باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 17 جولائی، 2019

کچھ پیشے، جو اب نہیں رہے



“اس بدلتی دنیا میں سیکھنے والے اس زمین کے وارث ہوں گے، جبکہ وہ جو سیکھے ہوئے ہیں، اپنے آپ کو ایسی دنیا کا ماہر پائیں گے جو اب موجود ہی نہیں۔”
۔ایرک ہوفر

وکیل، پولیس مین، آڑھتی، کاشتکار، اکاوٗنٹنٹ، اداکار، فیکٹری ورکر، میڈیکل ٹرانسکرپٹر، کیشئیر، استاد ۔۔۔ ہم اپنی شناخت بھی اپنے پیشے سے کرواتے ہیں۔ ہر پیشے کی آمد کی وجہ ٹیکنالوجی یا معاشرتی جدت رہی ہے۔ ٹیکنالوجی ہمارے کام کرنے کے طریقوں کو مسلسل بدلتی رہی ہے۔ آج آپ جو کچھ بھی کر رہ ہیں، یہ پیشہ ہمیشہ سے نہیں تھا۔  کسان زراعت کی ٹیکنالوجی کے بعد آئے، مل ورکر صنعت کی دریافت کے بعد۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ آتے رہے اور ٹیکنالوجی ان کو ختم کرتی رہی ہے۔

چند پیشے جو اب نہیں رہے۔

برف کاٹنے والے
ریفریجریشن ایک انقلابی ٹیکنالوجی تھی۔ اس نے کئی شہروں کا بسنا ممکن کیا۔ کئی طرح کی خوراک اگانا اور اس کی تجارت ممکن بنائی۔ اس سے پہلے سرد رکھنے کا طریقہ شمال میں جمے دریا اور جھیلیں تھیں۔ یہ عالمی صنعت تھی۔ اس برف کو کاٹ کر دنیا بھر میں بھیجا جاتا۔ بحری جہاز اور ٹرینوں کے ذریعے یہ مختلف ممالک تک پہنچتی۔ ویگنوں سے ہسپتالوں، بازاروں، ہوٹلوں، گھروں تک۔ یہ مہنگی چیز تھی جس کو ہر کوئی اس کو افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ ٹیوڈر کمپنی دنیا کا بڑا بزنس تھا۔ اس کی برف ممبئی، کلکتہ، ہوانا اور امریکہ کی جنوبی بیلٹ تک پہنچتی۔ ریفریجریشن نے یہ پوری صنعت ختم کر دی۔ یہ صنعت انیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہوئی جبکہ 1950 کی دہائی تک یہ ختم ہو چکی تھی۔

مشعل بردار لڑکے
رات اندھیری ہوتی ہے۔ اس میں روشنی کے ہم اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ سورج غروب ہونے کے بعد بھی ہماری زندگی معمول کے مطابق جاری رہتی ہے۔ روشن راتیں دنیا کا معمول نہیں رہا۔ رات کو روشنی کا ذریعہ چاند ہوا کرتا تھا اور تقریبات سے لے کر فوج کی نقل و حرکت کے فیصلے چاند کی تاریخوں کے مطابق کئے جاتے تھے۔ بڑے شہروں میں رات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے تک راہنمائی کرنے کے لئے مشعل بردار لڑکے یہ کام کیا کرتے تھے۔ سٹریٹ لائٹس کے آنے سے یہ پیشہ ختم ہو گیا۔

لیمپ جلانے والے
سٹریٹ لائٹس تیل یا گیس پر جلا کرتی تھیں۔ انہوں نے مشعل بردار لڑکوں کی ضرورت ختم کر دی لیکن ایک اور پیشہ شروع ہو گیا۔ یہ ان روشنیوں میں تیل بھرنے اور سرِ شام ان کو روشن کرنے کے لئے لیمپ جلانے والے تھے۔ ان کے پاس لمبے ڈنڈے اور سیڑھیاں ہوا کرتیں جن کی مدد سے اپنا کام کرتے تھے۔ برقی روشنیوں کی آمد نے یہ پیشہ بھی ختم کر دیا۔

سوئچ بورڈ آپریٹر
آپ اپنے فون پر کچھ نمبر ملاتے ہیں اور کسی اور فون پر گھنٹی بجنا شروع ہو جاتی ہے۔ فون ایسے نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہر نمبر کو الگ گھما کر ڈائل کرنے سے بھی پہلے، جب آپ فون اٹھاتے تھے تو  ایک آپریٹر سے ملاتے تھے۔ آپریٹر کو بتاتے تھے کہ آپ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ آپریٹر ان تاروں کا کنکنشن کر کے آپ کی لائن ملاتا تھا۔ اس شعبے میں زیادہ تر خواتین کام کرتی تھیں۔  خودکار ٹیلی فون ایکس چینج نے یہ پیشہ ختم کر دیا۔ سب سے پہلے آپریٹر نے 1878 کو کام شروع کیا جبکہ  1983 میں آخری سوئچ بورڈ آپریٹر کی ریٹائرمنٹ ہوئی۔

انسانی الارم کلاک
صنعتی دور آنے کے بعد انسانی زندگی میں وقت کا جبر داخل ہو گیا۔ ٹھیک وقت پر کام پر پہنچ جانا ۔۔۔  اس کا تصور اس سے پہلے نہیں تھا، جبکہ فیکٹری چلنے کے لئے ایک وقت میں تمام ملازمین کا دفتر پہنچنا ضروری تھا۔ صبح وقت پر اٹھانا ایک پیشہ بن گیا۔ ان کو ناکر اپ کہا جاتا تھا۔ یہ لمبے ڈنڈے لے کر کھڑکیاں کھڑکایا کرتے تھے تا کہ لوگ وقت پر اٹھ جائیں۔ سحری پر ڈھول بجا کر یا صدا لگا کر اٹھانے والوں اور ان ڈنڈوں سے اٹھانے والوں کا پیشہ الارم کلاک کے عام ہو جانے کے بعد ختم ہو گیا۔ ناکر اپ کا پیشہ 1970 کی دہائی تک رہا تھا۔

شہتیر تیرانے والے
ٹرکوں کے مدد سے لکڑیوں کی ٹرانسپورٹ سے پہلے کٹے درختوں کو مِل تک پہنچانے کا طریقہ یہ تھا کہ ان کو ندی یا دریا میں گرا دیا جاتا تھا۔ وہاں سے ان کو تیرا کر مِل تک لایا جاتا۔ سڑکوں اور ٹرکوں کی آمد نے اس پیشے کو ماضی کا حصہ بنا دیا۔


یہ چند پیشے ہیں جن سے بڑی تعداد میں لوگ وابستہ رہے لیکن اب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اور پیشے، جیسا کہ چوہے پکڑنے والے، خطاط، دشمن کے ہوائی جہاز کی آواز سن کر خبردار کرنے والے، پِن سیٹر جو باوٗلنگ میں سکور گنتے اور پن سیٹ کرتے، لیکٹر جو ریڈیو کی آمد سے قبل مل مزدروں کو کام کے دوران تفریح فراہم کرتے تھے، ٹیلی گرافسٹ، قصہ گو وغیرہ۔ یہ سب بیسویں صدی تک کے پیشے تھے جن کو ٹیکنالوجی نے ختم کر دیا۔ اپنا فون ملاتے ہوئے کوئی سوچتا بھی نہیں کہ ایک وقت میں یہ کام بہت سے انسانوں کے روزگار کا ذریعہ تھا یا فریج سے پانی پیتے ہوئے اب خیال نہیں آتا کہ پانی ٹھنڈا کرنے کے لئے ہزاروں میل دور سے لائی گئی برف کی عالمی صنعت ہوا کرتی تھی۔


تو کیا جو کام ہم آج کر رہے ہیں، کیا کچھ دہائیوں کے بعد بھی وہ اسی طرح رہے گا؟ ٹیکنالوجی کی تیز ہوتی رفتار بتاتی ہے کہ پیشوں کی معدومیت کی رفتار میں اضافہ ہی ہو گا۔ آج سے چند دہائیوں بعد آج کے کئی پیشے ختم ہو چکے ہوں گے۔ امید ہے کہ کئی نئے آ چکے ہوں۔

تو پھر اس بدلتی دنیا میں کیا آپ سیکھنے کی صلاحیت سیکھ رہے ہیں؟









کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں