باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 11 اکتوبر، 2019

پیسے کی کہانی



آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں؟ سونا، چاندی، نوٹ، سکے؟ پیسے کو سٹور کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ گدے کے نیچے پڑے نوٹ، سونے کی اینٹ، بینگ اکاوٗنٹ کے اعداد، میوچل فنڈ کی سرمایہ کاری۔۔۔ اس کی تمام شکلیں محض اعداد ہیں۔ اکثر صرف کسی کمپیوٹر کی ڈیٹابیس کے اعداد۔ کسی جگہ پر کریڈٹ کارڈ دیتے ہیں۔ دنیا کے کچھ کمپیوٹر آپس میں بات چیت کرتے ہیں اور آپ کی خریداری مکمل ہو جاتی ہے۔ ہم سونا اکٹھا کرنا چھوڑ کر الگورتھم کے مطابق حرکت کرتے صفر اور ایک کی دنیا تک کیسے پہنچے؟ یہ کہانی ٹیکنالوجی کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پیسے ہمیشہ سے تصوراتی شے رہا ہے۔ کوئی بھی شے، جس کی وقعت پر ہر کوئی اتفاق کر لے۔ اگر ہر کوئی اتفاق کر لے کہ چاندی کے دو ٹکڑے اور ایک بکرا برابر ہیں تو یہ برابر ہو جائیں گے۔ اگر سب اتفاق کر لیں کہ کسی خاص کاغذ کو بہت سا اکٹھا کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ امیر ہو گئے ہیں تو ان کو اکٹھا کر لینے سے آپ امیر ہو جائیں گے۔

مٹی کی تحتیوں سے بٹ کوائن تک پیسے کا سراب صرف سماجی یا سیاسی قوت کا ہی نہیں۔ پیسے کو ٹیکنالوجی نے ممکن کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک عام اور غلط تاثر ہے کہ قدیم دنیا میں بارٹر سے تجارت رائج رہی۔ کئی کتابیں بھی ایسا کہتی ہیں لیکن ایسا کبھی بھی نہیں رہا۔ صرف بہت چھوٹے معاشرے پیسے کے تصور کے بغیر ممکن ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ بالفرض، اگر ایک کسان کے پاس فاضل گندم ہے اور اس کے بدلے اون لینا چاہتا ہے تو یہ طے کرنا کہ کتنی گندم کے بدلے کتنی اون اور کس کوالٹی کی اون ٹھیک سودا ہے۔ یا اگر کسان حجامت کروانا چاہتا ہے اور نائی کو اون کی ضرورت نہیں تو یہ لین دین نہیں ہو سکے گا۔ معاشرت میں ہر جگہ پر گفٹ اکانومی سے اگلا قدم پیسے کے ذریعے تجارت کا رہا ہے۔

یہاں پر ٹیکنالوجی کام آتی ہے۔ کوئی بھی ایسی ٹیکنالوجی جو یہ ریکارڈ رکھ سکے کہ کیا لیا گیا اور کیا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لکھائی کی ابتدائی شکل ہر جگہ پر اکاونٹننگ کی تھی۔ جہاں پر بھی ہمیں ابتدائی تحریریں نظر آئی ہیں، ان میں قصے، شعر، فتوحات، محبتوں کے ریکارڈ نہیں، گندم اور گائے کی رسیدیں ہیں۔

جس طرح ہر چیز کی پیمائش کا کوئی معیار ہے۔ میٹر، گھنٹہ، ڈگری، کلوگرام کی طرح اس لین دین کو سٹینڈرڈ بھی کسی یونٹ کے ذریعے بنایا جانا تھا۔ اس کی ابتدائی صورتیں کوڑی کے خول یا غلے کی مٹھی تھے۔ حساب کتاب کو اس طرح یونٹ میں تبدیل کرنا پیسے کا سب سے بنیادی فنکشن ہے۔ اس کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کو بچایا جا سکتا ہے تا کہ مستقبل میں کام آ سکے۔ جب بعد میں ضرورت پڑے تو پیسہ تبادلے کا آسان ذریعہ بن جاتا ہے۔ خوراک اور بنیادی ضروریات کی تلاش روز بقا کی جنگ نہیں رہتی۔ پچھلے مہینے کی اگائی گئی گندم کے اس ذخیرہ کی گئی ویلیو میں بدل جانے کا مطلب یہ ہے کہ وقت پڑنے پر اس کو استعمال کر کے کچھ اور بھی خرید سکتا ہوں اور ہاں، حجامت بھی بنوا سکتا ہوں جس کا معاوضہ ادا کرنے کیلئے مجھے کسی گندم کی ضرورت والے نائی کو تلاش نہیں کرنا۔

جو میرے پاس ہے اور جو مجھے چاہیے، ان کا تبادلہ بغیر مشکل کے ہو جاتا ہے۔ کھاتوں میں چند اعداد بدلے گئے۔ اگر ہر کسی کا حساب کتاب پر بھروسہ ہے تو ان اعداد کی تصوراتی ویلیو کی بنا پر ہم سب اپنی ضرورتوں کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں۔

یہ پیسہ ہے۔ پیسہ صرف ویلیو کے ذخیرے کا حساب کتاب ہے اور اس پر اتفاق کہ اس کا تبادلہ کیسے کیا جائے گا۔ اور لکھائی کی ایجاد بھی اسی وجہ سے ہوئی تھی۔ اگر آپ اکاوٗننٹ ہیں تو یہ کریڈٹ لے سکتے ہیں کہ یہ آپ کا شعبہ تھا، جس کی وجہ سے دنیا کی سب سے اہم ٹیکنالوجی کی ایجاد ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیسے کی ابتدائی شکل کموڈوٹی کرنسی تھی۔ فزیکل اشیاء جو مفید ہوں، جیسا کہ چاول یا پھر خوبصورت ہوں، جیسا کہ سونا۔ ان میں ویلیو کا ذخیرہ خود ان آبجیکٹس کے اپنے اندر ہوتا تھا اور ان اشیاء کو ایکسچینج کیا جاتا تھا۔ کموڈوٹی کرنسی کے ساتھ مسئلہ یہ کہ اس کو بنانا پڑتا ہے۔ یہ پروڈکشن کی ٹیکنالوجی سے ممکن ہوا۔ مثال کے طور پر، دھات کو پگھلانا جس سے سکے بنائے جا سکیں۔ اس سے پھر ٹیکنالوجی کے ایک اور مسئلے نے جنم لیا۔ یہ بھروسے کا مسئلہ تھا۔ اگر آپ کا تجارتی پارٹنر آپ کو سکے دے رہا ہے تو یہ کیا ضمانت ہے کہ یہ اصل ہیں؟ یہ چمکدار تو لگ رہے ہیں لیکن کہیں اس میں کسی سستی دھات کا اضافہ تو نہیں کر لیا گیا؟ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایجادات ہوئی۔ ٹچ سٹون ایجاد ہوئے۔ پتھر جس پر رگڑ کر پتا لگایا جا سکے کہ سونا اصل ہے یا نہیں۔ نخالص سکے ایک مختلف نشان چھوڑتے تھے۔

اس سے بہتر حل ٹکسال کے سکوں سے نکالا گیا۔ حکومت کسی سکے کے ٹھیک ہونے کی گارنٹی دھات کے ٹکڑے پر اپنی مہر لگا کر دیتی تھی۔ اسی طرف ایک اور حل اس کے کناروں کے ڈئزاین کی صورت میں نکلا۔ ان کے دندانے دار کنارے، جو ابھی بھی سکوں میں نظر آتے ہیں، کسی کو سکے کے کنارے سے تھوڑی سے دھات الگ کر دینے سے روکتے تھے۔ ٹیکنالوجی کے اس حل نے قابلِ اعتبار تجارت کو ممکن بنایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کموڈوٹی کرنسی کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ زیادہ کرنسی کو سنبھالنا مشکل ہے۔ اِدھر اُدھر لے کر جانا مشکل ہے۔ حفاظت مشکل ہے۔ یہاں پر ایک اور حل دریافت ہوا۔ لوگوں نے قیمتی دھات کی صورت میں ذخیرہ کیا گیا پیسہ اپنے پاس رکھنے کے بجائے کمیونیٹی بلڈنگز میں رکھوانا شروع کر دیا۔ یہ جگہیں عبادت گاہیں اور پھر بینک تھے۔ ان کے عوض لوگوں کو رسید دے دی جاتی تھی۔ کاغذ پر لکھے گئے اس نوٹ کے بدلے یہ بعد میں اس پیسے کو نکال سکتے تھے۔ کاغذ پر لکھی ان رسیدوں کی اپنی کوئی ویلیو نہیں تھی۔ یہ ابتدائی ریپریزنٹیٹو یعنی نمائندہ کرنسی تھی۔ ان کاغذوں کے ذریعے نہ صرف اس سے اپنا مال نکالا جاتا تھا بلکہ ایک دوسرے سے لین دین بھی کیا جاتا تھا۔

بارہویں صدی کے چین میں کچھ حکومتوں نے فیصلہ کیا یہ وہ بس ایک فرمان جاری کر دیں کہ کاغذ کے کچھ ٹکڑے ہیں جن کی کوئی ویلیو ہے۔ یہ خود چمکدار یا قیمتی آبجیکٹ نہیں اور اس کے پیچھے بھی کوئی ویلیو نہیں۔ ان سے آپ سونا یا کوئی شے واپس نہیں لے سکتے لیکن نہ ہی آپ کا ہمسایہ اور نہ ہی کوئی بھی اور۔ ہر کوئی یہ یقین کر لے کہ یہ کاغذ ہی ویلیو کا سٹور ہیں تو یہ بن جائیں گے۔ یہ پہلی فئیٹ کرنسی تھی۔ اور دنیا میں اب ہر ملک میں یہی رائج ہے۔ روپیہ ہو یا ڈالر، آپ کسی بھی کرنسی کے عوض کسی شے کا مطالبہ اس کو جاری کرنے والے سے نہیں کر سکتے۔ البتہ، ہر کوئی ان کی ویلیو پر یقین رکھتا ہے تو کاروبارِ زندگی چلتا رہتا ہے۔

مٹی کی بھاری تحتیوں کی یا دھات کے بھاری سکوں کی نسبت ان کو اٹھانا بھی آسان تھا۔ یہ جلد مقبول ہو گیا لیکن یہ بھی بس ایسے ہی نہیں ہو گیا۔ اس ترقی کی وجہ لکھائی، چھپائی اور کاغذ بنانے کی ٹیکنالوجی تھی۔ ہر دور کی طرح پیسے کی شکل کی بڑی وجہ اس دور میں ٹیکنالوجی کی دستیابی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیسویں صدی میں ٹیکنالوجی میں ڈرامائی تبدیلیاں آنے لگیں۔ انہوں نے پیسے کو بھی ڈرامائی طریقے سے بدل دیا۔ اس کی ابتدا ٹیلی گراف سے ہوئی۔ 1872 میں ویسٹرن یونین نے ایک سسٹم متعارف کروایا۔ صارفین اپنے پیسے کسی دوسرے کو تار کے ذریعے بھیج سکتے تھے۔ ایک آفس میں پیسے دئے جا سکتے تھے۔ وہ آفس ایک خاص کوڈ کا پیغام ضلعی کلئیرنگ ہاوٗس کو بھجواتا۔ وہ اس کی تصدیق کر لیتا کہ پیسے جمع کروائے جا چکے ہیں۔ یہ ایک دوسرا خاص کوڈ والا پیغام وصول کرنے والے آفس کو بھیجتا کہ یہ پیسے لینے والے کے حوالے کئے جا سکتے ہیں۔

پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ پیسے کی ترسیل کی رفتار انسانوں کے سفر کی رفتار سے زیادہ ہو گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیسویں صدی میں دور دراز رابطوں کی تیزرفتار ٹیکنالوجی نے اس کی ایک اور شکل ممکن کر دی۔ پلاسٹک کا ایک کارڈ۔ کریڈٹ کارڈ 1950 کی دہائی میں ایجاد ہوا۔ شروع کے کریڈٹ کارڈ ٹیلی فون کی مدد سے ویری فائی کئے جاتے تھے۔ آپ نے کہیں سے خریداری کی اور کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرنے لگے تو مرچنٹ ایک فون نمبر ملاتا تھا۔ اس پر کریڈٹ کارڈ چیک ہوتا تھا کہ اس میں اتنی رقم موجود ہے یا نہیں۔ دوسری طرف کاغذی ریکارڈ چیک کر کے جواب دیا جاتا تھا۔

کمپیوٹر کا دور آ رہا تھا۔ یہ کھاتے مشینوں میں داخل کئے جا سکتے تھے۔ اگلی پیشرفت یہ تھی کہ جب کوئی کال کرتا تو بینک کا کمپیوٹر کھاتے کو دیکھ کر ادائیگی کی منظوری کا فیصلہ کر دیتا۔ اس کے بعد کارڈ پر مقناطیسی پٹی کا اضافہ ہوا۔ مرچنٹ کی مشین پر پھیری جاتی تو یہ مشین اس کارڈ کو پڑھ لیتی۔ کریڈٹ کارڈ کی کمپنی کو کال کر دیتی۔ اس پراسس کے درمیان انسانی مداخلت کم ہوتی گئی۔ کم انسان، کم غلطیاں، تیزرفتار پراسس۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیسہ صرف لین دین کا ہی نہیں، ویلیو ذخیرہ کرنے کا طریقہ بھی ہے۔ بینکوں یہ کام کاغذی رجسٹروں سے کمپیوٹروں پر منتقل کرنے لگے۔ اس ریکارڈ نے میگنیکٹک ڈِسک اور ٹیپ ڈرائیو کا رخ کیا۔ 1970 کی دہائی کے بعد سے اب تک کمپیوٹرائزڈ فائننشل ریکارڈ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پچھلے برس ادائیگی کے نیٹ ورکس کے ذریعے ہونے والی ٹرانسیکشنز کی تعداد پونے چار کھرب تھی۔ یہ ڈیجیٹل نیٹ ورک بہت طاقتور کمپیوٹرز کے ذریعے یہ کام کرتے ہیں۔ نہ صرف اس میں غلطی کی گنجائش نہیں بلکہ جواب میں دیر بھی نہیں کی جا سکتی۔ ذہین الگوروتھم اس میں فراڈ پکڑنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ سپر فاسٹ کمپیوٹنگ کی ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا استعمال یہاں پر ہے۔ تیز رفتار اِن پُٹ اور آوٗٹ پٹ، تیز رفتار اور بہت زیادہ سٹوریج۔ توڑی نہ جا سکنے والی سیکورٹی، پائیداری، نظام میں تعطل کا نہ ہونا۔ یہ اس نظام کو چلانے کی ضرورت ہے۔

غلطیاں پکڑنے کیلئے سپیشل میموری چپ ہیں جو ایرر کوریکشن کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی رینڈم کاسمک شعاع بھی کسی چپ پر کسی صفر کو غلطی سے ایک میں بدل دے جس کی وجہ سے کوئی عدد بدل جائے تو یہ غلطی ان سے بچ نہیں پائے گی۔

اس کے ساتھ مشین لرننگ کے الگورتھم صرف چند ملی سیکنڈ میں میری خریداری کا موازنہ میری عام خریداری کے پیٹرن اور لاکھوں دوسرے لوگوں سے کرتے ہیں کہ خریداری میں ہی کر رہا ہوں یا پھر نائیجیریا کا کوئی شہزادہ۔ یہ ٹیکنالوجی اس قدر نفاست سے کام کرتی ہے کہ ہم اس بارے میں سوچتے بھی نہیں کہ پیچھے کیا کچھ ہو رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی پیسے کا ایک اور نیا شکل کرپٹوکرنسی ہے۔ یہ پیسے بجائے کسی ایک جگہ پر سٹور ہونے کے، اس میں دنیا میں جگہ جگہ پر سٹور ہوتے ہیں۔ پیسے کو کسی ایک ادارے کی تصوراتی حقیقت کے بجائے آپس کے تعاون سے بنائے نیٹ ورک کی تصوراتی حقیقت بنا دیا جاتا ہے۔ بغیر کسی مڈل مین کے، پیسے کی اس شکل کے کچھ صورتوں میں اپنے فوائد ہیں۔ لیکن یہ پیسے کے تمام بنیادی فنکشن یعنی اس کے تصوراتی اعداد کو سٹور کرنے اور  تبادلہ کرنے کو اکاوٗنٹنگ کے جادو کے ذریعے انجام دیتی ہے۔ 

ٹیکنالوجی پر اس انحصار کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ کوئی اس سسٹم کے کسی کمزور حصے پر نقب لگا کر اس تصوراتی اعداد کو اصل نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ چوریاں دوسرے ملکوں سے بیٹھ کر کی جا سکتی ہیں۔ کسی سٹور سے لوگوں کے کریڈٹ کارڈ نمبرز کے خزانے ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے سرکاری خزانے سے بڑی چوری اس طرح کی گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیسہ کس شکل میں کب رہا ہے؟ اس کی وجہ ٹیکنالوجی ہے۔   ٹیکنالوجی اور ایجادات، نہ کہ سائیکلولوجی اور اکنامک تھیوریاں ہیں، جس کی وجہ سے اس کا استعمال تیز تر، آسان تر اور زیادہ قابلِ اعتماد طریقے سے ممکن ہو رہا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ اعداد و شمار ہمیشہ سے صرف ایک سراب ہی رہے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں