باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 6 اگست، 2020

پیادہ، ملکہ اور بادشاہ

پاکستان نے ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ کیا ان تبدیلیوں سے کیا فرق پڑے گا؟ یہ تو ماہرین بہتر جانتے ہوں گے۔ ان سارے ماہرین کے پاس سے چپکے سے نکل کر اور آنکھ بچا کر ایک نظر اس پر، کہ یہ تبدیلیاں ہیں کیا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نقشے میں 1947 کے وقت کی ریاستِ جموں و کشمیر کی پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ البتہ اس میں سے اس حصے کو باہر رکھا گیا ہے جو چین کے پاس ہے۔ اکسائی چن لداخ کا بڑا حصہ ہے جسے انڈیا ریاستِ جموں کشمیر کا حصہ کہتا ہے اور اس پر اپنا حق بتاتا ہے۔ جبکہ چین کو انڈیا سے اختلاف ہے۔ پاکستان نے اس نقشے میں لداخ کو شامل کیا ہے لیکن اکسائی چن کو نہیں۔ اس طرح اس نقشے میں شاکسگام وادی نہیں ہے۔ یہ چین کے پاس ہے اور پاکستان نے یہاں چین سے معاملہ طے کیا تھا۔ انڈیا اس کو اپنا حصہ کہتا ہے اور معاہدے کو تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان نے ریاست جموں کشمیر کے ان دونوں حصوں کو اس نئے نقشے میں ریاست جموں کشمیر سے نکال دیا ہے۔ پاکستان کے جاری کردہ ابتدائی برسوں کے نقشوں میں “متنازعہ علاقہ” میں یہ علاقے شامل ہوا کرتے تھے۔ اب صرف انڈیا کے زیرِ انتظام تمام علاقے کو مقبوضہ حصہ دکھایا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنوب مغرب میں پاکستان نے سرکریک کو پاکستان کا حصہ دکھایا ہے۔ یہ چھیانوے کلومیٹر لمبی بہت پتلی سے پٹی ہے جو سندھ کے ساحل کے ساتھ ہے اور انڈیا میں کَچھ کے ساتھ۔ یہاں پر مچھلیاں اچھی ملتی ہیں۔ آپ خبروں میں انڈیا اور پاکستان کے مچھیروں کے پکڑے جانے کا سنتے ہوں گے جن کی کشتیاں بھی ضبط کر لی جاتیں ہیں اور انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں سال میں ایک دو بار ان کی رہائی اور تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ وہ والا علاقہ ہے جہاں سے یہ مچھیرے پکڑے جاتے ہیں۔ یہاں کے پانیوں کی ہیرا مچھلی (red snapper) مشہور ہے۔ یہ مچھلی کے شوقینوں میں پسند کی جاتی ہے اور اچھے داموں بکتی ہے۔ اب اس کریک کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ خود اپنی شکل بدلتی رہتی ہے۔ اور یہ نچلے کی بہت ہی ناموافق جگہ ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ تمام کریک اس کی ہے۔ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس کا نصف اس کا ہے۔ مچھیروں کے لئے نصف کا پتا لگانے کا بھی طریقہ نہیں۔ اس لئے یہ بے چارے اس مچھلی کی تلاش میں گرفتار ہوتے رہتے ہیں۔ اس نقشے میں پاکستان نے اس تمام کریک کو اپنے نقشے میں شامل کر لیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے مشرق میں جوناگڑھ کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جہاں مشہور سومنات کا مندر ہے۔ اور گجرات کی ریاست کا حصہ ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے یہ نوابی ریاست ہوا کرتی تھی جس کے حکمران مہابت خان سوئم تھے۔ یہاں پر پہلے ایک وضاحت۔ تمام نوابی ریاستوں میں ریاست سے حاصل شدہ ٹیکس کا تمام پیسہ حکمران کی ذاتی ملکیت ہوا کرتا تھا۔ ماسوائے چند ایک جگہ پر استثنا کے، اس کا استعمال بھی خاصا “دلچسپ” طریقے سے کی جاتا تھا۔ مہابت خان بھلے انسان تھے اور کئی سے بہتر بھی۔ لیکن ان کا مشہور شوق اپنے کتوں کی شادی تھا جو بہت دھوم دھام سے کی جاتی تھی اور آس پاس کے سرداروں، راجوں، مہاراجوں، خانوں اور نوابوں کو بلایا جاتا تھا۔ جوناگڑھ کی آبادی تراسی فیصد ہندو تھی اور نواب مسلمان (یہ کشمیر کے برعکس تھا)۔ ایسی ہی صورتحال حیدرآباد کی ریاست میں تھی جو آج تلنگانہ اور آندھرا میں ہے۔

حیدرآباد، کشمیر اور جوناگڑھ۔ یہ تین ریاستیں تھیں جہاں حکمران ریاست کے اقلیتی مذہبی گروہ سے تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقسیم کے رولز کے مطابق یہ حکمران کا حق تھا کہ وہ کس سے الحاق کرے اور اس پر انڈیا اور پاکستان اپنی اپنی کوشش کر رہے تھے۔ جوناگڑھ کے نواب نے سردار پٹیل کو کہا تھا کہ وہ انڈیا سے الحاق کریں گے۔ یہ چھوٹی ریاست تھی اور پاکستان سے خاصی دور تھی۔ لیکن یہاں پر ایک اہم واقعہ ہوا۔  پندرہ مئی 1947 کو جوناگڑھ کے دیوان صحت کی خرابی کے سبب چلے گئے۔ (دیوان کو ریاست کا وزیرِاعظم کہا جا سکتا ہے)۔ ان کی جگہ پر نواب نے ایک سندھی سیاستدان کو دیوان مقرر کر دیا جو اس سے کچھ پہلے ہی وزیر بنے تھے۔ یہ شاہنواز بھٹو تھے (بعد میں ان کے بیٹے ذوالفقار اور پوتی بے نظیر پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے)۔ انہوں نے جوناگڑھ کی پالیسی اپنے ہاتھ میں لے لی۔ پندرہ اگست آیا اور جوناگڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ نہرو اور پٹیل نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسا کرنے کی ایک وجہ حیدرآباد تھی۔ پٹیل نے کہا کہ اگر بغیر کسی سرحد کے درمیان میں ایک ریاست پاکستان کے ساتھ مل سکتی ہے تو کل کو حیدرآباد بھی ایسا کر سکتا ہے۔ (حیدرآباد چاروں طرف انڈیا سے گھرا ہوا تھا)۔ حیدرآباد کے نظام نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے رضاکاروں کی اپنی فوج تشکیل دینا شروع کر دی تھی۔ انڈیا سے اس کا ایک سال کا سٹینڈ سٹل معاہدہ تھا کہ ایک سال تک نظام سوچنے کا وقت لے لیں۔ اس دوران نہ نظام فیصلہ لیں گے اور نہ انڈیا کوئی کارروائی کرے گا۔ (ویسا یہ معاہدہ جیسے کشمیر کے ساتھ کیا گیا تھا)۔

یہاں پر پٹیل نے کہا تھا کہ حیدرآباد، کشمیر اور جوناگڑھ پاکستان کی شطرنج کی بساط کے بادشاہ، ملکہ اور پیادہ ہیں۔ یعنی ان تینوں میں سب سے اہم حیدرآباد ہے جو بادشاہ ہے۔ پھر کشمیر جو ملکہ ہے اور جوناگڑھ ان میں پیادہ ہے۔ راج موہن گاندھی کی کتاب سے بھی اور نومبر 1947 میں پٹیل کی اپنی کی گئی تقریر سے بھی پتا لگتا ہے کہ  پٹیل ابتدائی مہینوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ ملکہ کے بدلے بادشاہ کا سودا کر لیا جائے یعنی کشمیر دے کر حیدرآباد لے لیں اور معاملہ نمٹ جائے۔

پٹیل نے جوناگڑھ میں تقریر میں کہا کہ پاکستان یہ سوچ رہا ہے کہ ملکہ کو پیادے کے عوض حاصل کر لیا جائے یعنی تجارت جوناگڑھ کے عوض کشمیر کی ہو۔ اور وہ ایسا سودا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ 13 ستمبر کو پاکستان نے جوناگڑھ کی طرف سے کی گئی الحاق کی پیشکش کو تسلیم کر لیا۔ یہ انڈین قیادت کے لئے ایک شاک تھا۔ اور اس کو ایک شرارت قرار دیا گیا۔ اور توجہ اس پیادے کو شطرنج کے بورڈ سے ہٹانے پر ہو گئی۔ اگرچہ حملہ نہیں کیا لیکن بحری جہازوں نے بندرگاہ بند کر دی اور ملٹری سرحد پر لائی گئی۔ (انڈیا اس کو تسلیم نہیں کرتا لیکن یہ آپریشن پیس تھا جو جوناگڑھ میں کیا گیا)۔ انڈیا نے جوناگڑھ عبوری حکومت بھی ممبئی میں بنا لی جس کے سربراہ سمل داس گاندھی تھے۔

نواب کو اندازہ ہو گیا کہ انڈیا یہ الحاق تسلیم نہیں کرے گا۔ انہوں نے ایک جہاز لیا۔ اپنی فیملی، خزانے کا تمام کیش اور قیمتی سامان اور ساتھ اپنے تمام کتوں سمیت کراچی آ گئے۔ ریاست شاہنواز بھٹو کے پاس آ گئی۔ اگرچہ الحاق انہی کا آئیڈیا تھا لیکن اب ہر لحاظ سے ناقابلِ عمل لگ رہا تھا۔ ان کے پاس تنخواہ دینے کے پیسے بھی نہیں تھے (وہ نواب لے گئے تھے)۔ ریاست کی عوام کا ساتھ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے سمل داس گاندھی سے رابطہ کیا کہ وہ آ کر حکومت چلانے میں مدد کریں۔ اس کے بعد کیسے ہوا؟ اس پر ایک سے زیادہ بیانات ہیں۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ جوناگڑھ انڈیا کے حوالے کر دیا گیا۔ شاہنواز بھٹو کا جناح کو لکھا گیا خط ہے، “یہ معاملہ باعزت طریقے سے طے ہونا چاہیے جس سے ہر کوئی مطمئن ہو۔ خون نہ بہے اور کسی کو مصیبت نہ ہو”۔ اس کے بعد انہوں نے ریاست کو راجکوٹ کے کمشنر کے حوالے کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقوامِ متحدہ کی قرارداد ۳۹ جو “پاکستان انڈیا کوئسچن” پر ہے جس میں کشمیر کا ذکر ہے، اس میں “دیگر معاملات” کا بھی لکھا ہے۔ اور وہ دیگر معاملات جوناگڑھ تھا۔ (پاکستان میں نہ ہی حیدرآباد اور نہ ہی جوناگڑھ کبھی بھی کوئی ایشو رہے ہیں۔ بڑا ایشو ہمیشہ سے صرف کشمیر ہی رہا ہے یا پھر سرکریک جیسے معمولی نوعیت کے مسائل)۔   

سردار پٹیل 13 نومبر کو جوناگڑھ گئے اور پاکستان کو استصوابِ رائے کی پیشکش کی۔ فروری 1948 میں یہ منعقد ہوا۔ ایک لاکھ نوے ہزار نو سو ووٹ انڈیا کے حق میں اور اکانوے ووٹ پاکستان کے حق میں آئے۔ اس کے بعد اس سے ملحقہ پانچ ضلعوں میں ریفرنڈم ہوا۔ جہاں پر پاکستان کے حق میں انتالیس ووٹ آئے۔ جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے، ان کے لئے یہ معاملہ ہر لحاظ سے ریفرنڈم کے بعد بند ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شطرنج کی بساط کے بادشاہ کے ساتھ کیا ہوا؟ ایک سال ختم ہونے تک 1948 تک نظامِ حیدرآباد انڈیا سے اپنی تمام سرمایہ کاری نکال چکے تھے۔ انڈین کمپنیوں کے حصص اور بانڈ فروخت کر چکے تھے۔ اسلحہ خرید رہے تھے۔ اگرچہ ان کی ریاست کے چاروں طرف انڈیا ہی تھا لیکن خیال ہے کہ ان کا ارادہ عثمانستان کے نام سے آزاد ریاست قائم کرنے کا تھا۔ اس وقت انڈین ملٹری نے آپریشن پولو کیا گیا۔ نظام نے فوراً ہی سرنڈر کر دیا۔ ستمبر 1948 میں یہاں پر انڈین گورنر نے چارج سنبھال لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بساط کے تیسرے مہرے کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ لمبی اور پیچیدہ کہانی ہے لیکن بہت مختصر یہ کہ شطرنج کے اس کھیل میں بادشاہ، ملکہ اور پیادہ تینوں اپنے اپنے طریقے سے پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اب تو خیر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور انہیں ماضی کی یادیں ہی کہا جا سکتا ہے لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ “بھئی یہ کیا؟ ان تینوں ریاستوں کو حاصل کرنے کے لئے تینوں جگہ پر انڈیا نے الگ الگ منطق استعمال کی!”۔ تو ہاں، آپ درست کہہ رہے ہیں۔ اور یہی سیاست کی شطرنج کا کھیل ہے۔ اس بازی میں پاکستان تینوں مہرے ہار گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: وہارا امباکر

نوٹ: ساتھ لگی تصویر 1960 میں جاری کردہ ڈاک ٹکٹ کی ہے۔ اس میں متنازعہ علاقہ دکھائے جانے والے حصے میں اکسائی چن، لداخ، جموں وادی کشمیر، آزاد کشمیر اور بلتستان بھی تھا۔ جوناگڑھ کو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ یہ ٹکٹ تین زبانوں میں ہے۔ اس وقت کی پاکستان کی سرکاری زبان اور دو قومی زبانوں (اردو اور بنگلہ) میں پاکستان کا لفظ لکھا گیا ہے۔   

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں