باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 19 اکتوبر، 2020

دریائے سندھ پر جوا

اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ پاکستان لمبے عرصے تک مستحکم جغرافیائی اکائی نہ رہے اور اپنے طریقے سے، اپنی ڈگر پر آگے بڑھتی رہے لیکن ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے پاس وقت زیادہ نہیں۔

پاکستانی جس بھی نظریے، قومیت یا لسانیت سے تعلق رکھتے ہوں، بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت سارے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ 1998 میں تیرہ کروڑ تھی، 1951 میں ساڑھے تین کروڑ اور 1911 میں ایک کروڑ نوے لاکھ۔ آج یہ ایک صدی میں دس گنا سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔


پاکستان کی اس کے بڑھنے کی رفتار کو کم کرنے کی ناکامی ریاست کی کمزوری، تعلیم کی کمی اور سوشل کنزرویٹزم کا نتیجہ ہے۔ اور اس رفتار میں جتنی کمی ہوئی ہے یہ سوشیو اکنامک تبدیلی اور اربنائزیشن کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی سماجی یا ریاستی اقدام کی وجہ سے۔ اور چونکہ آبادی کا بڑا حصہ اس وقت کم عمر ہے، اس لئے اس میں اسی تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔ اندازہ ہے کہ اس صدی کے وسط میں یہ آبادی ساڑھے تینتیس کروڑ ہو گی۔


اتنی تعداد کو سپورٹ کرنے کے لئے پاکستان کے آبی وسائل نہیں ہیں۔ جب تک کہ پاکستان میں پانی کے استعمال کی ایفی شنسی میں بہت زیادہ اضافہ نہ کر لیا جائے۔ پرانی انڈین اکانومی کو مون سون کا جوا کہا جاتا تھا۔ آج کے پاکستان کو “دریائے سندھ پر جوا” کہا جا سکتا ہے۔ اور اس کے نشان تو ماضی میں بھی واضح ہیں۔ چار ہزار سال پرانی تہذیبیں یہاں سے مٹ گئیں جس کی وجہ دریاوٗں کا رخ تبدیل کرنا تھا۔ دریا ان کو بہا لے گئے یا اتنے دور ہو گئے کہ شہر سوکھ کر کھنڈر ہو گئے۔


پاکستان میں اوسط ہونے والی سالانہ بارش 240 ملی میٹر ہے۔ اتنی گنجان آبادی والا دنیا میں کوئی اور ملک نہیں جہاں اتنی کم بارش ہوتی ہو۔ دریائے سندھ کے نظام اور نہری نظام کے وجہ سے پاکستان ابھی تک یہ آبادی سپورٹ کرنے کے قابل ہے۔ نہری نظام کے بغیر پاکستان کے کئی بڑے شہر نیم صحرائی علاقے تھے۔ پنجاب میں بنائے گئے برٹش زرعی پراجیکٹ نے کئی نئے علاقوں میں آبادی ممکن بھی بنائی تھی۔ فیصل آباد یا ساہیوال جیسے شہر ان پراجیکٹس کے بعد ہی آباد ہو سکے تھے۔


اور اگر آپ ملک کے اوپر جہاز سے گزر رہے ہوں تو یہ واضح ہو جاتا ہے۔ دریائے کابل یا پنجاب کے دریا سندھ میں گرتے ہیں۔ تمام آبادیاں اور کھیتیاں ان آبی گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان سے دور بھوری، زرد اور اودی زمین ہے جس میں کہیں کسی قدرتی چشمے یا کنویں کے پاس چھوٹی آبادی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی ایک چوتھائی زمین کاشت ہوتی ہے اور اس کا بڑا حصہ وہ ہے جو نہری نظام کی مرہونِ منت ہے۔ باقی غیرآباد اجاڑ ہے۔


کیپیسیٹی سے زیادہ استعمال کی وجہ سے کئی قدرتی چشمے خشک ہو چکے ہیں۔ پانی کا ٹیبل نیچے گر رہا ہے۔ کئی علاقوں میں اتنی تیزی سے کہ کسی وقت میں ٹیوب ویل کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ پاکستان کے پاس دریائے سندھ ہے اور اس کا خشک ہونا پاکستان کے لئے تباہ کن ہو گا۔ پانی کی کنزوریشن اور اس کے استعمال میں ایفی شنسی لے کر آنا جتنا اہم ہے، اس کے بارے میں مبالغہ آرائی نہیں کی جا سکتی۔


پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے، پانی کی تقسیم، اس کے استعمال میں دانشمندی سمیت بہت بہت اور بہت کام کرنا ہے۔ کیونکہ تضاد یہ ہے کہ جب پاکستان میں زیادہ بارشیں ہو جائیں تو اس کا نتیجہ تباہ کن سیلابوں میں نکلتا ہے۔ 2010 کے سیلاب اس کا ثبوت ہیں۔ موجودہ انفراسٹرکچر کے ساتھ زیادہ بارش بھی پاکستان کے لئے اچھی خبر نہیں۔


عالمی موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لئے اچھی خبر نہیں۔ تیزی سے بڑھتی آبادی اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے جو خطرہ پاکستان کے اوپر منڈلا رہا ہے، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ شجرکاری، جنگلوں کو واپس لے کر آنا، زرعی نظام کی مرمت، پانی کے استعمال کی ایفی شنسی میں اضافہ اور دیگر پراجیکٹ ہیں جو پاکستان کی ترجیحات میں اوپر کئے جانے کی ضرورت ہے۔


اس حوالے سے سب سے زیادہ مسئلہ اس میں سندھ اور بلوچستان کو درپیش ہے۔ 2004 میں لکھی گئی رپورٹ پاکستان کو دنیا کا سب سے زیادہ واٹر سٹریسڈ ملک بتاتی ہے جس کے پاس پانی کا کوئی اضافی سورس نہیں ہے۔


اس حوالے سے اگر موازنہ انڈیا سے کیا جائے تو انڈیا اپنی بارشوں کا پانی جمع کرنے کے تناسب میں پاکستان سے بہت آگے ہے اور چین کے تناسب کے لحاظ سے تو بہت ہی چھوٹا حصہ۔ اور یہاں پر ایک موقع ہے۔ نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ عالمی اداروں کے لئے بھی۔

دنیا میں کوئی بھی پاکستان کو ناکام ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہاں تک کہ اس کے بدترین حریف انڈیا کے لئے بھی غیرمستحکم پاکستان اچھی خبر نہیں ہو گی۔


پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب یہاں پر جب کچھ کرنا طے کر لیا جائے تو عام کرپٹ اور سرخ فیتے والے نظام سے الگ کر کے بہت شاندار کام بڑی پھرتی اور ایفی شنسی سے کئے جا سکتے ہیں اور کئے جا چکے ہیں۔ بڑے ڈیم، موٹرویز، نیوکلئیر ہتھیار، بندرگاہوں کی تعمیر اس قسم کے پراجیکٹ رہے ہیں۔ کیا پاکستان اپنے سب سے بڑے مسئلے پر اس طریقے سے کام کر لے گا؟


جہاں تک عالمی اداروں کا تعلق ہے، تو وہ اپنی امداد کا دائرہ تنگ کر کے پانی کے انفراسٹرکچر تک محدود کر سکتے ہیں اور یہاں پر فراخدلی سے مدد کی جا سکتی ہے۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ نہ صرف یہ کہ یہ پاکستان کے بڑے مسئلے کو حل کرے گا بلکہ یہ کام کرنا بہت سی لیبر مانگتا ہے۔ اور بہت سی ملازمتوں کو جنم دے گا۔ کدال اور پھاوڑے والے مزدوروں سے لے کر تربیت یافتہ انجینیرز تک اور ان سے ملحقہ صنعتوں کو بھی۔ عالمی امداد عام لوگوں تک پہنچنے کا یہ بہترین راستہ ہو گا۔ اور یہ والی امداد عام آدمی کو نظر بھی آئے گی۔


انسان جمہوریت کے بغیر صدیاں رہ لیتے ہیں، سیکورٹی کے بغیر بھی جی لیتے ہیں لیکن پانی کے بغیر تین روز بھی نہیں۔ جہاں تک پاکستان کے اپنی عوام اور اپنی سیاست کا تعلق ہے، پانی اس میں ترجیحات میں نہیں ہے۔ علاقائی تعصب اور بداعتمادی اور پاکستان کے دوسرے مسائل اس میں رکاوٹ بنتے رہ ہے اور یہ ترجیحات وقت تک نہیں آ سکتا جب تک پاکستان میں لوگ خود اس کو سیاسی ایجنڈے پر لانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ پاکستان کے حل کرنے کے لئے ہے۔





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں