باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 8 ستمبر، 2019

عارضی جسم



سنئے! آپ نے یہ اپنا جسم کہاں سے لیا ہے؟ جی جی، وہی جسم جس کے اندر آپ اس وقت ہیں؟ اور یہ مت کہیے گا کہ یہ تو ہمیشہ سے آپ کے پاس ہی تھا۔ کیونکہ شاید پھر آپ کو اپنے جسم کا پتا نہیں۔ اس میں جو مالیکیول اور ایٹم ہیں، یہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ آپ کھاتے پیتے ہیں، سانس لیتے ہیں، اجزاء جذب کرتے ہیں۔ کچھ دیر یہ استعمال ہوتے ہیں پھر یہ جھڑ جاتا ہے، سانس یا منہ سے نکل جاتا ہے۔۔۔   آج سے ایک مہینے بعد آپ کے جسم کا بڑا حصہ وہ نہیں ہو گا جو آج ہے۔ کسی پانی کی لہر کی طرح آپ ایک عارضی ترتیب ہیں۔

ہر سیکنڈ میں آپ کے جسم میں خون کے بیس لاکھ نئے خلیے بن رہے ہیں۔ روز ہزاروں میل لمبا نیا ڈی این بن رہا ہے، جسم کے اربوں خلئے مر رہے ہیں اور نئے ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ خون چار ماہ میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔ جلد دو ہفتے میں مکمل طور پر بدلی جاتی ہے۔ معدے کی لائننگ پانچ روز میں بدل جاتی ہے۔ جگر کبھی اپنی سالگرہ نہیں مناتا۔  ہڈیاں بھی کنکریٹ جیسا سٹرکچر نہیں۔ یہ بھی بدلتی رہتی ہیں۔ اگر ایک ایک عضو کو الگ الگ دیکھا جائے تو آپ خاصے کم عمر ہیں۔ 

جو خلیے جلد تبدیل ہوتے ہیں، ان کا مسئلہ زیادہ تقسیم ہونے کی وجہ سے تقسیم کی غلطی ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ جو دیر تک رہتے ہیں، ان کے لئے ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کو اکٹھا کرنے کا۔ خلیوں کو نقصان پہنچانے میں جہاں ریڈی ایشن یا ٹوکسن ہیں، وہاں ایک بڑی چیز آکسیجن ہے۔ جسم میں ہونے والے کیمیائی عوامل میں آکسیجن آزاد ریڈیکل پیدا کرتی ہے جو غیرمستحکم مالیکیول ہیں اور ایسی کیمیائی ری ایکشن کر سکتے ہیں جو ڈی این اے میں مداخلت کر سکتے ہیں اور خلیے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بروگلے کے مطابق، “اگر آپ آکسیجن سے بچ سکتے ہیں تو دیر تک جوان رہ سکتے ہیں”۔ آکسیجن ہمیں زندہ رکھتی ہے، آکسیجن ہمیں بوڑھا کر دیتی ہے۔

ہمارے جسم کے مادے زیادہ تر ہوا سے آتے ہیں۔ یہ زمین کے سائیکلوں کا نتیجہ ہے۔ 1945 کے بعد اگلے بیس سال تک فضا میں کئے جانے ایٹمی تجربوں نے دنیا کی فضا کو تبدیل کر دیا۔ اس فضا نے ہم کو بدل دیا۔ تابکار عناصر جسموں کا حصہ بن گئے۔ یہ ٹوٹتے جاتے ہیں لیکن عناصر جسم میں رہ جاتے ہیں۔ ان کو وقت میں ٹریک کر کے عناصر کے جسم میں رہنے کا ٹھیک وقت بھی نکالا جا سکتا ہے۔ کاسمک شعاعیں فضا کی بالائی تہہ میں کاربن 14 بناتی ہیں۔ یہ ہر وقت تازہ ہوتے ہوئے جسم کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ پرانی باقیات سے کسی کے مرنے کا وقت اسی بنیاد پر نکالا جاتا ہے کہ مردے اپنے جسم کو روز تبدیل نہیں کر سکتے۔

ہمارا ہر وقت ہوتا نیا ہوتا جنم جہاں تر و تازہ رکھتا ہے، وہیں یہ ہماری قسمت لکھتا ہے۔ ری پلیس ہونے والا یہ عمل بہت ہی کم غلطیاں کرتا ہے۔ اتنی کم کہ ہمارا بنایا ہوا بہترین سے بہترین صنعتی پراسس بھی اس سے کہیں زیادہ غلطیاں کرتا ہے لیکن یہ عمل خود بھی مکمل طور پر پرفیکٹ نہیں۔ مضمحل ہوتے قویٰ، بالوں میں اترتی چاندی، کینسر، سب اس دوبارہ جوان ہونے والی عمل کا نتیجہ ہیں۔ سال گزرتے ہیں، خلیے ضرر اکٹھا کرتے ہیں۔ جسم کے اعضاء ساتھ چھوڑتے جاتے ہیں۔ پھر وہ وقت آ جاتا ہے جب قصہ تمام۔ یہ باری اگلی نسلوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔

اس انتہائی پرفیکٹ عمل میں ہونے والی کبھی کبھار کی غلطی ۔۔۔۔۔  کیا یہ اس عمل کی خامی ہے؟ نہیں۔ یہی اصول تو زندگی کی رنگینی کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر سب کچھ بے رنگ ہوتا اور سب کچھ ایک سا۔ ایک خلیے سے دوسرے میں کاپی کے دوران ہونے والی غلطیاں ہی تو ارتقا کے عمل کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو سب کچھ بس پہلے خلیے کی طرح ہی رہ جاتا۔ اس کے علاوہ کچھ بھی کبھی بھی نہ ہو سکتا۔ اربوں سال سے جاری اس کمال کے کھیل نے آج کی دنیا بنائی ہے۔ آج کی زندگی کا ہر رنگ روپ اسی کا نتیجہ ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ انسان غلطی کا پتلا ہے تو یہ محض محاورہ نہیں۔ ہم اربوں سال سے زندگی کے اپنے آپ کو تازہ رکھنے کے عمل کے دوران ہونے والی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔

مٹی سے لے کر مٹی ہونے کے درمیان کے وقت کی ایک خوبصورت چال، بدلتے مادے کی عارضی ترتیب۔ یہ آپکا جسم ہے۔ اس ترتیب پر بیتے تجربوں اور ان کی یادوں، اس سے ابھرتی سوچوں کا تسلسل ۔۔۔ یہ آپ ہیں۔

اوک رِج کے ڈاکٹر ایبرسولڈ نے ریڈیو آئسوٹوپس کے ذریعے یہ تجزیہ پہلی بار کیا تھا۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت کے 98 فیصد ایٹم اگلے سال تک آپ کے جسم کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس پر خبر۔
http://content.time.com/time/magazine/article/0,9171,936455,00.html




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں