باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 4 نومبر، 2019

صلاح الدین ایوبی سے لے کر ریفرنڈم تک

ریفرنڈم 25 ستمبر 2017 کو ہوا۔ اس میں سوال آزادی کا تھا۔ بھاری تعداد میں لوگ ووٹ دینے نکلے اور جس کے لئے وہ عرصے سے جنگیں لڑتے آئے تھے، آج بھاری اکثریت نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس شاندار کامیابی کے بعد اس خوشحال خطے میں نئی ریاست کے جھنڈے لہرائے جا رہے تھے۔ لوگ سڑکوں پر خوشیاں منا رہے تھے۔ کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد، بڑی تعداد میں لاکھوں جانیں گنوا دینے کے بعد، اب آزادی کا وقت تھا۔ ایک صدی کی جدوجہد کے بعد، دنیا کے نقشے پر کیا اب ایک نیا ملک ابھرنے والا تھا؟

اس ریفرنڈم کی کہانی کیلئے پہلے پسِ منظر یہاں کی تاریخ کا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنوب مغربی ایشیا کے پہاڑی علاقے میں تین کروڑ سے زائد کُرد بستے ہیں اور یہ عربوں، ترکوں اور ایرانیوں سے فرق شناخت رکھتے ہیں۔ ان میں سے 14 ملین ترکی میں، 6 ملین عراق میں، 6 ملین ایران میں، 2 ملین شام میں، 2 ملین آرمینا میں ہیں۔ کرد علاقے میں 97 فیصد مسلمان ہیں جن میں بڑی اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔

عراقی کردستان کا دارلحکومت اربیل شاید انسانی تاریخ کی مسلسل آباد رہنے والی قدیم ترین آبادی ہے۔ سات ہزار سال پرانا قلعہ اور پھر شانیدار کا اہم غار ۔۔۔۔ یہ لوگ عربوں، فارسیوں، ترکوں اور روسیوں سے زیادہ قدیم ہیں۔ اس خطے پر کئی خاندان حکومت کرتے رہے۔ اس کو پہلی بار ایک سیاسی اکائی بنانے والے کُرد، ایوبی خاندان کے حکمران صلاح الدین تھے۔ جن کی فتوحات شام، مصر، حجاز، عراق، یمن، تیونس اور یروشلم تک تھیں۔ دو صدیوں تک اپنے عروج کے بعد چودہویں صدی میں منگولوں کی آمد نے اس سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ علاقہ صفوی اور عثمانی سلطنت کے درمیان ہاتھ بدلتا رہا۔ عثمانی سلطنت سے تعلقات سرد گرم رہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں یہاں پر کرد آزادی کی تحریک باقاعدہ طور پر شروع ہو چکی تھی جس کو سختی سے ختم کیا گیا۔ پہلی جنگِ عظیم میں شکست کھا جائے کے بعد دنیا کا نیا نقشہ بنایا گیا۔ 1920 میں جنگ بندی کے سیورس میں ہونے معاہدے میں کردستان ایک الگ ملک تھا لیکن کمال اتا ترک کی اس علاقے میں فوج کشی اور شدید مخالفت کی وجہ سے لوزین کے معاہدے میں اس تجویز کردہ ملک کو ختم کر دیا گیا۔ چرچل، لیفٹیننٹ لارنس (لارنس آف عریبیہ) اور برطانوی خاتون ڈپلومیٹ گرٹروڈ بیل نے مل کر یہاں پر جن لکیروں کا فیصلہ کیا، اس میں کردستان نہیں تھا۔ اس علاقے کو کئی ممالک میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایک نئی جغرافیائی اکائی ایجاد کی گئی۔ یہ نوزائیدہ ملک عراق کہلایا۔ کردستان کا کچھ حصہ اس نئے مللک کے ساتھ نتھی کر دیا تا کہ ترکی کے ساتھ ایک بفر زون کا کردار ادا کرے۔ یہ علاقہ تقسیم ہو گیا۔ ساتھ ہی ہر جگہ پر آزادی کی تحریکیں شروع ہو گئیں۔

ترکی میں 1928 ارارات ری پبلک قائم رہی۔ ایران میں 1946 میں جمہوریہ مہاباد، عراق میں 1922 میں ریاستِ کردستان۔ چند سال کی آزادی کے بعد ان تینوں کو عسکری شکست ہوئی اور یہ کرد ریاستیں اپنے اپنے ممالک میں ضم ہو گئیں۔

ان میں سے ہر خطے کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ ابھی صرف عراقی کردستان کے بارے میں۔ وہ علاقہ جہاں سے صلاح الدین ایوبی تعلق رکھتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عراق میں کرد باغیوں کو سب سے پہلے “دشمن کے دشمن” کی پالیسی کے تحت ایران اور روس نےمسلح کیا۔ ایران اور عراق کا سرحدی تنازعہ تھا۔ 1961 میں پہلی کرد اور عراق جنگ شروع ہوئی۔ نو سال جاری رہنے والی اس جنگ میں ایک لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔ کردوں کو خودمختاری کا وعدہ وفا نہ کرنے پر دوسری جنگ 1974 میں چھڑ گئی۔

اس دوران ایران اور عراق نے اپنے تنازعات کا تصفیہ الجیریا کے معاہدے میں کر لیا۔ شط العرب کا معاملہ طے ہونے کے بعد ایران کو کردوں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس نے ان کی مدد سے ہاتھ جھاڑ لئے۔ اس تبدیلی میں نقصان اٹھانے والے کرد تھے۔ عراق کی بعث پارٹی نے ان کو عربوں میں ضم کرنے کی مہم شروع کر دی۔ سینکڑوں دیہاتوں کو جلا دیا گیا۔ دو لاکھ کردوں کو اس علاقے سے نکال دیا گیا۔ یہاں پر عربوں کو بسانے کا پروگرام شروع کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایران میں 1979 میں انقلاب آیا۔ نئے انقلابیوں نے پچھلے معاہدے کو پھاڑ دیا۔ ایران عراق جنگ 1980 میں چھڑ گئی جو آٹھ سال جاری رہی۔ عراقی فوج اس جنگ میں مصروف ہو گئی۔ صدر صدام حسین نے کردستان کو خودمختاری دینے کا معاہدہ کر لیا تا کہ اس طرف سے بے فکری رہے۔ عراقی حکومت کی طرف سے اس معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر کردستان کی آزادی کی تحریک گوریلا جنگ بن گئی۔ ایران کے ساتھ جنگ کے دوران یہ عراق کے لئے ایک سردرد تھا۔ جب ایران کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ خاتمے کو تھی تو صدام حسین نے کردوں کو عبرت ناک سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ کردوں کو کچل دینے کا آپریشن حملہ انفال تھا۔ اس میں وہ واقعہ ہوا جو “کیمیابارانی ہالبجہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مِگ 23 نے اپنے ہی ملک میں ہالبجہ کی آبادی پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ اس جہاز سے برسائی گئی سارین اور مسٹرڈ گیس نے چار سے پانچ ہزار شہریوں کا وہیں پر خاتمہ کر دیا۔ یہ آبادی ختم کر دی گئی اور یہ علاقہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔ حملہ انفال کے پورے آپریشن میں مارے جانے والے کردوں کی تعداد کا اندازہ پچاس ہزار سے دو لاکھ کے درمیان کا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عراق نے کویت پر 1991 میں قبضہ کیا۔ اس میں عراق کی شکست اور لگنے والی پابندیوں سے کردوں نے فائدہ اٹھایا۔ ان کو اس جنگ کے بعد خودمختاری مل گئی۔ 1992 میں یہاں پر الیکشن ہوئے۔ دو پارٹیوں میں سخت مقابلہ رہا۔ یہ دونوں یہاں کی تحریکِ آزادی کا حصہ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک پارٹی کو ایران جبکہ دوسری کو ترکی مدد کرتا رہا تھا۔ دونوں آزاد کردستان چاہتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے۔ لیکن اب یہاں پر الگ پارلیمنٹ بن گئی۔ اس علاقے کو الگ جھنڈا مل گیا۔

عراق پر لگی پابندیوں کا اس علاقے پر اثر ہوا۔ مالی مسائل کی وجہ سے یہ جگہ عدم استحکام کا شکار ہوئی۔ ان دونوں حریف پارٹیوں کے درمیان اس علاقے کے اندر ہی خانہ جنگی چھڑ گئی۔ 1994 سے 1996 تک دونوں پارٹیوں کی یہ جنگ رہی۔  1996 میں آپس میں جنگ بندی کا معاہدہ اور عراق سے باقاعدہ صلح ہوئی۔ عراق نے ان کی یہاں کی محدود خودمختاری کو رسمی طور پر تسلیم کیا۔ تیل کی آمدنی کا تیرہ فیصد اس کے حصے میں آیا۔ اس کے بدلے میں کرد کے راستے عراق کو تیل سمگل کرنے کا راستہ دیا گیا۔ چند ہی برسوں میں یہ علاقہ عراق کے خوشحال علاقوں میں سے تھا۔ اپنا صدر، اپنا وزیرِ اعظیم، اپنی پارلیمنٹ، اپنی فوج جو پشمرگا کہلاتی تھی۔ لیکن یہ الگ ملک نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عراق میں 2003 میں اگلی جنگ شروع ہوئی۔ نئے اتحاد بنے۔ پشمرگا نے عراقی حکومت الٹانے میں مدد کی۔ صدام حسین کا دور ختم ہوا۔ نئی حکومت اور نیا آئین ۔۔ جہاں پر عراق جنگ سے تباہ حال تھا، وہاں پر یہ علاقہ انتہائی پرامن اور تیزی سے ترقی کرنے والا علاقہ بن گیا۔

جنگ کے نتیجے میں طاقت کے خلا نے شام اور عراق میں ایک اور قوت کو جنم دیا۔ یہ دولتِ اسلامیہ یا داعش کہلائی۔ اس طرز کی تنظیم، جو دنیا نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ عراق کا دوسرا بڑا شہر موصل ان کی اعلان کردہ خلافت کا مرکز بن گیا۔

مشرقِ وسطیٰ کی “دشمن کے دشمن” سے دوستی کی سیاست نے پرانے حریفوں کو اکٹھا کر دیا۔ پہلی بار عراقی فوج اور پشمرگا نے اکٹھے ہو کر اس مشترک دشمن کا مقابلہ کیا۔ سخت لڑائیوں کے بعد اگلے چند برسوں میں داعش کو شکست دے دی گئی۔ اس دوران پشمرگا نے کرکوک پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ علاقہ کرد اکثریت کا تھا لیکن اس سے پہلے عراقی کردستان کے خود مختار علاقے کا حصہ نہیں تھا۔ عراق کے تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ یہاں پر تھا۔ عراقی فوج کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد اس کو پشمرگا نے داعش کے ہاتھ میں جانے سے بچایا تھا۔ علاقے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داعش کا قبضہ چھڑوا لیا گیا۔ کردستان میں یہ احساس آ چکا تھا کہ عراق اپنی حفاظت تک خود نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی اس میں اتنی طاقت ہے کہ بزورِ بازو، کردستان کو ساتھ رہنے پر مجبور کر سکے۔  اس کے ساتھ رہنے کا فائدہ نہیں ہے۔ اس پس منظر کے تحت کرد صدر برزانی نے اعلان کر دیا کہ ریفرنڈم کروایا جائے گا کہ یہاں کے لوگ عراق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ملک چاہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ریفرنڈم کی مخالفت دنیا میں ہر طرف سے آئی۔ عراق نے اس کو غیرآئینی اقدام قرار دیا۔ ترکی اور ایران نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا کیونکہ ان کے اپنے ملک میں کرد اس سے شہہ لے سکتے تھے۔ اگرچہ یہ دونوں ممالک تاریخی طور پر عراقی کردوں میں اپنے اپنے پسندیدہ گروپ کو سپورٹ کرتے آئے تھے۔ ان کی توقع کے خلاف امریکہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کا انٹرسٹ داعش کے ساتھ جنگ میں تھا۔ دنیا کے ہر ملک کی طرف سے مخالفت کی گئی کیونکہ ہر ایک کی نظر میں اپنے اپنے ملک کی علیحدگی پسند تحریکیں تھی۔

دوسری طرف، کردستان کے اندر اس اعلان نے مخالف سیاسی جماعتوں کو یکجا کر دیا۔  کردش جمہوری پارٹی، اس کی بڑی حریف کردستان یونین پارٹی، کردستان اسلامی تحریک، کردش سوشلسٹ پارٹی نے اس میں آزادی کی حمایت کی۔

ملتوی کر دینے کے شدید عالمی دباوٴ کے باجود ریفرنڈم کروایا گیا۔ کئی دہائیوں سے یہاں کے لوگوں کو ساتھ ملانے کیلئے کئے گئے مختلف پروگرامز کے باوجود نتائج واضح تھے۔ اس علاقے کی تین چوتھائی آبادی نے ریفرنڈم میں ووٹ دیا۔ 93 فیصد نے آزادی کا فیصلہ دے دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نتیجے کے فوری بعد عراقی پارلیمنٹ نے اس کے خلاف قرارداد منظور کی۔ عراقی سپریم کورٹ نے اس ریفرنڈم کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔  ایران اور ترکی، جو ایک دوسرے کے خلاف اپنی پراکسی جنگیں یہاں پر بھی لڑتے آئے تھے اور شام میں لڑ رہے تھے، اس مشترک خطرے کے خلاف فوراً اکٹھے ہو گئے۔ چالیس برس بعد پہلی بار ایران اور ترکی کے فوجی سربراہان کی ملاقات ہوئی۔ ترکی کے صدر نے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی۔ عراقی سالمیت کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا۔ ایران نے اپنی فوج کو اس سرحد پر متحرک کر دیا۔ فضائی پابندیاں لگا دیں۔ کُرد بینکوں سے لین دین بند کر دیا۔ ترکی نے یہاں سے آنے والی تیل کی پائپ لائن بند کر دینے کی دھمکی دے دی۔ دونوں ممالک نے ہر طرح سے عراقی حکومت کی سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا، خواہ عسکری ہی کیوں نہ ہو۔ کردستان امریکہ کی مدد پر انحصار کر رہا تھا۔  امریکہ، جو اس خطے میں بڑے عرصے سے اس علاقے کی سیاست کو سمجھے بغیر اِدھر اُدھر ٹکریں مارنے والے ایک کنفیوز ہاتھی کا کردار ادا کرتا رہا تھا، اسے ان کی آزادی سے بھلا کیا دلچسپی تھی۔ اس نے عراقی حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس سب سپورٹ کے ساتھ عراق نے فوج کشی کر دی۔ کردستان کو کرکوک کے اہم علاقے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کردستان کو بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کو تجارتی راستے درکار تھے۔ یہ لینڈ لاکڈ ہے یعنی سمندر کے ساتھ نہیں لگتا۔ ہمسایہ ممالک کی واضح پالیسی اپنا لینے کے سبب چند ہفتوں کے اندر یہ ریفرنڈم کروانے والے برزانی کو حکومت اپنے مخالف کے حوالے کر کے مستعفی ہونا پڑا۔ 

ایک مرتبہ پھر، ان کو آزادی نہیں ملی۔

عراق کی اپنی حالت اب مستحکم ہے۔ عراقی کردستان کے ساتھ تعلقات بھی معمول پر آ رہے ہیں۔ عراقی کردستان نیم خودمختار ہے۔ عراق کی جغرافیائی سرحد کے اندر اس وقت سب سے خوشحال اور پرامن علاقہ۔  کردستان کے چار ممالک میں تقسیم ہو جانے والے حصوں میں سے یہ حصہ سب سے بہتر حالت میں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی پہلی تصویر میں عراقی کردستان کا نقشہ

دوسری تصویر اربیل شہر کی

تیسری تصویر ریفرنڈم کے روز کی

چوتھی تصویر عراق میں لڑنے والی پشمرگا کی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں