باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 25 نومبر، 2019

نئی صدی ۔ پرانے جھگڑے (قسط نمبر سولہ)



کرزئی خاندان نے طالبان کی حمایت کی تھی لیکن ابتدا میں حمایت کرنے والے کئی دوسرے لوگوں کی طرح اب پیچھے ہٹ رہے تھے۔ کرزئی خاندان نے مزاحمت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 1999 کی بہار میں حامد کرزئی کی شادی کوئٹہ میں ہوئی۔ اس تقریب میں ان کے والد عبدالاحد نے اپنے بیٹوں اور کچھ پشتون لیڈروں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارا ملک ختم ہو چکا ہے۔ یہ کوئی انجان ملک بن گیا ہے اور یہ ایسے ہی رہے گا جب تک ہم اس کے خلاف نہیں اٹھیں گے۔ ہمیں زیادہ ضدی بننا ہے۔ ہمیں کچھ کرنا ہے”۔

انہوں نے موسمِ گرما میں دوسرے لیڈروں سے رابطے کرنا شروع کیا۔ ان کا خیال تھا کہ لویا جرگہ بلایا جائے اور افغان بادشاہ کی واپسی ہو۔ عبدالاحد نے ملا عمر کو خط لکھا کہ وہ بھی اس میں شرکت کریں اور ساتھ وارننگ دی کہ ان کو بدلنا ہو گا۔ اس خط کا جواب جلد ہی آ گیا۔ 15 جولائی کو عبدالاحد مسجد سے واپس آ رہے تھے۔ موٹرسائیکل سوار افغان قاتلوں نے ان پر فائر کھول دیا۔ وہ موقع پر ہی انتقال کر گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احمد شاہ مسعود نے ملا عمر سے فون پر دو بار رابطہ کیا تھا۔ انہیں کہا تھا افغانستان کی تاریخ سے سبق ملتا ہے کہ افغانستان کو کبھی کوئی ایک پارٹی، ایک نظریہ کنٹرول نہیں کر سکتا۔ یہ ملک اتحاد سے چل سکتا ہے۔ ملا عمر نے کسی بھی قسم کی مصالحت سے انکار کر دیا۔

ستمبر 2000 میں طالبان نے احمد شاہ مسعود کے ہیڈکوارٹر تالقان پر قبضہ کر لیا۔ بدخشاں صوبہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ مسعود نے اندازہ لگایا کہ اگر طالبان اسی طرح بڑھتے رہے تو اگلے سال تک تاجکستان سے زمینی راستہ منقطع ہو سکتا ہے۔ اگر یہ منقطع ہو جائے تو پھر ان کے پاس مزاحمت بہت مشکل ہو جائے گی۔ طالبان پشتون علاقے میں کمزور پڑ رہے تھے لیکن پیسے، اسلحے اور باہر سے آنے والے رضاکاروں کی کمی نہیں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان اس پر پالیسی کے حوالے سے اندرونی طور پر منقسم ہونے لگا تھا۔ اپنے سارے پتے اس حد تک طالبان پر کھیل لئے تھے کہ باقی تمام افغانوں کی دشمنی حاصل کر لی تھی۔ وسطی ایشیا کی حکومتوں سے بھی تعلقات خراب کئے تھے۔ حمایت جاری رکھنے کی واحد وجہ یہ رہ گئی تھی کچھ اور آپشن نظر نہیں آتی تھی۔ طالبان نت نئی حرکتوں میں مصروف رہتے تھے۔ پاکستان دنیا میں ان کا دفاع کرتا رہتا تھا۔ باقی دنیا کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے اشارے پر چلتے ہیں۔  جبکہ دوسری طرف طالبان ان کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ معمولی سی بھی رعایت نہیں ملتی تھی۔

یکم مارچ 2001 کو طالبان نے صدیوں پرانے مہاتما بدھ کے مجمسے تباہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس کی عالمی سطح پر مذمت طالبان کے انسانی حقوق کے اور آبادی کے قتل سے بھی زیادہ ہوئی۔ ایشیا کے کچھ بدھ اکثریت والے ممالک نے پاکستان کو مداخلت کے لئے کہا۔ جنرل معین الدین حیدر اپنے ساتھ علماء کو لے کر قندھار گئے۔  مترجموں کے ساتھ ملا عمر کے گھر پہنچے۔ ملا عمر نے کہا، “ہم نے چھ مہینے غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے، یہ واپس نہیں ہو سکتا”۔ معین الدین حیدر نے سورہ الانعام کی آیت 108 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔ انہوں نے تاریخ سے واقعات بتائے۔ خاص طور پر مصر کی مثال دی، جہاں پر مسلمانوں نے آثارِ قدیمہ کی حفاظت صدیوں سے کی۔ مجسموں اور آرٹ کو نہیں چھیڑا۔ افغانستان کی اپنی تاریخ کا بتایا۔ بدھ کے مجسمے اسلام سے زیادہ پرانے ہیں۔ یہاں سے ہزاروں مسلمان افواج گزرتی رہی ہیں۔ افغانستان سے ہندوستان گئی ہیں۔ افغانستان صدیوں سے مسلمان حکمرانوں کے پاس رہا ہے۔ کسی نے ان کو نقصان نہیں پہنچایا۔ ڈیڑھ ہزار سال سے یہاں مجسمے کھڑے ہیں۔ افغانستان میں مسلمان رہتے آئے ہیں۔ آپ ان سے مختلف مسلمان تو نہیں ہیں۔

ملا عمر تاریخ سے واقف نہیں تھے لیکن انہوں نے کہا، “روزِ قیامت جب اللہ سوال کرے گا کہ عمر، تو نے سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور تو دو مجسمے نہ توڑ سکا۔ عمر کیا جواب دے گا۔ اگر قیامت میں ان مجسموں نے عمر کے خلاف گواہی دی تو عمر اس وقت کیا منہ دکھائے گا”۔

معین الدین ناکام واپس چلے گئے۔ پاکستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طالبان مخالف گروپس اکٹھا ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ احمد شاہ مسعود دنیا میں مدد لینے کیلئے لابی کر رہے تھے۔ ملک میں شوریٰ جوڑنے کی تگ و دو میں تھے کہ ہر علاقے میں کوئی مدد مل سکے۔ حامد کرزئی قندھار کے علاقے کے درانی قبائل میں اثر حاصل کر سکتے تھے۔ اسماعیل خان ایران کی طرف سے مغربی افغانستان میں داخل ہو گئے تھے اور ہرات میں قیادت کر سکتے تھے۔ کریم خلیلی جو ملک کے نمایاں شعیہ راہنما تھے، وہ جلاوطنی سے واپس بامیان پہنچ گئے تھے۔ حاجی قدیر کنر صوبے میں بغاوت کھڑی کر سکتے تھے۔ ازبک جنگجو عبدالرشید دوستم بھی واپس آ گئے تھے اور شمالی پہاڑوں پر مزاحمت کر رہے تھے۔ ان میں سے کئی طالبان سے پہلے کی ناکامی کے ذمہ دار تھے لیکن اتحاد بننے لگا تھا۔

احمد شاہ مسعود نے ویڈیو کے ذریعے جو پیغام عالمی میڈیا کو بھجوایا، وہ یہ تھا “طالبان کے انتہاپسند طریقے نے پشتونوں میں ان کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ ایک عام پشتون ملا جو افغانستان کو جانتا ہے، اب پوچھتا ہے کہ سکول کہاں ہیں؟ لڑکیاں کیوں نہیں پڑھ رہیں؟ افغانستان کے مذہبی راہنما ان کے طریقوں پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔ اسامہ بن لادن کا افغانستان سے باہر شاید مقبول ہو، افغناستان میں نہیں۔ ہمارے لئے اس کی حیثیت ایک مجرم سے زیادہ کی نہیں ہے۔ اس نے ہمارے لوگوں کے خلاف جرائم کئے ہیں۔ لوگ عربوں کی عزت کرتے تھے۔ مسلم بھائی چارے کے تحت ان کے لئے مہمان نوازی کی گئی، لیکن یہ ظالم ہیں۔ یہ سوچ گراس روٹ سے آنا شروع ہوئی ہے اور یہ گراس روٹ علماء ہیں”۔

اس اتحاد کے بن جانے کے چند روز بعد حامد کرزئی کو کوئٹہ میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے نوٹس مل گیا۔ انہیں پاکستان چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ ان پر الزام افغان حکومت کے خلاف سازش کرنے کا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ اگر وہ ستمبر 2001 کے بعد پاکستان رہے تو انہیں حراست میں لے لیا جائے گا۔

حامد کرزئی نے اب انتخاب کرنا تھا کہ وہ قندھار جائیں یا شمالی افغانستان۔ احمد شاہ مسعود سے سیٹلائیٹ فون پر بات کر کے انہوں نے طے کیا کہ وہ دوشانبے کی فلائٹ لیں گے۔ قندھار جانا بڑا رِسک ہو گا۔

اسی دوران دو اور لوگ بھی اسی جگہ کا سفر کرنے نکلے تھے۔ ان کا اپنا ہی پلان تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں