باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 15 جولائی، 2019

گروہ سے ریاست تک ۔ تاریخ کا پہیہ



ہم جب آج کی دنیا دیکھیں تو یہ ممالک میں بٹی ہوئی ہے۔ سوائے اینٹارٹیکا کے تمام براعظموں کی زمین اب کسی ریاست کی عملداری میں آتی ہے۔ سیاسی نظام کا یہ تصور زیادہ پرانا نہیں۔

انسان کا زیادہ وقت شکار اور جنگلی خوراک جمع کر کے چلتی پھرتی زندگی گزارنے میں گزرا ہے۔ اگر چالیس ہزار سال پہلے کی دنیا دیکھیں تو سب انسان ہی ایسے رہتے تھے۔ اگر دس ہزار سال پہلے کی دنیا دیکھین تو بھی بڑی تعداد میں ایسا ہی تھا۔ آج بھی ایسا طرزِ زندگی ہمیں کئی جگہ پر نظر آتا ہے جس میں نیوگنی یا ایمیزونیا کے علاقے شامل ہیں۔ جبکہ اسکیمو، افریقہ کے پگمی، آسٹریلیا کے ایب اوریجنل، جنوبی افریقہ کے سان، یا امریکہ کے تیارا ڈل فیگو اب ریاستی کلچر میں ضم ہو رہے ہیں۔ قدیم طرزِ زندگی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ تو پھر تاریخی طور پر لوگ سیاسی طور پر کیسے منظم رہے ہیں؟ اگرچہ یہ ایک براڈ جنرلائزیشن ہے لیکن ایک خلاصہ کچھ یوں ہو گا۔

بینڈ
یہ چھوٹے گروہ تھے جن کی تعداد سو سے کم ہوا کرتی تھی۔ دنیا میں بڑا حصہ انسان اسی طرح کے گروہوں کا حصہ رہے۔ ان کے پاس بہت سے ادارے موجود نہیں تھے جن کو آج ہم ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس رہنے کی مستقبل جگہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ جہاں پر پڑاوٗ ڈالتے تھے، وہاں خوراک کی دستیابی تک رہ لیتے تھے۔ زمین پر کوئی ملکیت کا تصور نہیں تھا۔ زمین مشترک تھی۔ کوئی سپیشلائیزڈ پیشہ نہیں تھا۔ ہر کوئی سبھی کام کرتا تھا۔ سب کو خوراک ڈھونڈنا ہوتی تھی۔ قانون، پولیس، معاہدے وغیرہ جیسے تصورات نہیں تھے۔ تنازعے، خواہ گروپ کے اندر ہوں یا دوسرے بینڈ کے ساتھ، ان کو طے کرنے کے کوئی اصول و ضوابط نہیں تھے۔ سب برابر تھے۔ کوئی بااثر اگر لیڈر کے رول میں ہوتا تو اس کے پاس اس وجہ سے کوئی خاص مراعات نہیں تھیں۔ اس کو بھی اسی طرح کام کرنا ہوتا تھا جیسے کسی اور کو۔ اور یہ لیڈرشپ وراثتی نہیں تھی۔ لیڈر بننے کے لئے شخصیت، طاقت اور صلاحیت اور لڑنے میں مہارت مطلوب خاصیتیں تھیں۔ بیماریوں یا خوراک کی کمی یا قتل ہو جانے کے سبب ان گروپس میں افراد کی تعداد زیادہ نہیں بڑھا کرتی تھی۔ ذرائع کی فروانی والی جگہ پر یہ اپنا چلنے پھرنے والا طرزِ زندگی ترک کر کے سیٹل بھی ہو جاتے تھے۔ ہر شخص ہر دوسرے کو نام سے جانتا تھا۔ کسی کے پاس کوئی راز نہیں ہوتا تھا۔ (پچھلی چند صدیوں میں موجود اور آج پائے جانے والے بینڈز کے مطابلعے سے اس گروپ ڈائمنکس کا تفصیل سے مطالعہ کیا جا چکا ہے)۔

قبیلہ
جب زراعت شروع ہوئی تو لوگوں نے فصلیں اگانا شروع کیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو بڑی دیر ایک جگہ پر رہنا پڑتا تھا۔ گاوٗں بننا شروع ہوئے۔ یہاں پر سینکڑوں افراد اکٹھے ایک جگہ پر رہتے تھے۔ آج دنیا میں کئی جگہ پر قبائل موجود ہیں۔ کئی جگہوں پر مرکزی حکومت آ جائے کے باوجود کئی علاقوں میں قبائل آزادی سے رہ رہے ہیں۔ نیوگنی ہائی لینڈر، مالنینیشیا، ایمیزون میں یہ سیاسی نظام ابھی بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ قبائل میں کئی خاندان آباد ہوتے ہیں، خاندانوں کی اس میں اپنی اہمیت اور اثر ہوتی ہے۔ عام طور پر ان میں بھی ہر کوئی دوسرے کو نام سے جانتا ہے۔ تنازعے طے کرنا کا  طریقہ غیررسمی ہوتا ہے اور خاندانی روابط ان میں کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ دو لڑنے والوں کے اپنے اپنے تعلقات ہوتے ہیں۔ باقاعدہ قوانین نہیں ہوتے۔ سیاسی نظام عام طور پر مساوات پر مبنی ہوتا ہے۔ قبیلے کے سردار کے پاس طاقت محدود ہوتی ہے۔ اس کی بات کا اثر ہو سکتا ہے لیکن فیصلہ اس کے پاس نہیں۔ بیوروکریسی، ٹیکس، پولیس فورس وغیرہ نہیں ہوتے۔

چیف ڈم
ہزاروں افراد پر مشتمل الگ آبادیوں پر مشتمل اکائی۔ بیسویں صدی کے آغاز تک دنیا میں سیاسی سٹرکچر کا یہ طریقہ ختم ہو چکا تھا کیونکہ ان کے پاس وہ زمین تھی جو ریاستوں کو پسند تھی اور وہ ان گروہوں سے چھین لی گئی۔ جب یورپیوں نے امریکہ کا رخ کیا تو مقامی آبادی میں مشرقی امریکہ میں یہ بہت جگہ پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جنوبی اور وسطی امریکہ، سب صحارا کے افریقہ اور تمام پولییشیا میں چیف ڈم قائم تھیں۔ آرکیولوجی کے شواہد بتاتے ہیں کہ 5500 قبلِ مسیح میں اس طرح کی سیاسی اکائیوں کا آغاز ہلالِ زرخیز میں اور 1000 قبلِ مسیح میں میسو امریکہ میں ہو چکا تھا۔

قبیلے سے بڑے اس طریقے میں ہزاروں اور کئی مرتبہ دسیوں ہزاروں لوگ شامل ہوا کرتے۔ اس سیاسی نظام سے لوگوں نے یہ سیکھا کہ تنازعات کو ایک دوسرے کو قتل کئے بغیر بھی حل کیا جاتا ہے۔ تنازعات کا طے ہونا رسمی طور پر شروع ہو گیا۔ چیف کے عہدے کی وراثتی طور پر منتقلی بھی اسی وقت شروع ہوئی، خاص طور پر بڑے سائز کی چیف ڈم میں۔ چیف کو محنت مزدوری کی ضرورت نہیں تھی۔ عام طور پر اس کا لباس بھی شناخت کروا دیتا تھا۔ عوام کو اسے تعظیم دینا ہوتی تھی۔ چیف کا حکم پہنچانے اور عملدرآمد کروانے کے لئے بیوروکریسی یا “وزیر” ہوا کرتے تھے۔ چیف کا تعلق اکثر بڑی آبادی یا بڑے گاوں سے تھا (جس طرح ریاست کا دارلحکومت)، جبکہ ہر گاوں کا اپنا چیف جو بڑے چیف کا تابع تھا۔ اشیائے تعیش پر چیف کا حق سمجھا جاتا تھا۔ ہوائی کے جزائر کے چیف کے بنائے گئے پروں کے لباس پر ہزاروں افراد کی برسوں کی محنت لگی ہو گی۔ آرکیولوجی میں چیف کی قبر کی الگ شناخت ان کی وجہ سے کرنا آسان ہے، جبکہ قبائل یا بینڈز میں نہیں۔ گفٹ اکانومی سے رسمی اکانومی اسی سیاسی طریقے کے وقت سے شروع ہوئی۔

بڑے کام کروانے، جیسا کہ آبپاشی کے لئے راستہ کھودنے، خوراک ذخیرہ کرنے (یا پھر اپنا بڑا مزار یا رہائشگاہ بنوانے) کیلئے چیف کو افرادی قوت کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ یہاں سے ٹیکس کا نظام شروع ہوا۔ چیف ڈم بہت طرح کی رہی ہیں جن میں بہت مختلف قواعد اور طریقے رہے ہیں لیکن رسمی سیاست، قوانین، عوامی پراجیکٹس، عظیم لیڈر وغیرہ اس طرزِ معاشرت کا حصہ تھے۔ اگرچہ ہر کوئی ہر کسی سے واقف نہیں ہوتا لیکن خاندان یا قبیلے کا علم ہوتا ہے۔ بڑے گروپ پچاس ہزار تک کے لوگوں تک رہے ہیں۔

ریاست
ایک بڑا مسئلہ جو بڑی ہوتی ہوئی سیاسی اکائیوں میں مرکزی طاقت کو درپیش رہا، وہ افرادی قوت کا تھا۔ اگر سب لوگ برابر ہیں یا ایک دوسرے کو جانتے ہیں تو پھر مشقت والے کام کون کرے گا؟ چھوٹی سوسائٹی میں امیر غریب کا تصور نہیں تھا کیونکہ دولت سانجھی تھی۔ یہ طریقہ بڑے گروپس میں نہیں کام کرتا۔ بہت سے کام اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کو منظم کرنے کے لئے مرکزی کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی کام غیرمطلوب ہو سکتے ہیں۔ سخت جسمانی مشقت، بڑی آبادیوں سے فضلے اور گندگی کو صاف کرنا، ریاست کے دفاع کے لئے جان قربان کر دینا وغیرہ۔ ان میں اشرافیہ ابھرتی ہے۔ مضبوط بادشاہ، ان کے مصاحب، اور طبقاتی نظام۔ مشقت کے کام کرنے کے لئے یا تو اپنی سوسائٹی کے نچلے قرار دئے گئے طبقے کام آتے ہیں یا پھر جنگوں میں قبضہ کئے گئے غلام۔ یہ ریاستی نظام ہے جس میں ایک دانا لیڈر اور ظالم کلپٹوکریٹ کے درمیان فرق محض درجے کا ہوتا ہے۔ دوسروں پر قبضہ کر کے ان سے خراج وصول  کر کے اپنے عوام پر بوجھ کم رکھنا، طاقت کے استعمال سے عوام کو قابو میں رکھنا، امن و امان کے قیام اور نظم و ضبط قائم کر کے عوام کو خوش رکھنا، نظریے کے نام پر ریاست سے وفاداری کو اچھی قدر بنا دینا وغیرہ جیسی تکنیک کو ریاست کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ چھوٹی اکائیوں کے برعکس اس میں مختلف زبانوں اور نسلوں کے لوگ بھی موجود ہو سکتے ہیں، جو ایک دوسرے سے بالکل واقف نہیں ہوتے۔ ان کے لئے تنازعات طے کرنے کے لئے رسمی قوانین اور نظامِ انصاف کی ضرورت پڑتی ہے۔

ریاستی نظام کا ایک بڑا فائدہ امن و امان رہا ہے۔ چھوٹے گروپس میں تنازعات کی وجہ سے قتل کر دئے جانا معممول رہا جبکہ ریاست میں ان کی تعداد میں بڑی حد تک کمی ہو گئی۔ دوسرا یہ کہ ریاست کے نظریے کے نام پر لوگ اپنی جان قربان کر دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسا چھوٹے گروپ میں کبھی نہیں رہا۔ اس وجہ سے ریاستی نظام عام طور پر چھوٹے گروپس کو شکست دیتا رہا ہے اور کامیابی سے پھیلتا رہا ہے۔

ریاست کا تصور سب سے پہلے میسوپوٹییمیا میں 3700 قبلِ مسیح میں ابھرا، میسو امریکہ میں 300 قبلِ مسیح میں۔ دو ہزار سال قبل تک یہ اینڈیز، چین، اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی پہنچ چکا تھا اور مغربی افریقہ میں ایک ہزار سال زائد ہو چکے ہیں۔ ریاستیں اپنی تعمیرات کے نشان اور شہروں کے آثار زیادہ چھوڑتی ہیں، اس لئے ہمیں تاریخ میں ان کا زیادہ آسانی سے پتا لگ جاتا ہے۔

ابتدائی ریاستوں میں بادشاہ تھے اور یہ عہدہ وراثتی تھا۔ ریاستی نظام نے طاقتور بادشاہوں اور شاہی خاندانوں کو جنم دیا۔ مصر میں فراعین کو، انکا یا ایزٹک میں بادشاہ زمین پر پیر نہیں رکھتا تھا، اس کو ہر جگہ پر پالکی میں اٹھا کر لے جایا جاتا۔ آگے اور پیچھے لوگوں کا جلوس چلتا۔ جاپان میں بادشاہ کو پکارنے کے لئے جاپانی زبان میں تعظیم کے لئے نئے الفاظ بنائے گئے۔

 ان کے پاس فیصلہ سازی، طاقت اور انفارمیشن ہوا کرتی تھی۔ (آج کی جمہوریتوں میں بھی اہم انفارمیشن چند لوگوں تک محدود رہتی ہے)۔ مرکزی کنٹرول کا اثر زیادہ دور تک ہوتا ہے۔ ٹیکس کا باقاعدہ نظام آ جاتا ہے۔ پیشے الگ ہو جاتے ہیں۔ یہ آج اس قدر الگ ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی پیشہ خود کفیل نہیں رہا، کسان بھی نہیں۔ اس وجہ سے جب ریاست گرتی یا توٹتی ہے تو بہت کچھ تباہ کر دیتی ہے۔ ابتدائی ریاستوں میں غلامی بڑے پیمانے پر رہی۔ غلامی اور ذات پات کی تقسیم جیسے اداروں کی وجہ سے بڑے عوامی منصوبے، شاندار تعمیرات ہوتی رہیں۔ غلام حاصل کرنے کے لئے جنگیں کرنا بھی معمول رہا۔ چھوٹے علاقوں کو ان کی زمین اور افراد کے حصول کے لئے نگل لیا جاتا اور ریاستوں وسیع ہوتی رہیں۔ بیوروکریسی بڑی ہوتی رہی۔ وزارتیں بھی سپیشلائز ہوتی گئیں۔ مثلا، محصول اکٹھا کرنے کی الگ وزارت اور اس کے لئے الگ بیوروکریسی۔ قانونی نظام رسمی، عدلیہ آئی اور پولیس۔ اس سب نظام کو چلانے کے لئے لکھائی کی ضرورت پڑی۔ زیادہ تر ریاستوں میں لکھائی موجود رہی اور بیوروکریسی میں آنے کی شرط بھی۔ پیشوں کی سپیشلائزیشن کی وجہ سائنس، ٹیکنالوجی، آرٹ وغیرہ ممکن ہوئے۔ ریاست کو اکٹھا رکھنے کے لئے نظریات کی جدت آئی۔ اقتدار کی مضبوطی اور سیاسی استحکام اس کے بغیر نہیں آ سکتا تھا۔ آج عالمی طور پر مقبول سیاسی نظریہ نیشنلزم ہے جس میں کسی جھنڈے، ترانے اور زمین کی تقدیس کے نام پر لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

فتوحات سے بڑے سلطنتیں بنیں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب سلطنتوں کی اپنی لیڈرشپ اس قدر پیچیدہ ہونے لگے کہ وراثتی قیادت کا طریقہ بھی ختم ہونے لگا۔ قبائلی نظام سے چیف ڈم تک کی روایات ختم ہونا شروع ہو گئیں۔ جدید ریاست اور ملکوں کا تصور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے تیرہ ہزار برس سے چھوٹے سے بڑے یونٹ تک جانے کا سفر سیدھی لکیر کی صورت میں نہیں ہوا۔ ایسا نہیں ہوا کہ ہمیشہ چھوٹا یونٹ بڑے میں ڈھل جائے۔ یہ دونوں طرف کا سفر رہا ہے۔ صرف یہ کہ چھوٹے سے بڑے یونٹ میں جانے کا تناسب کچھ زیادہ رہا۔ پچھلے کچھ برسوں میں سوویت یونین، چیکوسلواکیہ یا یوگوسلاویہ کی تقسیم چھوٹے یونٹ کی طرف سفر کی مثالیں ہیں، دو ہزار سال قبل مقدونیہ سکندرِ اعظم کی سلطنت کا شیرازہ بکھرنا اس کی مثال ہے۔ جنگوں میں بھی ضروری نہیں کہ بڑے یونٹ ہی ہمیشہ فاتح رہیں۔ رومیوں کی شکست یا پھر منگول چیف جنگیز خان کے ہاتھوں چین کی سلطنت کی شکست اس کی مثالیں ہیں لیکن طویل مدتی ٹرینڈ چھوٹے یونٹس سے بڑے یونٹس کی طرف لے جاتا رہا ہے اور زیادہ تر پیچیدہ سیاسی یونٹ سادہ یونٹس کو ختم کرتے رہے ہیں،۔

اس سیاسی سٹرکچر کی کامیابی کی بڑی وجہ مرکزی فیصلہ سازی ہے۔ اس میں وسائل اور افواج کو آرگنائز کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حب الوطنی جیسے جذبات کی وجہ سے لوگوں کو ریاست کے نام پر جان دینے پر بآسانی آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ نظامِ ریاست کے بغیر ایسا نہیں ہوتا۔ (نیوگنی کا قبائلی اس کا تصور نہیں کر سکتا)۔ یہ تصور سکول سے ہی راسخ کر دیا جاتا ہے اور یہ صدیوں سے ہو رہا ہے۔ برطانیہ کا “بادشاہ اور ملک کے لئے”، سپین کا “ہسپانیہ  کی خاطر کچھ بھی” کے نعرے مشہور ہیں۔ سولہویں صدی کے ایزٹک جنگجو یہ نعرے لگاتے میدانِ جنگ میں اترا کرتے تھے، “جنگ میں موت سے بہتر کچھ نہیں۔ یہ موت پھولوں کی سیج ہے۔ میرا دل اس کا طالب ہے”۔ جنگ میں موت کی طلب کی خواہش نے پچھلے چھ ہزار برس میں دنیا کا نقشہ بنایا ہے۔ ریاست کی خاطر بے جگری سے، مرکزی کنٹرول کی ہدائت پر نتائج سے بے پرواہ لڑنے والے فوجی کا اس میں بڑا کردار رہا ہے۔

اہرامِ مصر ہوں یا فلکیات کی رصد گاہیں، دریاوٗں کے رخ موڑنے ہوں یا لمبے تجارتی راستہ محفوظ کرنا ہوں، یہ سب کچھ ریاست کے بغیر کرنا ممکن نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چھوٹے سے بڑے گروہ کے سفر کی سب سے بڑی وجہ جنگ یا جنگ کا خطرہ رہی ہے۔ جنگ انسانی تاریخ میں ایک مسلسل عمل رہا ہے۔ چھوٹے بینڈز میں بھی جس میں محض چند درجن افراد تھے، ان میں بھی جنگ ایک مستقل چیز رہی۔ قبائلی جنگوں اور پھر پروٹو سٹیٹ کی جنگیں، یہ سب انسانی آبادی کو ریاستی سسٹم کی طرف دھکیلتی رہی ہیں۔ شکست کھا جانے والوں کی قسمت کا فیصلے میں بڑا ہاتھ ان کے علاقوں میں آبادی کی ڈینسیٹی سے ہوتا رہا ہے۔ اگر یہ کم ہو جیسا کہ خانہ بدوش قبائل یا بینڈز کے ساتھ ہوتا ہے تو علاقہ فاتحین کے پاس چلا جاتا ہے اور مقامی لوگ اس علاقے سے کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اگر یہ درمیانہ ہو جیسا کہ زرعی معاشروں کے ساتھ تو یہ سب کہیں جا نہیں سکتے۔ فاتحین کے پاس شکست کھا جانے والی خواتین کا تو استعمال ہوتا ہے۔ مردوں کو قتل کر دیا جاتا رہا ہے یا غلام بنا لیا جاتا ہے اور زمین پر قبضہ کر لیا جاتا تھا۔ اگر یہ ڈینسیٹی زیادہ ہو تو پھر ضرورت کے غلام حاصل کر کے کئی بار زمین ان کے لئے چھوڑ دی جاتی ہے لیکن سیاسی آزادی چھین لی جاتی ہے۔ علاقے کو فاتح کا باجگزار ہونا پڑتا ہے۔ زولو، منگول، ہسپانیہ، انکا یا کسی بھی بڑھتی ریاست کا طریقہ اسی طرح رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاستوں کا قائم ہو جانے کے بعد برقرار رہنا شرط نہیں۔ اس کی اشرافیہ کا رویہ، اس کے ہمسائیوں سے تعلقات، اس کے شہریوں کی ہم آہنگی، معیارِ زندگی، طرزِ زندگی وغیرہ یہ طے کرتے ہیں کہ یہ قائم رہے گی یا شکست و ریخت کا شکار ہو جائی گی اور کس سمت کا رخ کرے گی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بیمار ریاستوں کا شیرازہ بکھرتے اور ان کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔

تاریخ کا بے پرواہ پہیہ چلتا رہتا ہے۔

ساتھ لگی تصویر ان چار طرح کے گروپس کی خاصیتوں کے بارے میں ایک خلاصہ ہے۔


یہ اس کتاب سے
Guns, germs and steel: Jared Diamond

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں