باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 15 دسمبر، 2019

زمین میں چھلانگ



اگر ہم زمین کے آر پار ہونے والی ایک سرنگ بنا سکتے جو زمین کے مرکز تک پہنچ سکتی تو زمین کے درمیان تک پہنچنے میں اکیس منٹ لگتے۔ ظاہر ہے کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ اس سرنگ کو سورج کی سطح جتنا درجہ حرارت سہنا پڑے گا اور زمین کی سطح کے مقابلے میں ۳۵ لاکھ گنا زیادہ پریشر برداشت کرنا پڑے گا۔ ایسا کوئی میٹیریل نہیں جو ان حالات کو برداشت کر پائے لیکن فرض کرتے ہیں کہ ایسا سفر کرنا ممکن ہوتا تو چلیں پھر اپنی زمین گاڑی لے کر اس سرنگ میں چھلانگ لگاتے ہیں۔

جس طرح ہم نے اس میں چھلانگ لگائی، زمین کی گریویٹی نے مرکز کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ ایک منٹ سے کم عرصے میں ہم زمین کی کرسٹ کو پار کر گئے، جو اس کے باہر کا سخت خول ہے۔ 35 کلومیٹر کی موٹائی اور زمین کے ماس کا محض ایک فیصد۔ زلزلوں کی لہروں سے ریس لگاتے ہم اب زمین کے سب سے بڑے حصے مینٹل کے اوپر ہیں۔ زمین کا نصف حجم اور 68 فیصد ماس رکھنے والا۔ اوپری مینٹل کی کثیف چٹانیں پلاسٹک کی طرح بہتی ہیں۔ ان سے گزر کر چند منٹ میں 660 کلومیٹر کی گہرائی میں پہنچے تو ایک اہم تبدیلی نظر آئی۔ نچلے مینٹل کی بیس پر آٹھ منٹ میں اس سیارے کا ایک پرسرار حصہ ہے جہاں عجیب سٹرکچر پائے جاتے ہیں اور سمندر کی تہہ کا ملبہ نیچے کا سفر کر کے یہاں پہنچتا ہے۔ جبکہ یہاں سے ایک پلُوم (کلغی) کی صورت میں ریسائیکل ہو کر گرم چٹان کی صورت میں واپس اوپر کو جاتا ہے۔ یہاں سے ان چٹانوں کو اوپر پہنچتے ہوئی کئی سو ملین برس لگیں گے، (اگر یہ اوپر تک کا سفر مکمل کر سکا تو)۔

مینٹل کی تہہ پر پہنچ کر اس سفر میں حیرت کے سب سے بڑے جھٹکے کی لئے تیار ہو جائیں۔ اس سفر میں منظر کی اتنی بڑی تبدیلی اور کہیں نہیں۔اچانک 2890 کلومیٹر کی گہرائی پر اس چٹانوں والے حصے کو پار کر کے مائع دھات شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بیرونی کور ہے۔ مریخ کے سائز جتنی۔ زمین کا دس فیصد حجم لیکن ستائیس فیصد ماس۔ اگلے دو ہزار کلومیٹر تک ہم بغیر سورج کے سمندر میں ایک آبدوز کی طرح کا سفر کر رہے ہیں، اس کے گرداب، سلو موشن کے طوفان اور مائع دھات کے سائیکلون جو اپنے ساتھ برقی اور مقناطیسی فیلڈ رکھتے ہیں۔

اب اگلے حیرت کا جھٹکا آٹھ منٹ کے بعد کا ہے۔ 5100 کلومیٹر نیچے ایک انتہائی کثیف گیند جو خالص لوہے اور نکل کی ہے۔ اس کی لہروں جیسی تہہ ایسے لگ رہی ہے جیسے لوہے کے دیوہیکل درخت اگے ہوں۔ یہ کرسٹل کور ہے۔ سیارے کے حجم کا آدھ فیصد، چاند سے چھوٹی لیکن دو فیصد ماس اس کا ہے اور یہ زمین کا گہرا ترین اسرار یہاں پر ملے گا۔ یہاں پر لوہے کے کرسٹلز سے گزریں گے جو ایک سو کلومیٹر کی لمبائی کے ہو سکتے ہیں۔

ہماری زمین گاڑی کی رفتار اب 29000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو چکی ہے اور ہم مرکز تک پہنچ گئے ہیں۔ اب ہم بے وزن ہیں۔ اسی رفتار کی وجہ سے اب ہم بڑھتے جائیں گے۔ یہ سفر الٹی طرف کا ہو گا۔ وزن واپس آنا شروع ہو جائے گا۔ واپس مینٹل اور پھر کرسٹ کی طرف جو ٹوٹے ہوئے بڑی حصوں کی صورت میں ہے اور ہم اس کو ٹیکٹانک پلیٹ کہتے ہیں۔ اور پھر ہم سطح تک پہنچ جائیں گے۔ (اس مفروضاتی سوراخ میں سے ہوا نکال دی جائے تو اچھا ورنہ فرکشن کی وجہ سے سطح تک بغیر توانائی کے استعمال کے نہیں پہنچ سکیں گے)۔

عام طور پر اس کا ہم کم ہی سوچتے ہیں لیکن خشکی کے ٹکڑوں کو اس راستے سے ملانے کا راستہ براستہ مرکز بہت ہی کم جگہ پر ہے۔ زمین پر خشکی کے دوسری طرف تقریباً ہر جگہ سمندر ہے۔ ماسوائے چلی اور چین، سپین اور نیوزی لینڈ کے، اس سفر کو اگر خشکی سے شروع کریں گے تو بیالیس منٹ میں دوسری طرف ہمیشہ سمندر میں نکلیں گے۔

کیا ہم یہ سفر کر سکتے ہیں؟ ممکن ہے کہ کبھی ہم دور دراز کے ستاروں تک پہنچ سکیں، لیکن یہ والا سفر شاید پھر بھی پہنچ سے باہر رہے گا۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں