افغان جنگ میں سوویت ایلیٹ فورس کی آمد اور اٹیک ہیلی کاپٹرز کے آ جانے سے جنگ کا پانسہ بدل گیا تھا۔ مجاہدین کے پاس ان کا توڑ نہیں تھا۔ سوویت فوج کو کامیابی مل رہی تھیں۔ 26 ستمبر 1986 کو جلال آباد ائیرپورٹ کے قریب انجینیر غفار اور ان کے دو ساتھیوں نے ایک نیا ہتھیار اپنے کاندھے پر اٹھایا۔ بیٹیری کی پاور سے چلنے والا اور حرارت کا پیچھا کرنے والے جدید ترین سسٹم سے لیس یہ ہتھیار سی آئی اے نے باغیوں کو مہیا کیا تھا۔ یہ سٹنگر میزائل تھا۔ غفار کو راولپنڈی میں اس کو چلانے کی تربیت دی گئی تھی۔
جلال آباد ائیرپورٹ کی رن وے پر آٹھ ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے لگے تھے۔ غفار نے نشانہ لے کر سیاہ بٹن کھینچ دیا۔ پہلا حملہ چوک گیا۔ میزائل کئی سو گز دور پتھروں سے جا ٹکرایا۔ دوسرے میزائل نے ہیلی کاپٹر کا تعاقب کیا۔ سوویت پائلٹ کے پاس دفاع کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ ہیلی کاپٹر آگ کا گولہ بن گیا۔ مزید میزائل نکلے۔ دو ہیلی کاپٹر اور گر گئے۔ ان پر سوار روسی عملہ مارا گیا۔
اگلے روز یہ خبر اسلام آباد میں پہنچی۔ اتفاق سے امریکی جاسوس سیٹلائیٹ اسی جگہ کے اوپر تھا اس نے ائیرپورٹ کے پاس پڑے تین ہیلی کاپٹروں کے ملبے کی تصویر بھی کھینچ لی تھی۔ اس کو دیکھ کر پیغام امریکہ سے اسلام آباد پہنچا، “سیٹلائیٹ تصاویر نے جلال آباد میں تینوں کے مار گرائے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ سب کو اس زبردست کامیابی پر ڈھیروں مبارک باد”۔
غفار کی ٹیم کو سونی ویڈیو کیمرہ بھی دیا گیا تھا۔ ٹیم نے یہ ویڈیو بھی تیار کی تھی۔ پہلا نشانہ لگنے پر اللہ اکبر کے نعرے تھے، تیسرے پر سماں ایسا تھا جیسے بچے فٹبال میں گول کر کے خوش ہو رہے ہوں اور پھر آخری منظر غفار کا گرنے والے فوجیوں کی جلی ہوئی لاشوں کے اندر کلاشنکوف کے راوٗنڈ خالی کرنے کا تھے۔ چھ منٹ کی یہ ویڈیو امریکی صدر کو دکھائی گئی۔
کامیابی کے سٹنگر میزایل دھڑا دھڑ پہنچنا شروع ہو گئے۔ سوویت ہیلی کاپٹر اب نچلی پرواز نہیں کر سکتے تھے اور غیرموثر ہو گئے۔ توازن پھر بدل گیا۔
اس سال سوویت افغان جنگ کے لئے امریکی بجٹ 470 ملین ڈالر تھا جو 1987 میں بڑھ کر 630 ملین ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ اتنا ہی سعودی بجٹ اس کے علاوہ تھا۔ افغان جہاد پیسوں کے سمندر میں تیر رہا تھا۔ مقامی کمانڈر کا ماہانہ مشاہرہ بیس سے پچیس ہزار ڈالر ماہانہ، صوبائی کمانڈر کا پچاس ہزار ڈالر ماہانہ اور بڑے کمانڈرز کا ایک سے دو لاکھ ڈالر ماہانہ کے درمیان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینٹی سوویت افغان جہاد اختتام پذیر ہونے کو تھا۔ نہ پاکستان کو اس کا پتا تھا، نہ افغان مجاہدین کو، نہ امریکہ کو۔ اس خاتمے کا آغاز 13 نومبر 1986 کو ہوا تھا۔ کریملن میں ایک چھوٹے گروپ کی ملاقات ہوئی تھی۔ سوویت سربراہ میخائل گورباچوف، جو بیس ماہ صدر بنے تھے، یہ میٹنگ انہوں نے بلائی تھی۔ ان کا سوال سوویت فوج کے سربراہ سے تھا کہ “صورتحال کیا ہے؟” سرجئی آخرومیوف نے جواب دیا تھا کہ “ہم پچاس ہزار فوجیوں کی مدد سے پاک افغان سرحد بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہتھیاروں کی سمگلنگ نہیں روک پا رہے”۔ گورباچوف نے پوچھا، “پلان کیا ہے؟ جنگ کیسے ختم کرنی ہے؟” انہوں نے اپنے آرمی چیف کو اگلے ایک سے دو سال تک جنگ لپیٹ دینے کا کہہ دیا۔ 15 دسمبر کو نجیب اللہ کی گورباچوف سے ملاقات ہوئی۔ انہیں بتا دیا گیا کہ سوویت فوجوں کے نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔ اپنی سیاسی پوزیشن خود مضبوط کر لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران جب موسمِ سرما کی برف پگھلی۔ تین ٹیمیں سرحد پار کر کے سوویت یونین میں داخل ہوئیں۔ پہلی ٹیم نے ترمذ کے قریب ازبکستان میں راکٹوں سے حملہ کیا۔ دوسری ٹیم، جس میں بیس لوگ شامل تھے، اس کو گھات لگا کر شکار کرنے کی ہدایات تھیں، ان کے پاس راکٹ گرینینڈ اور ٹینک تباہ کرنے والی باردوی سرنگیں تھیں۔ انہوں نے کئی سوویت گاڑیاں تباہ کیں۔ تیسری ٹیم نے تیس بموں اور راکٹوں کے ساتھ سوویت سرحد کے دس میل اندر ایک فیکٹری کو اڑا دیا۔
سوویت یونین جب اپنے ملک میں لاشیں گن رہا تھا تو ایک فون ماسکو سے واشنگٹن کیا گیا، دوسرا اسلام آباد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں سی آئی اے 1947 میں قائم ہوئی تھی۔ اس وقت جرمنی سے سبق واضح تھا۔ جرمن خفیہ ایجنسی گسٹاپو کو دئے جانے والے اختیارات پر چیک نہ ہونے کے سبب نکلنے والے نتائج بھیانک تھے۔ سی آئی اے بناتے وقت اس کے کام کرنے قوانین اور ضوابط طے کئے گئے تھے۔ یہ عوامی نمائندگان کو جوابدہ تھی۔ لاطینی امریکہ میں اس کے ایڈونچرز کے بعد اس پر قانون کی ہتھکڑیاں سخت کر دی گئی تھیں۔ اس نے ایران کونٹرا کے معاملے میں اپنی حدود سے تجاوز کیا تھا۔ ایجنسی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جا رہا تھا۔ لوگوں کے کیرئیر ختم ہو رہے تھے۔ ایجنسی پر کانگریس کی لگامیں سخت ہو رہی تھیں۔ سی آئی اے کے پاس سوویت یونین میں گھس کر حملہ کرنے یا اس طرح کی کارروائی کی سپورٹ کا مینڈیٹ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد سٹیشن کے چیف کو امریکہ سے کال آئی۔ “جو سوال کیا جا رہا ہے، اس کا جواب سوچ سمجھ کر دینا اور سچ دینا۔ ازبک علاقے میں جو ہوا ہے، اس میں تمہارا کیا کردار ہے؟”
بئیرڈن کو ابھی تک اس حملے کا علم بھی نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کر کے کال بند کر دی۔ البتہ انہیں یہ پتہ تھا کہ یہ کس کا کام ہے۔ انہوں نے براہِ راست اس بریگیڈئیر کو فون کیا جو اس سے پہلے اس پلان کا ذکر کر چکے تھے۔ “رک جاوٗ۔ تیسری جنگِ عظیم شروع نہ کروا دینا”۔
ماسکو سے اسلام آباد کئے گئے فون میں پیغام بہت واضح تھی۔ یہ پاکستان کے اوپر براہِ راست حملہ کرنے کی دھمکی تھی۔ پاکستانی صدر نے خفیہ ایجنسی کے افغان بیورو سے رابطہ کیا کہ اپنی ٹیمیں واپس بلا لیں۔ انہیں بتایا گیا کہ کمانڈوز کے پاس ریڈیو نہیں ہیں۔ البتہ ان سے رابطے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مزید حملے رک گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوویت پولٹ بیورو کی میٹنگ میں وزیرِ خارجہ ایڈورڈ شیورناڈزے نے کہا کہ ہمیں امریکہ کو اعتماد میں لینا ہے تا کہ نکلنے کا پروگرام ٹھیک طرح سے طے کیا جا سکے۔ ستمبر 1987 کو واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات میں شیورناڈزے نے امریکی سٹیٹ سیکرٹری شلٹز کو بغیر لگی لپٹی رکھی صاف الفاظ میں کہا، “ہم افغانستان چھوڑ رہے ہیں۔ پانچ ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال۔ اس سے زیادہ نہیں۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ یہ فیصلہ لے لیا گیا ہے۔ ہمیں اس کے بعد کا اکٹھے سوچنا ہے”۔
شلٹز اس قدر حیران تھے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیسے دوسروں کو بتائیں۔ دوسرے کیسے اس پر یقین کریں گے۔ کئی ہفتوں تک انہوں نے بات اپنے تک ہی رکھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورباچوف اس امید میں تھے کہ سوویت انخلا کے ساتھ وہ امریکہ کو باغی گروہوں کی عسکری حمایت سے ہاتھ کھینچنے پر رضامند کر سکیں گے۔ پہلے صدر ریگن اور پھر نائب صدر جارج بش سے بات کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ جارج بش نے یقین دلایا کہ “ہم اپنی مرضی کی حکومت زبردستی نہیں بنوائیں گے۔ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے”۔
اصل معاملہ یہ تھا کہ اصل میں کسی کی بھی کوئی پالیسی نہیں تھی۔ کسی نے یہ سوچا نہیں تھا کہ کسی روز جنگ ختم ہو جائے گی۔ سی آئی اے نے جنگ کے بعد کے حالات کا جو اندازہ بار بار لگایا تھا، وہ یہ ایک بہت بڑی بدنظمی اور بے ترتیبی کی حالت تھی جس میں کوئی بھی فساد کو نہیں روک پائے گا۔
امریکی انتظامیہ میں ابھی تک سب کو سوویت یونین کا یہ پیغام ہضم نہیں ہوا تھا۔ کسی کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں تھا کہ سوویت یونین ناکام ہو چکا ہے۔ افغانستان میں نہیں، ایک اکائی کے طور پر۔ چند دہائیاں پہلے شروع ہونے والا یہ سیاسی تجربہ خاتمے کے قریب ہے۔ خبر اس سے کہیں زیادہ بڑی تھی۔ صرف افغان جنگ نہیں، سرد جنگ کا اختتام قریب تھا۔
نئے سال کی دعوت میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے شرط لگائی کہ یہ گورباچوف کی چال ہے۔ وہ امریکہ سے مدد ختم کروا کر پریشر ہٹوانا چاہتے ہیں۔ یہ سیاسی دھوکا ہے۔ انہوں نے آرماکوسٹ سے پچیس ڈالر کی شرط لگائی کہ روسی فوج ریگن کے دورِ اقتدار کے اختتام تک بھی افغانستان میں ہو گی۔ چند ہی مہینے بعد انہیں پچیس ڈالر ادا کرنے پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سلسلے کے دوسرے مضامین
دہشت کا تھیٹر
https://waharaposts.blogspot.com/2019/11/blog-post_15.html
ملاقات
https://waharaposts.blogspot.com/2019/11/blog-post_10.html
تالاب میں پتھر
https://waharaposts.blogspot.com/2019/11/blog-post_11.html
پنج شیر کے پانچ سال
https://waharaposts.blogspot.com/2019/11/blog-post_13.html
ہانڈی کی آنچ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/11/blog-post_14.html
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں