باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 11 مارچ، 2020

سرگوشی ۔ جین پر کتاب

یہ کتاب سائنس کی تاریخ کے سب سے طاقتور اور خطرناک خیال کی پیدائش، بڑھنے اور مستقبل کی کہانی ہے۔ “جین”۔۔ وراثت اور بائیولوجیکل انفارمیشن کا بنیادی یونٹ۔

اس میں “خطرناک” کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی میں تین سائنسی آئیڈیاز گہری تبدیلیوں کی بنیاد بنے۔ ایٹم، بائیٹ اور جین۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی ایک سائنسی تصور کے طور پر شروع کی تھی لیکن بڑھتے بڑھتے انہوں نے انسانی رہن سہن کے بہت سے پہلووٗں کو گرفت میں لے لیا۔ کلچر، معاشرہ، سیاست اور زبان کو تبدیل کر دیا۔ ان تینوں خیالات میں سب سے اہم متوازی چیز تصور کی تھی۔ تینوں ایک ناقابلِ تقسیم اکائی تھے۔ ایک بڑے کُل کی تنظیم کا بنیادی یونٹ۔ ایٹم مادے کا، بائیٹ (یا بِٹ) ڈیجیٹل انفارمیشن کا اور جین وراثتی اور بائئیولوجیکل انفارمیشن کا۔

ایک بڑی چیز کا ناقابلِ تقسیم یونٹ ہونے کی خاصیت اس قدر طاقتور خیال کیوں ثابت ہوئی؟ اس لئے کہ مادہ، انفارمیشن اور بائیولوجی اصلاً ہائیرارکی والی تنظیم رکھتے ہیں۔ آپ کسی جملے کو اس وقت سمجھ سکتے ہیں جب آپ کو اس کے الفاظ سمجھ آتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ جملہ صرف الفاظ کا جمگھٹا نہیں۔ ان الفاظ کی جمع سے زیادہ ہے۔ لیکن الفاظ کو سمجھنا بنیادی شرط ہے۔ یہی جینز کے ساتھ ہے۔ ایک جاندار جینز سے بہت زیادہ بڑھ کر ہے لیکن کسی جاندار کو سمجھنے کے لئے جینز کو سمجھنا پڑتا ہے۔ جب ہیوگو ڈی ورائز کو 1890 میں جین کے تصور کا سامنا ہوا تھا تو انہوں نے جلد ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ ہماری فطری دنیا کو سمجھنے کے خیالات کی تشکیلِ نو کرے گا۔ انہوں نے لکھا تھا، “تمام حیاتیات چند فیکٹرز کا بے تحاشا کمبی نیشن کے ساتھ ہونے والا ملاپ ہے۔ جس طرح فزکس اور کیمسٹری میں ہم ایٹم اور مالیکیول تک جاتے ہیں، بائیولوجیکل سائنس کو ان اکائیوں (جین) کا کھوج لگانا پڑے گا جو جانداروں کی دنیا کی وضاحت کریں گے”۔

ایٹم، بائیٹ اور جین اپنے اپنے سسٹم میں نئی سائنسی اور ٹیکنالوجیکل سمجھ لے کر آتے ہیں۔ سونا کیوں چمکتا ہے؟ ہائیڈروجن کیوں آکسیجن سے مل جاتی ہے؟ آپ مادے کی خاصیت اس کی ایٹامک خاصیت تک پہنچے بغیر نہیں جان سکتے۔ نہ ہی کمپیوٹنگ کی پیچیدگی ۔۔۔ الگورتھم کی نیچر، سٹوریج یا ڈیٹا کرپشن ۔۔۔ کو ڈیجیٹل انفارمیشن کی سٹرکچرل اناٹومی کے بغیر سمجھ سکتے ہیں۔ الکیمیا کو کیمسٹری تک پہنچنے کے لئے ان بنیادی یونٹس کی دریافت درکار تھی۔ اس طرح جاندار کی اور خلیے کی بائیولوجی، ایوولیوشن، انسان کی بیماریاں، رویہ، مزاج، پیتھالوجی، نسل، شناخت اور قسمت کو جین کے تصور سے ہٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔

ایک اور دوسرا مسئلہ بھی ہے۔ ایٹامک سائنس مادے سے چھیڑچھاڑ کیلئے ضروری تھی۔ اسی چھیڑ چھاڑ نے ایٹم بم کو جنم دیا۔ جین کے بارے میں ہماری سمجھ ہمیں جانداروں پر کنٹرول کی صلاحیت دیتی ہے۔ جینیاتی کوڈ بہت سادہ ہے۔ صرف ایک مالیکیول میں ہے اور صرف ایک کوڈ رکھتا ہے۔ وراثت کے اس پہلو کی سادگی اس سے چھیڑ چھاڑ کا دروازہ کھول دیتی ہے۔

جین کے بارے میں ہماری سمجھ اور گہرائی اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یہ کام ہم اب صرف ٹیسٹ ٹیوب میں نہیں بلکہ انسانی خلیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ جین کروموزوم پر رہتی ہے۔ خلیے کے اندر لمبی تار جیسے سٹرکچر جن میں زنجیر کی صورت میں جین موجود ہوتی ہیں۔ انسان میں چھیالیس کروموزوم ہیں۔ تئیس والدہ سے آتے ہیں، تئیس والد سے۔ جینیاتی ہدایات کا سیٹ جینوم کہلاتا ہے۔ اکیس سے تئیس ہزار کے درمیان جینز انسان کو بنانے کی ترکیب ہیں۔ اکیسویں صدی کی پہلے دو دہائیوں میں ہم اس بارے میں بہت کچھ سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ان میں ترمیم کا مطلب فنکشن میں تبدیلی ہے۔ انسان میں ترمیم ہے۔

جین کی وضاحت سے جین میں ترمیم کا سفر۔۔۔  یہ وہ شعبہ ہے جس کے مضمرات سائنس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔ انسانی شناخت، جنس اور مزاج کو سمجھنا ایک چیز ہے۔ اس میں تبدیلی کرنا بالکل ہی مختلف معاملہ۔ پہلی چیز کا تعلق نفسیات کے پروفیسرز یا نیوروسائنس کے سائنسدانوں سے ہے۔ دوسری کا تعلق ۔۔  اس کے فوائد اور خطرات کا ہم سب سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے چند برسوں میں ہم انسانی جینوم کو پڑھنے اور انسانی جینوم میں لکھنے تک بہت پیشرفت کر چکے ہیں۔ یہ جاننے کے لئے مالیکیولر بائیولوجی، فلسفے یا تاریخ میں ایڈوانسڈ ڈگری نہیں چاہیے کہ یہ دونوں ٹیکنالوجیز ملکر ہمیں نامعلوم دنیا میں لے کر جا رہی ہیں۔ ایک بار اگر ہم انفرادی جینوم سے قسمت معلوم کر سکیں (خواہ اس کا تعلق امکانات سے ہی ہو) اور ایک بار ہم وہ ٹیکنالوجی حاصل کر لیں جو ان امکانات کو بدل سکے تو یہ ہمارے مستقبل میں ہونے والی ناقابلِ واپسی تبدیلی ہے۔  “ہماری انسان کو سمجھنے کی اور اس کے جینوم میں ترمیم کی صلاحیت اس تصور کو تبدیل کر دیتی ہے کہ انسان ہونے کا مطلب کیا ہے”۔  ہائیزبرگ اصول کا جینیات میں متوازی جارج اورویل کا یہ فقرہ ہے کہ “ہمارا انسان کو سمجھ لینا انسان کو سمجھ لینے کو بے معنی کر دے گا”۔

ایٹم نے ہمیں جدید فزکس کی تنظیم کے اصول دئے۔ ساتھ ہی مادے اور توانائی سے کھیلنے کے امکان بھی۔ جین ہمیں جدید بائیولوجی کی تنظیم کے اصول دیتی ہے اور ہمارے جسم اور قسمت سے کھیلنے کا امکان بھی۔

ہماری ہزاروں سال پرانی خواہشات ہیں، جو ہمارے قصوں کہانیوں، فلموں، سائنس فکشن اور فرد کی خواہشات میں نظر آتی ہیں۔ ان خواہشات کا منبع ہمارا جینوم ہے۔ آبِ حیات کی، ہمیشہ جوان رہنے کی، موت کو موخر کرنے کی، قسمت بدلنے کی، غیرمعمولی صلاحیتوں کی، انسان کی پرفیکشن کی۔

ساتھ ساتھ ہمارے ہزاروں سال پرانے شوق ہیں۔ دنیا کو سمجھنے کے، خود کو پڑھنے کے اور اپنا انسٹرکشن مینوئل جان لینے کے۔

جین کی کہانی ان دونوں کا ایک دوسرے کی طرف سفر ہے اور یہ اس کا مرکزی کردار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈی این اے ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے؟ ڈی این اے کسی کتاب کی طرح کی انسانی تخلیق نہیں جو ایک بلیوپرنٹ یا کتاب کی طرح خاص معنی رکھتا ہو۔ اس کی باتوں میں ہمیں وہ سنائی دیتا ہے جو ہم سمجھنا چاہیں اس لئے یہ معنی سمجھنا احتیاط والا کام ہے۔ کسی کاہن کے کہے گئے مبہم اور پیچیدہ الفاظ کی طرح۔

یونان میں ڈیلفی اوریکل کے پاس جانے والے ہمیشہ اپنے پوچھے گئے سوالات کے گہرے جوابات لے کر واپس آتے تھے لیکن وہ ہمیشہ ویسے نہیں نکلتے تھے جو انہوں نے سمجھا ہوتا تھا۔ جنرل اور بادشاہ کروسس نے ایک بار ڈیلفی سے پوچھا تھا کہ کیا انہیں ایک دوسرے بادشاہ سے اعلانِ جنگ کر دینا چاہیے؟ ڈیلفی نے جواب دیا تھا، “تم ایک عظیم سلطنت تباہ کرو گے”۔ کروسس نے ایسا ہی کیا اور اوریکل کی پیشگوئی ٹھیک ثابت ہوئی۔ صرف یہ کہ تباہ ہونے والی سلطنت ان کی اپنی تھی۔

سقراط کو اوریکل نے بتایا تھا کہ “کوئی بھی تم سے دانا نہیں”۔ سقراط کو اس پر شک تھا۔ انہوں نے اپنے ارد گرد کے دانا لوگوں کو ٹٹولا۔ اس سے انہیں احساس ہوا کہ دوسرے بھی کم علم ہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کو اپنی کم علمی کا اھساس نہیں۔ سقراط خود اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے تھے اور جن باتوں کا علم نہیں تھا، ان کے بارے میں جاننے کی خودفریبی کا شکار نہیں تھے۔ یہ کا کم علمی کا یہ ادراک ہی ان کو دانا بناتا تھا۔ اوریکل نے ٹھیک کہا تھا۔

کروسس اور سقراط، دونوں میں سچ وقت کے ساتھ سامنے آ گیا۔ جب حقائق اور شواہد اکٹھے کئے اور مبہم حصے کو چھان لیا گیا۔ ڈی این اے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ سرگوشی کر دیتا ہے۔ اس کو سمجھ لینا وقت لیتا ہے۔

لیکن ڈیلفی کے برعکس ہمارا اوریکل ابھی باتیں کر رہا ہے۔ اپنے بڑے سادہ سے آغاز سے اب تک، بل پیچ والا مالیکیول بل پیچ والی تاریخ کے ساتھ طرح طرح کے کارناے انجام دے چکا ہے۔ ایسے جاندار تخلیق کر چکا ہے جو اتنے عقلمند ہیں کہ نہ صرف اس کو پڑھ لیتے ہیں بلکہ یہ بھی پہچان رہے ہیں کہ یہ کس طرح ان کو محدود کر دیتا ہے۔ اس نے ہمارے ماضی کے وہ گوشے اور کہانیاں آشکار کیں جن کے بارے میں خیال تھا کہ ہمشیہ کے لئے گم ہو چکیں۔ اور ہمیں دماغ اور تجسس کا تحفہ دیا کہ آنے والے وقت میں اس سے کھیلتے رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کتاب جین اور جاندار کے اس دائرے کی تاریخ، مکینکس، سائنس اور مستقبل کی کہانی ہے۔ جین کی بھی اور ہماری بھی۔ کیونکہ جین اور جاندار کو جدا کیا ہی نہیں جا سکتا۔


اس کتاب کو ڈاون لوڈ کرنے کا لنک
http://www.lulu.com/shop/wahara-umbakar/gene/ebook/product-24461291.html

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں