باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 12 اکتوبر، 2019

بلیک ہول کی فزکس



بلیک ہول کائنات کے پرسرار اجسام سمجھے جاتے ہیں۔ اور ہاں، ایسا ہی ہے۔ لیکن ہم ان کے بارے میں کافی کچھ جان چکے ہیں۔ آئن سٹائن نے گریویٹی کی تفہیم کے بارے میں جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی پیش کی۔ اس تھیوری کی بنیاد پر کی گئی پیشگوئیاں بار بار انتہائی پریسائز طریقے سے ٹیسٹ کی جا چکی ہیں۔ یہ پیشگوئی کرتی ہے کہ زمین کے قریب وقت سست گزرے گا۔ نچلی منزل پر لگی گھڑی اوپر منزل پر لگی گھڑی کی نسبت سست ہو گی۔ تین سو ارب سالوں میں ایک سیکنڈ کا فرق پڑے گا۔ اب آپٹیکل سوئچ گھڑیاں اس قدر اچھی ہیں کہ ہم لیبارٹری میں ایک میٹر کی بلندی کے فرق پر پڑنے والے اس فرق کو ڈیٹکٹ کر چکے ہیں۔ گریویٹی کی وجہ سے زمین سے دور جاتی ہوئی روشنی میں ریڈشفٹ آئے گی۔ نچلی منزل سے اوپر کی منزل تک پہنچتے ہوئے دس ہزار کھرب حصوں میں ایک کا فرق پڑے گا۔ اس کی بھی ہم کئی طریقے سے کئی بار پیمائش کر چکے ہیں۔ یہ تھیوری ہر بار ہر ٹیسٹ کو پاس کرتی ہے۔

جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی پیشگوئی کرتی ہے کہ ستاروں کے قریب روشنی خم کھائے گی۔ اس کا ٹیسٹ بہت بار کیا جا چکا ہے اور ہبل ٹیلی سکوپ سے کہکشاوٗں کے لینز کی طرح کام کرنے کے ڑے ڈرامائی مناظر کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ زمین جتنا بہت ہی چھوٹا سا آبجیکٹ بھی سپیس ٹائم میں جو بھنور ڈالتا ہے، اس کو بھی بیس سال تک جاری رہنے والے تجربے میں کنفرم کیا جا چکا ہے، جس میں گریویٹی پروب بی نامی سیٹلائیٹ نے زمین کے گرد چکر لگا کر یہ ڈیٹکٹ کیا تھا۔ جب کوئی تھیوری اتنے ٹیسٹ اتنی اچھی طرح سے پاس کر لے تو پھر ہمیں اسے اور اس سے کی گئی ہر پیشگوئی کو سنجیدگی سے لینا پڑتا ہے۔ بلیک ہول جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی پریڈکشن ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوارزچائلڈ نے آئن سٹائن کی مساوات پر تجزیہ کر کے ایک مظہر کا معلوم کیا کہ اگر ایک خاص نصف قطر میں ایک ماس موجود ہو تو وہ بلیک ہول بن جائے گا۔ اس کو شوارزچائلڈ ریڈیس کہتے ہیں۔ سورج کے ماس کے لئے یہ تین کلومیٹر ہے۔ اس کے بعد اس میں سے روشنی باہر نہیں آ سکے گی۔ یہ ہر چیز کے لئے درست ہے۔ قدرت اس میں سائز اور ماس کی شرط نہیں لگاتی۔ اگر زمین کا ماس گیند کے سائز کا ہو تو یہ بلیک ہول بن جائے گی۔ ایک پتھر پروٹون کے سائز کا کر دیا جائے تو یہ بلیک ہول ہو گا۔ آسٹرونومرز کے لئے سوال صرف یہ ہے کہ ان میں سے کس طرح کے بلیک ہول واقعی موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بلیک ہول بہت ہی سادہ آبجیکٹ ہیں۔ اس سے سادہ کوئی اور فلکیاتی جسم نہیں۔ ان کا ایک ایونٹ ہورائزن ہے۔ یہ کوئی فزیکل باوٗنڈری نہیں، صرف انفارمیشن کی ممبرین ہے۔ جن چیزوں کو ہم کائنات میں دیکھ سکتے ہیں اور جو ہمیشہ کیلئے پوشیدہ ہو گئیں، یہ ان کے درمیان کی حد ہے۔ اس ہورائزن کا ایک سائز ہے جو اس کے ماس کے ساتھ لینئیر طریقے سے بڑھتا ہے۔

تھیوری میں بلیک ہول میں ایک اور چیز ہے۔ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی سے کیلکولیشن کی جائے تو سنٹر میں انفنیٹی ملتی ہے۔ اس کو سنگولیریٹی کہا جاتا ہے۔ اور یہ ایک مسئلہ ہے۔ فزکس میں ہمیں جب بھی کسی کیلکولیشن میں کسی فزیکل کوانٹٹی کیلئے انفینیٹی ملے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ٹھیک نہیں۔ آئن سٹائن سے لے کر سٹیفن ہاکنگ اور آج تک ہمیں معلوم ہے کہ بلیک ہول کی تھیوری نامکمل ہے کیونکہ سنگولیریٹی بے تکی شے ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، ان کا مشاہدہ ناممکن ہے کیونکہ یہ ایونٹ ہورائزن کے اندر ہے۔ اس لئے صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن تھیوری میں مسئلہ موجود ہے۔

بلیک ہول کی ایک اور پراپرٹی سپِن (گھماوٗ) ہے۔ جو ستارے بلیک ہول میں تبدیل ہوتے ہیں، ان میں سپن ہوتی ہے۔ جب ان کا کولیپس ہوتا ہے تو اینگولر مومینٹم نے کنزرو رہنا ہے۔ ان کے گھومنے کی رفتار تیزتر ہو جاتی ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ نہ صرف تمام بلیک ہول سپین کر رہے ہیں بلکہ بہت تیزرفتاری سے۔

ماس، سائز اور سپن۔ بلیک ہول میں صرف یہی تین خاصیتیں ہیں۔ اور کچھ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب سے پہلی طرح کے بلیک ہول وہ ہیں، جو بڑے ستاروں کے مر جانے کے بعد رہ جانے والی باقیات تھیں۔ سورج کا یہ مستقبل نہیں۔ سورج اپنے مستقبل میں اپنا ایک تہائی ماس کھو دینے کے بعد سفید بونا بن جائے گا جو موجودہ سائز سے لاکھوں گنا چھوٹا ہو گا۔ لیکن ایک ایسا ستارہ جو سورج سے دس گنا بڑا ہو۔ وہ اپنی زندگی کے دوران اپنا ماس کھونے کے بعد، جب اس سٹیج تک پہنچے گا جہاں پر فیوژن رک جائے گی تو وہ بلیک ہول بن جائے گا۔ فیوژن ری ایکشن کسی بھی ستارے کو پھلائی رکھتا ہے۔ ستارے کا سائز اس ری ایکشن کے پریشر اور گریویٹی کی رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔ جب یہ مساوات ٹوٹ جاتی ہے، گریویٹی جیت جاتی ہے اور اس کو کمپریس کرنے سے بلیک ہول میں تبدیل کرنے سے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مردہ ستاروں کے بلیک ہول بن جانے کی یہ پیشگوئی 1940 میں اوپن ہائیمر نے کر دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلیک ہول سیاہ ہیں، نظر نہیں آ سکتے۔ ان کو کیسے دیکھیں؟ اکیلے بلیک ہول کو دیکھا نہیں جا سکتا۔ اکثر ستارے کسی بائنری یا پھر کئی ستاروں کے سسٹم میں ہوتے یہں۔ اگر بڑے ستاروں میں سیے ایک مر کے بلیک ہول بن جائے اور دوسرا بڑا ستارہ اس کے قریب ایک ٹائٹ مدار میں ہو تو یہ بلیک ہول اس میں سے میٹیریل کو کھینچے گا۔ یہ میٹیریل گرم ہو گا۔ اور ہم یہاں سے اس کو پہچان جائیں گے۔ اس ستارے کی آربیٹل خاصیتوں کو دیکھیں گے۔ کیپلر قوانین کے ذریعے ہم اس پوشیدہ آبجیکٹ کا ماس نکال لیں گے۔ سب سے پہلا ملنے والا بلیک ہول سگنس ایکس ون تھا۔ بائنری ستاروں کا ایک ممبر۔ دو بہت بڑے ستارے ایک دوسرے کے گرد ایک سسٹم میں تھے۔ ان میں سے ایک بلیک ہول بن گیا تھا۔ یہ بلیک ہول اپنے ساتھی ستارے کا میٹیریل چوس رہا تھا۔ یہ میٹیریل بہت تیز چمک دے رہا تھا اور بہت گرم تھا۔ ہم نے اس سے آنے والی غیرمعمولی طور پر روشن ایکسریز کی مدد سے پہچانا کہ معاملہ کیا ہے۔

پچھلے پچاس سالوں میں ہم صرف پچاس بلیک ہول اس طریقے سے پہچان پائے ہیں۔ ان کو ڈھونڈنا بڑا مشکل کام ہے۔ قریب ترین بلیک ہول بھی سینکڑوں نوری سال دور ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہولز کی ایک اور خاصیت کی پیش گوئی کی۔ یہ پراپرٹی ان کا درجہ حرارت ہے۔ یہ کیسے؟ کیونکہ درجہ حرارت کے کیلئے بلیک ہول سے کوئی چیز خارج ہونا ضروری ہے۔ ویکیوم میں پارٹیکل اور اینٹی پارٹٰکل بنتے توٹتے رہتے ہیں۔ ایونٹ ہورائزن کے قریب بھی یہ عمل جاری ہے۔ ان میں یہ امکان رہ جاتا ہے کہ جوڑے کا ایک ممبر بلیک ہول کے اندر رہ جائے گا اور دوسرا باہر کی طرف فرار ہو جائے گا۔ ان سب کو جمع کیا جائے تو بلیک ہول اس طریقے سے اپنا ماس یا انرجی کھو دے گا۔ اس طریقے سے خارج ہونے والی ریڈی ایشن ہاکنگ ریڈی ایشن کہلاتی ہے۔ یہ بہت ہی معمولی سا ٹمپریچر ہے۔ ایک مردہ ستارے سے نکلنے والی ریڈی ایشن کی وجہ سے درجہ حرارت ایک کیلون کا ایک اربواں حصہ ہے۔ آسٹرونومی میں اس کی پیمائش کا کوئی طریقہ نہیں اور غالبا اس کی پیمائش کبھی بھی نہ کی جا سکے۔ البتہ اس کی وجہ سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ کہ بلیک ہول اپنا ماس کھو دیتے ہیں (بہت ہی کم رفتار سے)۔ اس کو بلیک ہول کی تبخیر کہا جاتا ہے۔ ایک ستارے سے بننے والے بلیک ہول کو ختم ہونے میں 10^68 برس لگے گیں۔ یعنی ایک کے بعد 68 صفر لگائے جائیں۔ (اس کی پیمائش بھی کبھی نہیں کی جا سکے گی)۔

بلیک ہول فزکس میں دلچسپ چیز سنگولیریٹی نہیں، انفارمیشن پیراڈوکس ہے۔ اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سالانہ پچاس سے ساٹھ پیپر اس پر لکھے جا رہے ہیں۔ بلیک ہول تمام انفارمیشن کو ہڑپ کر لیتا ہے۔ ایک بلیک ہول، خواہ مردہ ستارے سے بنا ہو یا پھر کائنات کی تمام مخلوقات کی گمشدہ جرابوں سے، یہ بالکل ایک ہی جیسا ہو گا۔ کوانٹم تھیوری کو اس سے بہت شدید مسئلہ ہے۔ انفارمیشن کی کنزوریشن فزکس کا سب سے بنیادی اصول ہے۔  یہ ایک اور جگہ ہے جہاں پر فزکس کی دو بنیادی تھیوریاں، جنرل تھیوری آف ریلیوٹیویٹی اور کوانٹم تھیوری ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہیں کھیلتیں۔

(انفارمیشن پیراڈوکس فزکس کے بڑے مسائل میں سے ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں فزکس کے بالکل بنیادی اصولوں میں سے کسی ایک کو چھوڑنا پڑے۔ لگتا ہے کہ شکست لوکیلیٹی کی ہو گی۔ اس پر تفصیل پھر کبھی)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آسٹرونومر کو  ایک اور طرح کے بہت بہت بڑے بلیک ہول مل گئے۔ سب سے بہترین شواہد ہماری اپنی کہکشاں کے درمیان کے آبجیکٹ کا ہے جو ہم سے چھبیس ہزار نوری سال دور ہے۔ اس کے گرد ستاروں کی گردش کا بیس سال تک اکٹھا کیا ہوا ڈیٹا یہاں پر بہت بڑے جسم کا پتا دیتا ہے جو خود روشنی خارج نہیں کرتا اور اس کا اپنا ماس سورج سے چالیس لاکھ گنا زیادہ ہے اور بہت چھوٹی جگہ گھیرتا ہے۔ چونکہ اس کے گرد آنے والے ہر انفرادی ستارے کے مدار کا مشاہدہ کر کے اس کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ہمارے پاس جس بلیک ہول کی موجودگی کے شواہد سے سے بہترین ہیں، وہ یہ ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں رہ جاتا ہے چالیس لاکھ سولر ماس والا یہ آبجیکٹ ہماری کہکشاں کے عین درمیان میں ہے۔

دوسری طرف اسی اور نوے کی دہائی میں ہبل ٹیلی سکوپ اپنے مشاہدات کر رہی تھی۔ اس سے ڈیٹکٹ ہونے والی ڈوپلر شفٹ بتاتی ہے کہ ستارے اپنی کہکشاں کے مرکز کے قریب زیادہ سٹیلر ولاسٹی رکھتے ہیں جو کہکشاں کے مرکز میں کسی ماس کی موجودگی کا اشارہ تھا۔ جس بھی کہکشاں کو ہبل کے ذریعے بیس سال تک سٹڈی کیا گیا، اس کے مرکز میں بلیک ہول کی موجودگی کے شواہد ملے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بڑے بلیک ہول اتنے خاموش کیوں ہیں؟ کسی کو نگل کیوں نہیں رہے؟ ان کے گرد ایکٹو اکریشن ڈسک کیوں نہیں؟ اس کا جواب یہ لگتا ہے کہ یہ صرف وقت کا ایک فیصد حصہ ایکٹو ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ ان میں آن یا آف کے سوئچ نہیں لگے ہوئے لیکن جب یہ اپنے قریب کے اجسام کو ہڑپ کر لیتے ہیں تو ان کے پاس کچھ اور کھانے کو بچتا نہیں۔ باقی وقت یہ فاقہ زدگی کی حالت میں خاموشی سے ہی گزارتے ہیں۔ ہم ان کے ارتقا کا یا آن آف ہوتے دیکھنے کا مشاہدہ نہیں کر سکتے لیکن الگ الگ بلیک ہولز کو مختلف حالتوں میں دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کہکشاں کے درمیان کا بلیک ہول بڑا ہوتا جاتا ہے۔ جس جس طرح کہکشاں بڑی ہوتی ہے (گیسوں کے ستاروں میں بدلنے سے) ویسے ہی بلیک ہول بھی۔ یہ مشاہدہ کہکشاوٗں اور مرکزی بلیک ہول کے تعلق سے کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سال ہم نے بلیک ہول کا ایک اور مشاہدہ کیا، جو ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ کا پراجیکٹ تھا۔ ریڈیو ٹیلی سکوپس کے ایرے سے، زمین کے سائز کی ایک ٹیلی سکوپ بنا کر ایم 87 کہکشاں کے بیچ میں بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن کی براہِ راست تصویر لی۔ سیاہ ایونٹ ہوائزن اور اس کے گرد چمکدار گیسوں کا ہالہ جس کو گریویٹی گرم کر رہی ہے۔ اس سب کو جنرل ریلیٹویٹی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سورج سے ساڑھے چھ ارب گنا ماس والا بلیک ہول، جس کے ایونٹ ہورائزن کا سائز ہمارے نظامِ شمسی کے مقابلے کا ہے، روشنی کی رفتار سے اسی فیصد پر اس کا ایونٹ ہورائزن گھوم رہا ہے اور جس کے گرد ہالے کی موٹائی ہماری کہکشاں سے زیادہ بڑی ہے۔ (ہم اس سے بھی تین گنا بڑے بلیک ہول سے واقف ہیں)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلکیاتی اجسام نگلتا سپرمیسو بلیک ہول ایک عجیب ہی منظر ہے۔ تیزی سے گھومتے بلیک ہول کے اس عمل کے دوران نکلتے ہوئے پلازمہ جیٹ جو روشنی کی رفار کے قریب سے سفر کر رہے ہوں۔ ریڈیو آسٹرونومی میں چالیس سال کے مسلسل مشاہدے سے حاصل کردہ تصاویر اس کے مناظر دکھاتی ہیں۔ یہ جیٹ لاکھوں نوری سال تک پھیلے ہوتے ہیں۔

بلیک ہول بے شمار ہیں اور کئی بہت بہت بڑے سائز کے۔ کائنات میں پانچ فیصد بیریونک میٹر ہے جبکہ بلیک ہول کائنات کا صرف 0.005 فیصد حصہ ہیں۔ یعنی کائنات کے سکیل پر بالکل ناقابلِ ذکر۔ یہ انتہائی شاندار گریویٹی انجن ہیں۔ جو ماس کو انرجی میں چالیس فیصد ایفی شنسی سے تبدیل کرتے ہیں۔ سورج اور ستارے یہ کام ایک فیصد سے کم ایفی شنسی سے کرتے ہیں (سورج ہمارے کسی بھی توانائی کے ذریعے سے ایک کروڑ گنا بہتر ایفی شنسی سے یہ کام کرتا ہے)۔ ایک فیصد کہکشائیں، جن کے مرکز میں ایکٹو بلیک ہو ہیں، یہ قواسار ہیں جو کائنات کے سب سے روشن اجسام ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لائیگو (تفصیل نیچے لنک میں) نے ہمیں بلیک ہولز کے آپس میں تصادم کی خبر سے آگاہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایک ٹکراوٗ جس نے سپیس ٹائم میں شکن ڈال دی، چہچاتے سگنل کی صورت میں ہمیں موصول ہوا۔ اس میں آٹھ ایسے واقعات کا پتا لگایا جا چکا ہے۔ اس وقت لائیگو اپ گریڈ ہو رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اگلے برس جب یہ واپس کام شروع کر دے گا تو ہم اوسطا ہفتے میں ایک بلیک ہولز یا نیوٹرون سٹارز کے ساتھ ہونے والے ان واقعات کا پتا لگا سکیں گے۔

لائیگو اس بارے میں کچھ محدود ہے کہ اس سے چھوٹے بلیک ہولز کا پتا لگ سکتا ہے، بڑے کا نہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ چھوٹے بلیک ہول جس فریکونسی سے بجتے ہیں، وہ زیادہ ہے۔ بڑے بلیک ہولز سے آنے والی بڑی ویولینتھ زمین پر نصب آلات کے لئے ناقابلِ سماعت ہے۔ اس کے لئے خلا میں انٹرفیرومیٹر بھیجنے کی تجویز ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو سکے تو ہم بلیک ہولز کے بگ بینگ سے اب تک کے ارتقا کی اور بڑھنے کی کہانی مشاہدات کے ذریعے جاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگر لائیگو کامیاب نہ ہوا ہوتا، تو اس قسم کے پراجیکٹ کا تصور کرنا محال تھا۔ اب یورپی یونین اس کو فنڈ کرنے میں سنجیدہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آسٹرونومرز کا خیال ہے کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے ضم ہوتے ہوتے بڑی ہوئیں۔ ہر کہکشاں درمیان میں بلیک ہول رکھتی ہے تو یہ بھی اس دوران ضم ہوتے رہے۔ اب یہاں پر سوال رہ جاتا ہے۔ مرغی اور انڈے والا۔ یعنی کہکشاں پہلے آئی یا چھوٹے بلیک ہول جنہوں نے فلکیاتی اجسام کو ترتیب دینا شروع کی۔  بلیک ہول کہکشاں کے بیج ہیں یا پھر ان کے پھل؟ ہمیں اس کے جواب کا ابھی علم نہیں ہے۔

لائیگو کے بارے میں
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_516.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں