باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 24 نومبر، 2019

شاہ فیصل کے فرزند اور مزارِ شریف پر قبضہ (قسط نمبر پندرہ)

شہزادہ فیصل نے اپنے بیٹے ترکی الفیصل کو پڑھنے کیلئے امریکہ بھیجا تھا۔ وہ واشنگٹن میں جارج ٹاوٴن یونیوسٹی میں تھے جب کسی نے آ کر اطلاع دی کہ ان کے والد سعودی عرب کے بادشاہ بن گئے ہیں۔ کچھ برس بعد جب وہ واپس سعودی عرب پہنچے تو پہلے حکومتی وزارت میں کام ملا اور پھر سعودی خفیہ ایجنسی  ریاست الاستخبارات العامہ (جی آئی ڈی) کے ڈائرکٹر بنا دئے گئے۔ اس وقت تک ان کے والد ان کے اپنے بھتجیے کے ہاتھوں قتل کئے جا چکے تھے۔ ترکی الفیصل سعودی خفیہ ایجنسی کے 23 برس تک سربراہ رہے۔ اپنی نرم مزاج طبیعت، انگریزی زبان پر عبور، تاریخ کے شیدائی ہونے، مغرب اور عرب دونوں کو اچھی طرح سمجھنے سے اس خطے کی تاریخ بنانے میں ایک بہت اہم کردار رہے ہیں۔ جدہ سے تعلق رکھنے والے دو بھائی سعید بادیب اور احمد بادیب، جنہوں نے اپنی پی ایچ ڈی اسی یونیورسٹی سے کی تھی، سعودی ایجنسی میں ان کے خاص ساتھی تھے۔ پاکستان اور افغانستان سے متعلق پالسیی، فنڈز اور سعودی عرب کی پالیس عملاً ان کے ہاتھ میں تھی۔ (ساتھ لگی تصویر ترکی الفیصل کی ہے)۔



اس یونیورسٹی میں ترکی الفیصل کا ایک ہم جماعت آرکنساس سے آیا ہوا باتونی لڑکا تھا، جس کا نام بل کلنٹن تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب بل کلنٹن نے صدارتی مہم شروع کی تو اپنے پرانے تمام پرانے ہم جماعتوں سے رابطہ کیا۔ ان میں ترکی الفیصل بھی تھے۔ بل کلنٹن امریکہ میں ایک چھوٹی ریاست کے گورنر رہے تھے۔ واشنگٹن کی سیاست اور قومی سلامتی کے اداروں سے خاص واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ قومی سلامتی کے اداروں سے ان کے تعلقات بھی بہت گرمجوشی والے نہ تھے۔ صدر منتخب ہو جانے کے بعد انہوں نے اپنے پرانے ہم جماعتوں کو ایک ملاقات کے لئے بلایا۔ ترکی اپنے ساتھ بندر بن سلطان کو لے کر گئے۔ اس میں کلنٹن اس خطے کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ یہ پوچھ رہے تھے کہ ان کی پالیسی ازبکستان وغیرہ میں کیا ہونی چاہیے۔ ملاقات کے بعد بندر اور ترکی باہر نکلے تو سر کھجا رہے تھے۔ ترکی نے بندر کو کہا کہ جو وہ امریکی صدر سے دریافت کرنا چاہتے تھے، وہ تو ان سے وہی باتیں پوچھ رہے تھے۔

حقیقت یہ تھی کہ ایک چند ہی برسوں میں یہ خطہ اور خاص طور پر افغانستان امریکی یاد سے ایسے محو ہوا تھا کہ کسی کے ذہن میں بھی نہ تھا۔ امریکہ کا سفارت خانہ بند ہو چکا تھا۔ یہاں پر سے ہر طرح کی فنڈنگ بند ہو گئی تھی۔ انسانی ہمدردی کے تحت ہونے والی فنڈنگ بھی افریقہ کو منتقل ہو گئی تھی کیونکہ عام خیال یہی تھا کہ یہاں بھیجی جانے والی  امداد بھی جنگجو گروہوں کے کام آئے گی۔ امریکی خفیہ ایجنسی یہاں سے نکل چکی تھی۔ سرد جنگ بند ہو جانے کے بعد اس کے بجٹ میں بڑی تخفیف ہوئی تھی۔ جارج ڈیوش کو یہ مشن دے کر ایجنسی کا سربراہ بنایا گیا تھا کہ وہ اس کی صفائی کریں اور خرچ کم کریں۔

سیاسی انتخابی مہم میں ایک بار بھی اس خطے کا ذکر نہیں ہوا تھا۔ اس سے پچھلے سال ایک بریفنگ میں جب کسی نے افغانستان میں ہونے والی جھڑپ کا جارج بش سینئیر کو بتایا تھا تو ان کا ری ایکشن تھا، “افغانستان؟ وہاں جنگ ابھی تک چل رہی ہے؟ یہ ختم نہیں ہو گئی تھی؟”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان کے بارے میں امریکہ کی معلومات اسلام آباد سٹیشن سے ملنے والی انفارمیشن تک محدود تھی۔ جب طالبان افغانستان میں آئے امریکہ کو معلوم نہیں تھا کہ اس پر ردِ عمل کیا دینا ہے۔ یہ ملا جلا رہا تھا۔ طالبان کی امریکی سفیر سے پہلی ملاقات 8 نومبر کو ہوئی۔ طالبان کے وزیرِ خارجہ ملا غوث اور ٹام سائمنز کے درمیان ملاقات میں کہا، “امریکی مغربی دنیا میں سب سے مذہبی قوم ہے۔ ان کے دل میں اسلام کے لئے بے حد احترام ہے۔ امریکہ میں یہودیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ امریکہ میں ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ یہ بہت مشکل ہے کہ ہم خدا کی مرضی سمجھنے کا دعویٰ کریں اور کہیں کہ اس کو صرف میں نے ہی سمجھا ہے اور اپنی بات کو خدا کی بات کہہ کر دوسروں پر مسلط کریں اور اگر اس کو بزورِ طاقت کیا جائے تو یہ خطرناک ہو جاتا ہے”۔ غوث نے امریکی سفیر کی بات سنی اور کہا کہ طالبان امن چاہتے ہیں لیکن کبھی دشمنوں سے سمجھوتا نہیں کریں گے۔ نہ مسعود سے، نہ اس کے اتحادیوں سے اور نہ ہی کسی اور سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکہ کی افغانستان میں واپسی میر ایمل کاسی کی تلاش میں ہوئی تھی اور یہ چند ٹیمیں تھیں۔ اگرچہ بجٹ زیادہ نہیں تھا لیکن افغانستان میں اب توجہ دہشت گردی کے حوالے سے شروع ہوئی تھی۔ القاعدہ پہلی بار 1996 میں ریڈار پر آئی تھی۔ امریکہ کا دوسرا پروگرام افغانستان سے سٹنگر میزائل واپس حاصل کرنا تھا۔ اس کو خریدنے کی مارکیٹ میں ایران بھی تھا۔ خدشہ تھا کہ ان کی مدد سے مسافر طیارے کو مار گرایا جا سکتا ہے۔ مکمل میزائل کی قیمت ستر ہزار ڈالر سے بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ان سے بھی سٹنگر خریدنے کی بات چیت چھیڑی گئی۔ ان کو انفارمیشن ملی تھی کہ ملا عمر کے پاس 53 سٹنگر میزائل ہیں، جو مختلف پشتون کمانڈروں سے حاصل کئے گئے ہیں۔ گیری شروئن فروری 1997 میں قندھار اس سلسلے میں ملے طالبان کے پاس گئے۔ اس ملاقات کو پاکستان نے ارینج کروایا تھا۔ طالبان کو پانچ سے آٹھ ملین ڈالر مل سکتے تھے۔ رات گیسٹ ہاوٗس میں ٹھہرے۔ ملا عمر نے ملنے سے انکار کر دیا کہ یہ غیرمسلم تھے۔ ان کی ملاقات ملا وکیل احمد سے ہوئی، ان کے ساتھ قندھار محمد حسن تھے جو کوئٹہ کے ایک مدرسے سے پڑھے تھے اور سوویت جہاد میں حصہ لیا تھا۔ شروئن نے ان دونوں سے ملاقات ایک مترجم کے ساتھ کی۔ اس میں سٹنگر پروگرام کا بتایا اور یہ کہ اس کا مقصد ان میزائلوں کو ایران کی پہنچ سے دور رکھنا ہے۔

حسن اور ملا وکیل نے کہا کہ وہ ان کو بیچنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ ان کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بار احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد سے نپٹ لیں، پھر ہم ان کی مدد سے ایران کے ہیلی کاپٹر اور جیٹ گرائیں گے۔ انہیں اس بات کی پوری امید ہے کہ ایران سے ان کی جنگ جلد ہی چھڑ جائے گی اور اس معاملے میں وہ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

شروئن خالی ہاتھ اسلام آباد چلے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسامه بن لادن اپنا آپریشن قندھار کی طرف شفٹ کر رہے تھے۔ ان کو اپنے لئے ایک محفوظ بیس مل گئی تھی۔ قندھار سے انہوں نے فلسطینی صحافی عبدلباری کو انٹرویو دیا۔ اس میں ریاض اور داہران پر دہشت گرد حملوں کی تعریف کی۔ مزید کا عہد کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو سبق سکھانے کا دعویٰ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے میڈیا کے ذریعے اپنا عالمی امیج بنانا شروع کیا تھا۔ سی این این سمیت کئی اداروں کو انٹرویو دئے۔ اپنی ویڈیوز بنوائیں۔ القاعدہ کا ٹریننگ کیمپ ٹارنک فارم جو لمبے عرصے تک توجہ کا مرکز رہا، کمیونسٹ دور میں قندھار کے قریب بنائے گئے اشتراکی فارم پر بنایا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احمد شاہ مسعود ان اور ان کی شکست خوردہ فوج کابل سے پنج شیر کی طرف جا چکی تھی۔ مسعود کو پتا تھا کہ انتہاپسند ملیشیا کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے جا سکتے۔ یہ موت ہو گی۔ ان کی اپنی بھی اور اس علاقے کی بھی۔ کابل میں حکومت کے دوران وہ تنہا رہ چکے تھے۔ انہیں اگر مقابلہ کرنا تھا تو دنیا سے مدد درکار تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ مدد پاکستان یا سعودی عرب سے نہیں مل سکتی۔ مغربی ممالک سے بھی انہیں خاص امید نہیں تھی۔ روس، تاجکستان اور ازبکستان طالبان کو خطرہ سمجھتے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ لہر ان تک پہنچ سکتی ہے۔ ایران ایک اور ملک تھا جس کو طالبان کے بڑھنے سے خطرہ تھا۔ انڈیا ایک اور جگہ تھی جہاں سے امداد مل سکتی تھی۔ پاکستان کا ازلی دشمن پاکستان کی کسی بھی پراکسی کے خلاف مدد کو خوشی خوشی تیار ہوتا۔  لیکن دنیا میں کوئی بھی ان کی مدد نہ کرتا، اگر وہ ثابت نہ کر سکتے کہ وہ اس قابل ہیں کہ طالبان کا مقابلہ کر سکیں۔

ان کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ پشتون خود اس انتہاپسند ملیشیا کے خلاف ہو جائیں گے۔  ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔ اس علاقے میں قیمتی پتھر اور ہیروئن تھی۔ انہوں نے تمام وسائل بروئے کار لانے تھے۔ ان کی مدد سے انٹیلیجنس بنانی تھی، منظم ہونا تھا۔ دنیا میں لابنگ کرنا تھا۔

انہوں نے طے کر لیا تھا کہ وہ افغانستان نہیں چھوڑیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مئی 1997 میں طالبان نے مزارِ شریف پر قبضہ کر لیا۔ جس طرح اٹھارہ سال پہلے یہاں پر نیلی آنکھوں والے روسی قبضہ کرنے ٹینکوں پر آئے تھے، ویسے اب یہاں پر پک اپس میں بیٹھے طالبان پہنچے۔ مزار ایک عام شہر اور نسبتاً خوشحال شہر تھا۔ سیٹلائیٹ ٹی وی پر سولہ چینل آتے تھے۔ سڑکوں پر اشتہاری بل بورڈ لگے تھے۔ عبدالرشید دوستم کے پوسٹر لگے تھے۔ طالبان یہاں کی زبان بھی نہیں بولتے تھے۔ ملا عمر کا خواب تھا کہ ایک روز تمام افغانستان ان کا ہو گا۔ پاکستان نے اس وقت کیلکولیٹ کیا تھا کہ اگر طالبان ملک پر قبضہ کر سکیں تو ان کی حکومت کو دنیا میں تسلیم کر لیا جائے گا۔ اور اس کے ذریعے افغانستان پر پاکستان کا اثر قائم ہو جائے گا۔

سٹریٹیجی یہ تھی کہ اگر طالبان غیرپشتون علاقے تک قبضہ لے جائیں تو ان کو دنیا میں افغان نمائندہ حکومت تسلیم کروایا آسان ہو جائے گا۔ اس مقصد کے لئے مزارِ شریف کو چنا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے کچھ عرصے بعد بے نظیر حکومت کو گرا دیا گیا تھا۔ اس دفعہ وجہ ان کی فیملی، کابیینہ اور پارٹی کی کرپشن بنی تھی۔ نئے وزیرِ اعظم نواز شریف بنے، جن کی اچھی خوبیوں میں ذہانت کا شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ پہلے طے کی گئی پالیسی ویسے ہی رہی۔

طالبان نے مزارِ شریف پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی 26 مئی کو پاکستانی وزارتِ خارجہ نے طالبان کو افغانستان کی جائز نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ نواز شریف نے یہ اعلان ٹی وی پر سنا۔ انہوں نے حیرت سے مشاہد حسین سے پوچھا کہ "یہ فیصلہ کس نے کیا؟"۔

آئی ایس آئی کی طرف سے احمد بادیب سے رابطہ کر کے طالبان کو تسلیم کرنے کی درخواست کی گئی۔ احمد کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ملک چلانے کے قابل نہیں۔ پاکستان کی طرف سے درخواست کی گئی تھی کہ ایک بار موقع تو دیں۔ اگر تسلیم کریں گے تو پھر ان سے بات چیت کر کے ان کو ٹھیک راہ دکھائی جا سکتی ہے۔ احمد بادیب نے پرنس ترکی الفیصل سے بات کی۔ وہ کہتے ہیں کہ “نہ صرف پاکستان نے اصرار کیا تھا بلکہ اس کے علاوہ افغانستان میں کوئی اور آپشن نہیں تھی”۔ سعودی عرب نے طالبان کو تسلیم کر لیا۔ تیسرا ملک متحدہ عرب امارات تھا۔

طالبان اپنی بساط سے زیادہ آگے بڑھ گئے تھے۔ مزار ان کے لئے موت کا پھندا بن گیا۔ ان تین ملکوں کے تسلیم کر لئے جانے کے چند روز بعد ہی اس علاقے کی مقامی شیعہ اور ازبک آبادی نے بغاوت کر دی۔ تین ہزار طالبان فوجی مارے گئے۔ ایک ہزار قیدی بنا لئے گئے۔ طالبان کو سالنگ ہائی وے پر کابل کی طرف واپس دھکیل دیا گیا۔ ان کے پاس ایک بار پھر شمالی افغانستان کو کوئی حصہ نہیں تھا لیکن کام ہو چکا تھا۔ طالبان کو تین ممالک کی طرف سے قبولیت مل چکی تھی۔ اب اگلی کوشش ان کو اقوامِ متحدہ تک لے جانے کی تھی۔ اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان خود تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں