باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 28 اکتوبر، 2020

پاسپورٹ

 

اگر آپ نے کبھی بین الاقوامی سفر کیا ہے تو سرحد پار کرتے وقت حکومت کی طرف سے جاری کردہ کتابچہ ہاتھ میں پکڑ کر قطار میں کھڑے ہونے کا تجربہ رہا ہو گا۔ یہ کتابچہ ایک سرکاری اہلکار کے حوالے کیا ہو گا جس نے غور سے یہ اس پر لگی تصویر کو اور آپ کو دیکھا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ تصویر میں آپ کا ہیرکٹ کچھ مختلف ہو، آپ زیادہ نوجوان لگ رہے ہوں اور اگر وہ تصویر آپ کی نہ ہوئی تو پھر مسئلہ ہو گا۔ وہ اہلکار آپ سے سفر کے بارے میں سوال کرے گی۔ آپ کا نام ان افراد کی فہرست سے چیک کیا جائے گا جو کسی بلیک لسٹ میں ہیں۔


جدید پاسپورٹ نئی جدت ہیں۔ لیکن سفر کرنے کے اجازت نامے مختلف اشکال میں کئی جگہوں پر تاریخ میں رہے ہیں۔ کئی بار یہ دھمکی ہوتی تھی جس میں کسی طاقتور شخص کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ اس رقعے کے حامل فرد کی حفاظت کی جائے ورنہ ۔۔۔۔   


اٹھارہویں صدی میں یورپی برِاعظم میں لوگوں کے کنٹرول کے لئے اجازت کا طریقہ استعمال ہونے لگا۔ فرانس کے شہریوں کو نہ ایک شہر سے دوسرے میں جانے کے لئے اجازت لینے کا طریقہ اٹھارہویں صدی میں شہروں نے شروع کیا۔ اس کا مقصد ہنرمندوں کو شہر میں محدود رکھنا تھا۔ انیسویں صدی میں ریلوے اور سٹیم شِپ کی آمد نے سفر تیز اور سستا کر دیا۔ پاسپورٹ سفر میں آڑے آنے لگا۔ نپولین سوئم نے اس کو جابرانہ اور شرمناک ایجاد کہا اور 1860 میں پاسپورٹ کا تصور فرانس سے ختم کر دیا گیا۔


اس کے بعد مزید ممالک نے پاسپورٹ ختم کئے۔ 1890 کی دہائی تک امریکہ داخل ہونے کے لئے کسی پاسپورٹ کی ضروورت نہیں تھی۔ جنوبی امریکہ میں پاسپورٹ کے بغیر سفر آئینی حق سمجھا جاتا تھا۔ چین اور جاپان میں بیرونی ممالک سے آنے والوں کو پاسپورٹ کی ضرورت صرف اس وقت پڑتی تھی، اگر وہ ساحلی شہر سے اندرونِ ملک جانے کے خواہشمند ہوں۔


بیسویں صدی کے آغاز تک دنیا کے صرف چند ممالک تھے جہاں پر ملک چھوڑنے یا داخلے کے لئے پاسپورٹ کی شرط تھی۔ اور خیال تھا کہ یہ بھی جلد ہی ختم ہو جائے گی۔


اور اگر ایسا ہوتا تو آج کی دنیا کیسی ہوتی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ستمبر 2015 میں عبداللہ کردی اپنی اہلیہ اور دو چھوٹے بچوں سمیت ترکی سے بوڈرم کے ساحل سے ایک کشتی پر سوار ہوئے تا کہ اڑھائی میل دور گریک جزیرے کوش تک پہنچ سکیں۔ موسم خراب ہو گیا اور کشتی الٹ گئی۔ عبداللہ کشتی سے چپک کر اپنی جان بچا لینے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی اہلیہ اور بچے خوش نصیب نہیں تھے۔


ان میں سے چھوٹے بچے تین سالہ آلان کردی کا جسم لہروں نے ساحل پر اگل دیا۔ ترکی کے ساحل کی ریت پر پڑی چھوٹے بچے کے مردہ جسم کی تصویر مہاجر بحران کی علامت بن گئی جس نے دنیا بھر میں کروڑوں آنکھوں کو اشکبار کر دیا۔


عبداللہ کردی کا ارادہ گریس رہنے کا نہیں تھا۔ ان کی خواہش کینیڈا پہنچنے کی تھی جہاں وہ نئی زندگی شروع کر سکیں۔ یہاں پر ان کی بہن ہئیر ڈریسر کا کام کرتی تھیں۔ ترکی سے کینیڈا پہنچنے کے لئے چھوٹی سے کشتی کو سمندر میں ڈالنے سے زیادہ بہتر طریقے موجود ہیں۔ اور عبداللہ کے پاس ایسا کرنے کے پیسے بھی تھے۔ انہوں نے انسانی سمگلروں کو چار ہزار یورو ادا کئے تھے۔ اس سے جہاز کی ٹکٹ بھی خریدی جا سکتی تھی۔ لیکن ان کا مسئلہ کچھ اور تھا۔


ان کا تعلق شام سے تھا اور شام کردوں کو شہریت نہیں دیتا۔ عبداللہ کردی کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔


اور اگر شام کا پاسپورٹ مل بھی جاتا تو بھی وہ جہاز میں سوار نہ ہو جاتے۔ اگر یہ پاسپورٹ سنگاپور، سویڈن، سلواکیہ یا ساموا کا ہوتا تو پھر تو مسئلہ نہیں تھا لیکن شام کے پاسپورٹ کے ساتھ انہیں ایک اور چیز کی ضرورت تھی جو ویزے کی ایجاد تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اب یہ ہمیں زندگی کا قدرتی فیکٹ لگتا ہے کہ پاسپورٹ پر لکھے ملک کا نام یہ طے کرے گا کہ ہم کہاں سفر کر سکتے ہیں اور کہاں کام کر سکتے ہیں۔ (کم از کم قانونی طور پر)۔ لیکن یہ تاریخ میں ہونے والی نئی جدت ہے۔ یہ پاسپورٹ کونسا ہو گا؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کہاں پیدا ہوئے اور والدین کون تھے۔  (یا اگر اضافی اڑھائی لاکھ ڈالر پڑے ہیں تو سینٹ کٹس اینڈ نیوس کا پاسپورٹ قانونی طور پر خریدا جا سکتا ہے)۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اور یہ ہماری زندگیوں کا دلچسپ پہلو ہے۔ زیادہ تر ممالک میں حکومتیں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہیں کہ کسی سے اس کے رنگ، نسل، جنس، عمر وغیرہ کی بنیاد پر تعصب نہ برتا جائے۔ ملازمت، تعلیم، صحت وغیرہ کے مواقع ہر ایک کے لئے برابر ہو۔ سب توقع رکھتے ہیں کہ پیدائش کے وقت کے حادثات کسی کی زندگی میں فرق نہیں ڈالیں گے۔ شہریت اس میں استثنا ہے۔ پاسپورٹ اسی فرق کو روا رکھنے کے لئے ڈیزائن کی جانے والی ایجاد ہے۔   


اور کسی جگہ پر بھی کوئی اس حق میں نہیں کہ اس بارے میں فرق کم کئے جائیں۔ یورپ میں چھبیس ممالک میں قائم کردہ پاسپورٹ فری شینگن زون بھی دباوٗ میں ہے۔ ظلم سے بچ کر بھاگنا ہو یا کون زندگی میں بہتر معاشی مواقع کے لئے؟ پاکستان ہو، انڈیا، امریکہ، فرانس، جاپان، سعودی عرب، ملیشیا یا کوئی بھی اور ملک۔ ایسے لوگوں کا داخلہ ہمیشہ پسند نہیں کیا جاتا جو بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں ان کے ملک میں داخل ہوں اور یہاں پر دلچسپ تضاد ہے۔


معیشت کی منطق بتاتی ہے کہ اگرچہ ایسے لوگوں کی آمد کچھ لوگوں کے لئے مواقع کم کر سکتی ہے لیکن مجموعی طور پر ملک کے لئے امیگرنٹ کی آمد معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ اکانومک تجزیہ کہتا ہے کہ اگر پاسپورٹ ختم ہو جائیں تو دنیا زیادہ خوشحال ہو گی۔  تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ مختلف پاسپورٹ رکھنے والوں کو ہمیشہ خوش آمدید نہیں کیا جاتا؟ سفری بندشیں اور پابندیاں ختم ہوتے ہوتے یہ واپس کیسے آ گئیں؟ یہ سب ختم کیوں نہیں ہو گیا؟


اس کی وجہ پہلی جنگِ عظیم تھی۔ یہ پاسپورٹ کی وجہ بنی۔


سیکورٹی کے خدشات، حرکت پر کنٹرول کی لہر شدت کے ساتھ واپس آئی۔ 1920 میں لیگ آف نیشنز کی کانفرنس ہوئی۔ اس میں ملکوں کے درمیان افراد اور سامان کی نقل و حرکت کے قوانین پر اتفاق ہوا۔ یہ جدید پاسپورٹ کی ایجاد تھی۔ 1921 سے اس کا اطلاق ہو گیا۔ اس کانفرنس میں طے ہوا کہ ساڑھے پندرہ سینٹی میٹر لمبا اور ساڑھے دس سینٹی میٹر چوڑا گتے کی جلد کا کتابچہ ہو گا جس میں حامل کی تصویر لگی ہو گی اور بتیس صفحات ہوں گے۔ اس فارمیٹ میں تب سے لے کر اب تک بہت کم تبدیلی آئی ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نقل و حرکت پر کنٹرول ہو یا مضبوط سرحدیں۔ اس کی آخر ضرورت کیا ہے؟ اس کی وجہ انسان ہیں، جن کے لئے اپنے سے مختلف لگنے والوں کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم اپنی الگ شناخت، الگ اقدار رکھتے ہیں، جو کئی بار ناقابلِ مصالحت ہوتی ہیں۔ یہ ایجاد اور اس سے کیا جانے والا کنٹرول ہمیں ایک دوسرے سے محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ قوم سازی “مختلف لوگوں میں سے ایک قوم ابھرنا” کہلاتی ہے۔ اور اس فقرے میں مختلف لوگ جتنے اہم ہیں، اتنا ہی ایک کا ابھرنا بھی۔ الگ اقدار، الگ اطوار، الگ کلچر رکھنے والوں کا ضم ہونا، ایک شناخت اپنانا اور باہمی امن سے رہنا ممکن ہونا بڑا سست رفتار عمل ہے۔


یہ وہ وجہ ہے کہ پاسپورٹ کی ایجاد بین الاقوامی امن اور ملکوں کے اندرونی استحکام کے لئے بہت اہم رہی ہے۔ اس نے خانہ جنگیوں اور جنگ و جدل کو قابو کیا ہے۔ جہاں پر اس ایجاد نے عالمی امن کا تحفہ دیا ہے، وہاں پر آلان کردی کی طرح جبر کا شکار لوگوں کے لئے یہ جبر کی دستاویز ہے۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں سمیت، بیسیویں صدی کی عالمی سیاست میں پاسپورٹ اہم ترین ایجاد ہے۔






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں