باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 24 جنوری، 2020

سافٹ وئیر کا بزنس


یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب سافٹ وئیر کو ایک اضافی چیز سمجھا جاتا تھا۔ ہارڈوئیر بنانے والی کمپنیاں اپنا سافٹ وئیر یا تو خود بنا لیتی تھیں یا پھر کسی کو ٹھیکے پر کام دے دیا جاتا تھا۔ یہ سافٹ وئیر ان کی اپنی ہی مشینوں پر چلتا تھا۔ یہ اس وقت 1970 کی دہائی میں تبدیل ہوا جب گیٹس اور ایلن نے پہلی بار ایک انٹرپریٹر بنایا اور پھر ایک آپریٹنگ سسٹم DOS بنایا۔ گیٹس کا خیال تھا کہ اگر ایک سافٹ وئیر سسٹم ایسا بن جائے جو ہر مشین پر چل سکے تو اس سافٹ وئیر کی اپنی الگ سے ویلیو ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہو گی جس کو مشین کے ساتھ دے دیا جائے۔ آج یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یہ کس قدر انقلابی خیال تھا۔ لیکن مائیکروسوفٹ کی پیدائش اس خیال کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ لوگ سافٹ وئیر کی قیمت ایک ہی بار ہارڈوئیر کی خرید پر ادا نہ کریں بلکہ ہر سافٹ وئیر پروگرام کو اس کی خاصیتیوں اور اپنی ضرورت کے حساب سے خریدیں۔ ڈوس آپریٹنگ سسٹم نے جو کام کیا وہ یہ کہ الگ ہارڈوئیر کے جو فرق تھے، اس کو اپنے اوپر چلنے والے سافٹ وئیر کے لئے چھپا لیا۔ کمپیوٹر چاہے آئی بی ایم سے خریدا جائے، ڈیل سے، ایسر سے یا کسی بھی اور سے۔ اس کے اوپر چلنے والا آپریٹنگ سسٹم ایک ہی تھا۔ اس نے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کو ایک کموڈوٹی بنا دیا۔ اور اصل ویلیو اس سافٹ وئیر کی طرف منتقل ہو گئی، جو ڈوس کے اوپر کام کر رہا ہو۔ اس کے لئے ہر صارف سے الگ پیسے لئے جا سکتے ہیں اور یوں ۔۔۔ مائیکروسوفٹ بہت امیر ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اب سافٹ وئیر کے اتنے عادی وہ گئے ہیں کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کرتا کیا ہے۔ “سافٹ وئیر کا بزنس کیا ہے؟” کا جواب مائیکروسوفٹ ریسرچ کے چیف کریگ منڈی ایسے دیتے ہیں کہ “یہ وہ جادوئی چیز ہے جو پیچیدگی کو غائب کر دیتئ ہے۔ ایک سافٹ وئیر ایک مسئلے کو حل کر دیتا ہے اور اس سے اگلا شخص اس کو استعمال کرتے ہوئے مسئلے کی اگلی تہہ سے کام شروع کرتا ہے۔ یہ لکیر جس طرح اوپر چلتی جاتی ہے، لوگ نئی چیزیں ایجاد کرتے جاتے ہیں اور اس کا مجموعی اثر یہ ہے کہ سافٹ وئیر جگہ جگہ سے پیچیدگی کو چھپاتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پیچیدہ تر چیزیں بنانا آسان ہوتا جا رہا ہے۔

اگر ہم گوگل فوٹوز کو دیکھیں تو اس وقت یہ سافٹ وئیر تصویر میں سے بہت کچھ پہچان لیتا ہے۔ اگر بیس برس پہلے آپ نے ڈھونڈنا ہوتا کہ کچھ سال پہلے جس تفریحی مقام گئے تھے، اس کی تصاویر دوبارہ دیکھی جائیں تو شاید کئی ڈبوں میں سے تصاویری البم کنگھالنے پڑتے۔ پھر فوٹوگرافی ڈیجیٹل ہوئی تو اس کو ڈیجیٹل صورت میں رکھنا ممکن ہوا اور انیٹرنیٹ کے ذریعے تصاویر آن لائن اپلوڈ کر دینا ممکن ہو گیا۔ اب گوگل فوٹوز ان کو سٹور کر سکتا ہے، منظم کر سکتا ہے، لیبل لگا سکتا ہے اور پہچاننے والے سافٹ وئیر کی مدد سے یہ بتا سکتا ہے کہ فلاں تصویر برف پوش پہاڑ کی ہے یا ساحلِ سمندر کی۔ آپ آسانی سے چند کلک کر کے اپنی مطلوبہ تصویر تک پہنچ سکتے ہیں۔ آواز کی مدد سے بھی اس کو تلاش کر سکتے ہیں۔ سافٹ وئیر نے یہ ساری پیچیدگی چھپا دی ہے۔ تصویر کو سٹور کیسے ہونا ہے، اس کی ترسیل کیسے ہونی ہے۔ اس کو پراسس کیسے کئے جانا ہے۔ اس کی تنظیم کیسے ہونی ہے۔ تہہ در تہہ سافٹ وئیرز نے اس سب پیچیدگی کو چھپا دیا ہے۔ ایک تہہ میں کام کرنے والے سافٹ وئیر ڈویلیپر کو دوسرے تہہ کی تفصیل جاننے کی ضرورت نہیں۔ اور بطور ایک صارف آپ کو کچھ بھی جاننے کی ضرورت نہیں۔ آپ اس سب سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی وقت میں آپ سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر انتظار کرتے تھے اور ہاتھ ہلا کر پکارتے تھے، “ٹیکسی، ٹیکسی”۔ ٹیکسی پاس سے گزر جاتی کیونکہ اس میں پہلے ہی مسافر تھے۔ اگر کسی ٹیکسی کی کمپنی کو فون کریں اور وہ کہے کہ دس منٹ میں پہنچ رہی ہے تو نہ ہی آپ کو یقین ہوتا کہ اس کا مطلب ہے کہ دس منٹ اور نہ ہی ٹیکسی کی کمپنی والے کو۔ اب اس سارے کام، پکارنا، تلاش کرنا، شیڈول کرنا، ٹیکسی بھیجنا، پیسے ادا کرنا، یہ دیکھنا کہ گاڑی کہاں تک پہنچی اور یہاں تک کہ ٹیکسی والے کے بارے میں اپنی رائے بتانا ۔۔۔ ایک ایک تہہ کر کے چھپ چکا ہے اور آپ کے سمارٹ فون پر کاریم یا اوبر جیسے ایپلی کیشنز کی صورت میں موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمپیوٹر اور سافٹ وئیر کی تاریخ تہہ در تہہ پیچیدگی کو چھپا کر استعمال کرنے کی تاریخ ہے۔ اور اس کو بنانے والے جس جادو کو استعمال کرتے ہیں وہ API کہلاتا ہے۔ ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس۔ یہ وہ پروگرامنگ کمانڈز ہیں جن کی مدد سے کمپیوٹنگ آپ کی خواہشات بجا لاتی ہے۔ آپ جو ایپلی کیشن لکھ رہی ہیں، اس پر ایک “Save” کا بٹن چاہتے ہیں جس کو دبانے سے فائل فلیش ڈرائیو میں محفوظ ہو جائے؟ اس کے لئے آپ اے پی آئی کا سیٹ بنا لیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج بہت سے ڈویلپر، ویب سائٹس اور سسٹم ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام چل رہے ہیں۔ کمپنیاں اپنی اے پی آئی شئیر کرتی ہیں تا کہ دوسرے اپنی سروس اور ایپلی کیشنز کو استعمال کر سکیں۔ ایمیزون سے اپنی کتاب خریدنے کا لنک اپنی سائٹ پر دینا چاہتے ہیں؟ ایمیزون کی اے پی آئی استعمال کر لیں۔ اس کی مدد سے ویب سروسز کا ایک جال بچھتا جا رہا ہے۔ گوگل، فیس بک، ٹوئٹر یا بہت سے دوسری کمپنیاں یہ مہیا کرتی ہیں اور ان کی مدد سے آپ بالکل نئی ایپلی کیشن اور سروس بنا سکتے ہیں۔ اور جدید ویب اسی طرح ممکن ہوا ہے۔ اگر آپ اینڈرائیڈ پر اپنی ایپلی کیشن سے کسی ہوٹل کا پتا دینا چاہ رہے ہیں تو گوگل میپ کو استعمال کر لیں گے۔ یہ تمام نقشے خود سے بنانے کی ضرورت نہیں۔

اس طرح کی انٹیگریشن “سیم لیس” یا بے جوڑ کہلاتی ہے۔ صارف کبھی نوٹ بھی نہیں کرتا کہ اس کو کونسی چیز کہاں سے مل رہی ہے۔ ہر اے پی آئی خود کیا کچھ چھپائے ہوئے ہے؟ اس کا پتا اس ایپلی کیشن بنانے والے کو بھی نہیں ہوتا۔ ایک کمپیوٹر میں پیغام لے جانے والے پروٹوکول، پیغامات کے فارمیٹ کا علم ہوئے بغیر ہی پروگرامر ایک نیٹورک کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور یہ سب جانے بغیر ہونے والے اس بے جوڑ ملاپ سے آپ روز اپنی کمپیوٹر، فون اور ٹیبلٹ پر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

اوبر، ائیر بی این بی، سکائپ، ایمیزون، ٹرپ ایڈوائزر، گوگل، ٹوئٹر، فوڈ پانڈا، فیس بک اور ایسی تمام پراڈکٹس اس طرح کے ہزاروں ورٹیکل اور ہوریزینٹل ملاپ کا نتیجہ ہیں۔ یہ ٹریفک کئی ملین مشینوں پر نیٹ ورک پر جاری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمپیوٹنگ کا انقلاب اس وجہ سے ممکن ہوا کہ ہم کئی ملین مشینوں کو جوڑ کر ان سے کام لے سکتے ہیں۔ کیا کئی ملین سافٹ وئیر بنانے والے انسانوں کا نیٹورک بھی بنایا جا سکتا ہے؟ جی ہاں۔ اور اس میں سب سے بڑا بریک تھرو 2007 میں کی گئی ایجاد تھی۔ انسانوں کے نیٹورک بنانے والی اس جدت کو اس وقت دنیا بھر سے چار کروڑ پروگرامر استعمال کر رہے ہیں۔

 (جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں