بیکٹیریا نے جانوروں کا آغاز کروایا؟ نہیں۔ کیونکہ کوانوز جانوروں کے آباء نہیں، ان کے کزن ہیں اور ان کا رویہ دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ قدیم جانور اور قدم بیکٹیریا بھی ایسے ہوتے ہوں گے، ابھی ایک لمبی چھلانگ ہے۔ اب کنگ ان تجربوں کو جدید جانوروں پر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں کہ جس طرح کوانوز ان مالیکیولز کو دیکھ کر ری ایکٹ کرتے ہیں اور سوشل رویہ بدلنتے ہیں، کیا جدید جانور بھی ایسا کرتے ہیں اور کیا ان کی ڈویلپمنٹ پر فرق پڑتا ہے؟ کیا یہ قدیم فنامینا ہے جو ابھی تک چلا آ رہا ہے؟ کنگ کے مطابق، “یہ کوئی متنازعہ نہیں کہ سمندروں میں، جہاں پر پہلی مرتبہ جانور وجود میں آئے، وہاں پر ٹنوں بیکٹیریا تھے۔ قسم قسم کے تھے اور ان جگہوں کے ایکوسسٹم پر غالب تھے۔ ابتدائی جانوروں کو اس سب کا دھیان رکھنا پڑا ہو گا اور ان سے خارج ہونے والے مالیکیولز کا ان جانوروں کی ڈویلپ منٹ پر اثر رہا ہو گا۔ اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے ہوں گے۔ جانوروں کا نہ صرف ان جراثیم سے پرانا رشتہ ہے بلکہ ان کے رویے کو اور ان کی ڈویلپ منٹ کو بھی انہوں نے شکل دی ہے"۔

  

کوانوز کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Choanoflagellate

ان کی کالونی کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Salpingoeca_rosetta

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں