باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 3 نومبر، 2019

سائنس کی حدود



لغت کے مطابق سائنٹزم نیچرل سائنس کے طریقہ کار پر ضرورت سے زیادہ اعتماد اور یہ قیاس کہ اس طریقہ ہر جگہ پر کام کر جائے گا، جیسا کہ فلسفے، سوشل سائنس، ہیومینیٹیز یا لبرل آرٹس وغیرہ میں، سائنٹزم کہلاتا ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ کہیں پر بھی نہیں پایا جاتا تو یہ اس کی علامت ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ اس کا شکار ہوں۔

جب ایک سائنسدان دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس مکمل طور پر اخلاقی سوالات کا جواب دے سکتی ہے اور جن مفروضات کو بنیاد بنا کر دلائل دیتے ہیں، اس کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔  جب کچھ اور سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ فلسفہ بے کار ہے یا مردہ ہے اور پھر کاسمولوجی کے فلسفے پر پوری کتاب لکھ دیتے ہیں اور انہیں خود بھی اس کا احساس نہیں ہوتا یا پھر کچھ نیورسائنٹسٹ جو دماغ کی خوبصورت رنگین تصویر دیکھ کر دکھا کر کہتے ہیں کہ یہ کسی عمل کی حتمی وضاحت ہے، بغیر یہ جانے کہ حتمی اور اہم ہم معنی نہیں۔ کئی ارتقائی نفسیات کے ماہرین (زیادہ تر نہیں)، جب وہ ایسے دعوے کرتے ہیں جو ایپسٹیمک وارنٹ سے باہر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سائنسدان اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ریپ پلائسٹوسین دور میں شروع ہوا اور اس کو سپورٹ کرنے کے لئے شواہد دینے کا تکلف نہیں کرتے۔ (اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا دعویٰ لازمی طور پر غلط ہو، صرف یہ کہ ان کا دعویٰ بے بنیاد ہے)۔ اکنامکس، آرٹس، پراڈکٹ ڈیزائن تک پر، سائنس اور ریاضی کے طریقے کو استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ اس کی چند مثالیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائنٹزم کے رجحان کی نشاندہی کرنے پر ایک اعتراض یہ آتا ہے کہ یہ لفظ استعمال کرنے والے عام طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم سب اتنی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ وہ لوگ، جن کو سائنس سے ہی اختلاف ہوتا ہے۔ خواہ اس میں کری ایشن اِسٹ یا جدید کاسمولوجی سے خائف، مختلف طرح کے سازشی نظریات والے، اڑن طشتریوں پر یقین رکھنے والے یا پھر وہ لوگ جن کو سائنس سمجھ نہیں آتی اور شرمندگی سے بچنے کے لئے سائنس کا مذاق اڑاتے ہیں یا پھر وہ سوشیولوجسٹ یا فلسفی وغیرہ جن کو سائنس کو ملنے والے توجہ پسند نہیں آتی۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن ایسے لوگ کل بھی تھے، آج بھی ہیں۔ یہ تاریخ کے کچرا دانوں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ یہ اتنے اہم نہیں کہ ان کی وجہ سے ہم سنجیدہ موضوعات پر بات نہ کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائٹزم کی پہچان کرنے کے لئے سوزن ہیک نے چھ نکات  تجویز کئے ہیں۔

پہلا یہ کہ سائنس کو کسی ایسے لفظ کے طور پر استعمال کرنا، جس کا کہا اچھا یا ٹھیک ہو گا۔ "سائنسی طریقے سے کی گئی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ پراڈکٹ کا ڈبہ نیلا ہونا ہوا تو صارفین پسند کریں گے"۔ "سائنس کے مطابق شریکِ حیات میں یہ خاصیت ہونی چاہیے"۔ "یہ ٹوتھ پیسٹ سائنس سے ثابت شدہ ہے"۔

عام گفتگو میں ایک اور مثال "کیا یہ شواہد سائنسی ہیں؟" کو "کیا یہ شواہد اچھے ہیں؟" کی جگہ پر استعمال کرنا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی بات کو وزن دینے کے کئے سائنس کا انکار کرنے والوں نے کری ایشن سائنس کی اصطلاح بھی بنا لی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا یہ کہ سائنس کی اصطلاحات کو ان جگہوں پر استعمال کرنا، جہاں سے وہ تعلق ہی نہیں رکھتے۔ اس کی ایک مثال مثبت سائیکولوجی پر 2005 میں چھنے والا پیپر تھا جس میں سائنسی ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے لوساڈا نے نتیجہ نکالا کہ "خوشحال زندگی گزارنے کے لئے مثبت اور منفی جذبات میں تناسب 2.9013 کا ہونا ضروری ہے"۔ سوشل سائنس کے کسی پیپر کی ریاضی میں ڈیسمل کے بعد ایک عدد بھی مشکوک ہے۔ اور یہاں پر تو خوشحال زندگی، مثبت جذبات اور منفی جذبات کی تعریف بھی نہیں کی گئی تھی۔ اس پیپر میں اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے فلوئیڈ ڈائنمکس کی مساوات استعمال کی گئی تھیں، جن کا تعلق لورینز سسٹم سے تھا۔ فزکس کے اس فیلڈ کا اطلاق جذبات پر کیوں؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ توجہ کا مرکز بننے اور تنقید کا نشانہ بننے پر اس پیپر کو آٹھ سال بعد واپس لیا گیا۔ لیکن اس پیپر کی 360 سائٹیشنز ہوئیں۔ اس کی بنیاد پر کتابیں لکھی گئیں۔ "شواہد کی راہنمائی سے اچھی زندگی کیسے گزاریں"، کے عنوان سے مقبول کتاب اس پیپر کی بنیاد پر لکھی گئی۔ اس کو "بڑی دریافت" کہا گیا۔ کریٹیکل پوزیٹیویٹی ریشو میں تین اور ایک کا یہ تناسب اور لوساڈا ریشو انٹرنیٹ پر سرچ کرنے پر جگہ جگہ پر ملے گی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسرا سائنس اور غیرسائنس کے درمیان واضح لکیر لگانے کا جنون۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ اتنی واضح ہے ہی نہیں۔ ایک دھندلی لکیر ہے۔

ایسا کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے؟ اگر سائنس دوسرے شعبوں سے بالاتر ہے تو پھر اس لکیر کی ضرورت ہے۔ لیکن اس دنیا کو احتیاط سے اور طریقے سے جاننے کا کام صرف سائنسدان ہی نہیں کرتے، دوسرے شعبوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ مثلا ایک اچھا مورخ بھی یہ کام اتنی ہی احتیاط سے کرتا ہے، جتنا کہ ایک اچھا سائنسدان۔ اس لئے اس دھندلی لکیر کو واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب ہنٹ میٹافزکس پر بات کرتے ہیں تو یہ الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس میں سے کونسا علاقہ کاسمولوجی کا ہے۔ جب وائن برگ کاسمولوجی پر بات کرتے ہیں تو یہ الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کونسا علاقہ میٹافزکس کا ہے۔ لیکن اس کی ضرورت ہی کیوں ہے؟

اور پھر سائنس کا دائرہ کھینچ دینے کے بعد اس کو وسیع کرنے کی کوشش کہ ہر مفید انسانی کوشش کسی طرح سائنس کہلائے۔ جیسا کہ ایک سائنسدان اپنے جوش میں یہاں تک کہہ گئے کہ پلمبر بھی جو کرتا ہے، وہ سائنس ہے۔ ایک مفروضہ بناتا ہے، پھر اس کے مطابق عمل کر کے ٹیسٹ کرتا ہے۔ نتائج کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس سے یہ مفروضہ رد یا قبول ہو جاتا ہے۔۔۔۔  ایک پلمبر کا کام بہت اہم اور ضروری ہے لیکن ہم ایک پلمبر کو سائنسدان نہ کہنے پر اتفاق کر سکتے ہیں۔

اسی طرح کسی چیز کو سوڈوسائنس کہنے پر اصرار۔ آسٹرولوجی یا انٹیلیمنٹ ڈئزان جیسی کئی چیزوں کو ہم بآسانی غلط کہہ سکتے ہیں لیکن کسی بھی چیز کو محض سوڈوسائنس کہہ دینا مدد نہیں کرتا۔ لیبل صرف یہ بتاتا ہے کہ یہ مجھے پسند نہیں۔ (اس پر تفصیل نیچے لنک سے)۔

یہ والا مسئلہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ فلسفے کی ایک پرانی پوزیشن ہے جس کو لوجیکل پوزیٹوم کہا جاتا ہے۔ سو سال پہلے تک یہ فلسفے میں پاپولر رہی تھی۔ اب زیادہ نہیں۔ فلسفی تو اس پوزیشن سے آگے نکل آئے ہیں۔ امید ہے کہ دوسرے لوگ بھی یہ نکتہ سمجھ جائیں گے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
چوتھا یہ تصور کہ سائنس کرنے کا کوئی ایک طریقہ ہے جس کو سائنسی میتھڈ کہا جاتا ہے۔ کسی الگورتھم کی طرح اس کو ڈبوں میں اس کو دکھایا جاتا ہے جس میں دوسری طرف سے سائنس برآمد ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اتنا آسان ہوتا تو کمپیوٹر بھی سائنس کر لیتے۔ سائنسی طریقہ اوزاروں کے ڈبے کی طرح ہے۔ کئی طریقے ہیں، کئی طرح کی اپروچ ہے۔ وقت کے ساتھ اس ڈبے میں بھی اوزار اپڈیٹ ہوتے ہیں اور کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے متعلقہ اوزار استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر وہ اوزار کسی وقت کسی جگہ پر کام نہ کریں تو کچھ اور آزمایا جاتا ہے۔ سائنس اس سے کہیں زیادہ کری ایٹو اور تخلیقی ذہن مانگتی ہے جتنا عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ کونسے اوزار کونسا مسئلہ حل کرنے کے لئے کارآمد ہو سکتے ہیں؟ کہاں اپڈیٹ کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے؟ یہ سب اس تخلیقی انسانی انٹرپرائز کا حصہ ہے۔ ہاں، یہ سب کچھ کسی سسٹمیٹک طریقے سے کیا جاتا ہے۔ نوٹس لکھے جاتے ہیں، مشاہدات ہوتے ہیں، یہ سب کے سامنے کیا جاتا ہے۔ اس کو شئیر کیا جاتا ہے۔ لیکن کوئی بھی سائنسی تحقیق ایک سٹینڈرڈ سائنسی پیپر کی طرح نہیں۔

مختلف میتھاڈولوجی کے علاوہ سائنس کے اوزاروں میں فزیکل اوزار بھی ہیں جیسا کہ مشاہدہ کرنے کے بہتر ہوتے انسٹرومنٹ۔ انٹکچوئل اوزار بھی ہیں، جیسا کہ کیلکولس یا شماریات۔ سوشل اوزار بھی ہیں، جیسا کہ پیئر ریویوسسٹم یا پھر چیٹنگ پکڑنے اور روکنے کے لئے سزا کا نظام۔ یہ سب ایک سسٹم ہے، کوئی بے عیب جادوئی ڈبہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچواں یہ کہ سائنس سے ان چیزوں کے جواب لینے کی کوشش جو سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ چند مثالٰیں: کاز کیا ہے؟ منطق اور انفرنس کیا ہے؟ ایپسٹمولوجی کیا ہے؟ ان میں سے کوئی شے ایسی نہیں جس پر تجربات کئے جا سکیں، مشاہدات ڈھونڈنے جا سکیں یا فالسیفائی کیا جا سکے۔ معقول مشاہدہ کیا ہے؟ جینیاتی ڈرفٹ کے لئے کونسا مشاہدہ معقول ہے؟ یہ سوال خود سائنس کا حصہ نہیں۔

سائنسی تھیوری خود ایک آبجیکٹ نہیں جس کو کوئی ٹیلی سکوپ سے “دیکھ” لیتا ہے۔ یہ ایک انسانی ایجاد ہے اور ہمارا بنایا ہوا کنسٹرکٹ ہے جو ہمیں اس دنیا سے معنی نکالنے میں مدد کرتا ہے۔

نالج ایک انسانی تصور ہے۔ کسی چیز کے بارے میں بات کیسے کی جائے، کونسا طریقہ ٹھیک ہے۔ یہ سب دلائل اور مباحث کا حصہ ہے۔ اسی طرح ایتھیکس ہیں۔ اگر کوئی اسقاطِ حمل پر بات کرنا چاہے تو ڈویلمنٹل بائیولوجی کی مدد سے یہ اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے کہ کب جنین کو تکلیف ہوتی ہے لیکن اس پر فیصلہ لیتے وقت اس کو ہی کیوں معیار بنایا جائے اور اس موقعے کا انتخاب ہی کیوں کیا جائے، کسی اور کا کیوں نہیں۔ اس کے لئے کوئی سائنسی جواب نہیں یا ایمپریکل شواہد اس بحث کو طے نہیں کر سکتے۔

جمالیات میں اعلیٰ اور ادنیٰ لطف میں فرق کیا جاتا ہے۔ کھانا کھانے میں اور کوئی گہری معنی خیز بات کو پڑھنے میں فرق ہے۔ یہ فرق دماغ کے سکین سے نہیں معلوم کیا جا سکتا۔ صرف یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ دماغ کے کونسے حصے کس وقت زیادہ ایکٹو ہیں۔ دماغ کا یہ سکین بہت دلچسپ ہے، بہت معلومات دیتا ہے لیکن اس سے یہ نہیں پتا لگے گا کہ زیادہ اہمیت ٹی وی دیکھنے کو دی جائے یا اس والے مضمون کو پڑھنے کو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھٹا یہ کہ سائنس کے علاوہ دوسری ایکٹیوٹی، مثلاً، ہیومینیٹیز کو غیراہم قرار دینا۔ "فلسفہ سائنسی مسائل کے جواب نہیں دیتا، اس لئے بے کار ہے"۔ اس قسم کی بات کے لئے فلسفے سے لاعلمی ضروری ہے۔  جب کچھ سائنسدان بھی اس قسم کی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے۔ جو اچھے سائنسدان اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، سوال کئے جانے پر اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس موضوع پر کبھی بھی کوئی ٹیکنیکل کتاب یا پیپر نہیں پڑھا۔ یعنی ان کو واقعی اس چیز کا علم نہیں کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ذہین نہیں یا اچھے دلائل نہیں دے سکتے یا ان کی باتیں غلط ہیں۔ بلکہ یہ کہ کئی بار وہ اس چیز کا ادارک ہی نہیں کر پاتے کہ وہ ان کی اپنی پوزیشن ہے کیا۔

اس سے نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جب کوئی صاحب کہتے ہیں کہ "ظاہر ہے کہ کاسمولوجی کا علم حاصل کرنا بہت اہم ہے" تو اس جملے کے پیچھے لی گئی ازمشن سے خود بھی واقف نہیں ہوتے۔ یہ کیوں ضروری ہے؟ ان کی نظر میں دلچسپ ہو سکتا ہے ہے۔ میری نظر میں بھی دلچسپ ہے لیکن "ظاہر ہے" اس کی کوئی وجہ نہیں اور یہ ہر ایک کے لئے اس کی اہمیت "ظاہر" نہیں ہے۔ کیا چند ارب ڈالر اس کی ٹیلی سکوپ بنانے کے لئے خرچ کیا جانے چاہییں؟ کیا اس کی جگہ اس کو بائیولوجی پر خرچ نہیں کر لینا چاہیے؟ ان ترجیحات پر اچھی بحث ہو سکتی ہے۔ اچھی وجوہات بتائی جا سکتی ہیں، دلائل دئے جا سکتے ہیں۔ یہ دلائل سائنسی حقائق
نہیں ہیں۔    

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائنس خود کیا ہے؟ یہ بھی ایک سائنسی سوال نیہں۔ نیچرل سائنسز جیسا کہ بائیولوجی، فزکس، کیمسٹری کے سائنس ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں۔ لیکن کیا سوشل سائنس بھی سائنس ہے؟ ان میں مسئلہ انسان کی آمد سے ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان نیچر کا حصہ نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ انسانوں کی وجہ سے پیچیدگی کی بالکل مختلف تہہ آ جاتی ہے۔ انسانی وِل کے اضافے سے تجربات کے طریقے پر اثر پڑتا ہے۔ سوشل سائنس سے آگے پھر ہیومینیٹیز ہیں۔ کالونیل ازم کو پڑھنے میں ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی ڈائریاں بھی پڑھی جاتی ہیں۔ اس دور کے ناولوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ ریاضی کا ڈیٹا نہیں لیکن اس دور کا پتا لگانے کے لئے بہت ہی اہم ڈیٹا ہے۔ یہ سائنس نہیں۔ اس کی اہمیت کم نہیں۔

بغیر ان کی تمیز کئے سائنسی طریقوں کا اضافہ اچھے نتائج نہیں لے کر آتا۔ رابرٹ مرٹن اور مائیرن سکولز کے رسک مینجمنٹ کے “سائنسی” طریقوں نے ان کو اکنامکس میں نوبل انعام کا حقدار بنا دیا۔ انسان کو نظرانداز کر کے بنائے جانے والے ماڈلز اور ان پر اعتبار جلد ہی رسک مینجمنٹ کی سب سے بڑی ناکامیوں کا سبب بن گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اس سب کا قطعی طور پر یہ مطلب سائنس کی اہمیت کم کرنا نہیں، بلکہ اس سے بالکل متضاد ہے۔ سائنس پہلے سے زیادہ کامیابی سے دوسرے شعبوں کی سپورٹ کر رہی ہے اور اس کے اپنے دائرہ کار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاریخ ہو یا ایتھیکس، فلسفہ یا لبرل آرٹس، اکنامکس یا پالیسی، ہر جگہ پر سائنس سپورٹ کرتی اور کر رہی ہے۔ اس فطری دنیا کو سمجھنے کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ ہمارے پاس نہیں۔ بغیر سائنس کو اچھی طرح سے سمجھے ہوئے، اب فلسفہ بھی ٹھیک طرح سے نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جیسا کہ کسی عظیم فلسفی نے سپائیڈر مین کو کہا تھا، “بڑی طاقت بڑی ذمہ داری بھی لے کر آتی ہے”۔

جی، سائنٹزم ایک مسئلہ ہے اور یہ پبلک انٹلکچوئل سفر کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس میں احتیاط کرنا سائنس کے اپنے لئے ضروری ہے۔  سائنس پر بھروسہ گنوا دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سائنس کی بنیاد پر وہ دعوے کئے جائیں جو اس کے دائرہ کار میں نہیں ہیں۔ سائٹزم کا دفاع کرنے والے سائنس کو کسی اٹل یونیورسل کنسٹرکٹ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے یہ کوئی افلاطونی آئیڈیل ہو۔ سائنس انسانی ایکٹویٹی ہے۔ ارسطو بھی اپنے وقت میں اپنے وقت کے دستیاب ٹولز کے استعمال سے سائنس کر رہے تھے۔ بائیولوجی اور فزکس سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کیا انکے بیشتر خیالات غلط تھے؟ جی ہاں، بالکل غلط تھے۔ بس اسی طرح آج کا ہر سائنسدان بھی اسی طرح آج کے ٹولز کی مدد سے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سائنسدان سائنس پر کام کرتے ہیں۔ اور ایسا بہت سا کام نہیں کرتے، جو کچھ لوگ ان سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مندرجہ ذیل میٹیریل ماسیومو پگلیوچی کے لیکچر سے ہے۔ پگلیوچی کی ایک ڈاکٹریٹ جینیات میں ہے اور دوسرے فلاسفی آف سائنس میں۔


سوزن ہیک کا لیکچر ۔ اگر اس ٹاپک میں دلچسپی ہے تو ضرور سنئئے گا
https://youtu.be/5Be6vheIMAA

پگلیوچی لیکچر مکمل اور ناموں کے ساتھ دیکھنے کیلئے یہاں سے
https://youtu.be/Xbu3634j0MA

سوڈوسائنس کی پہچان پر
https://waharaposts.blogspot.com/2019/09/blog-post_17.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں