باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 1 نومبر، 2020

روبوٹ

 

صنعت ہو یا وئیر ہاوٗس، کئی جگہوں پر اب انسانی اور روبوٹ ملکر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جنرل موٹرز پہلی کمپنی تھی جس نے یونی میٹ کے نام سے سب سے پہلا روبوٹک بازو ویلڈنگ کے لئے اپنے مینوفیکچرنگ پلانٹ میں نصب کیا۔ ایمازون کے کیوا روبوٹ جیسی جدتوں کے ساتھ ان کے کردار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صنعتی روبوٹ کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ پانچ سال میں دگنی ہو چکی ہے۔ اور اس کے مضمرات ہیں۔ ایک وقت میں مینوفیکچرنگ کا کام ترقی یافتہ ممالک سے ترقی پذیر ممالک کی طرف سستی لیبر کی وجہ سے گیا تھا۔ روبوٹ اس کو الٹا سکتے ہیں۔ روبوٹ اب نئے سے نئے کام کر رہے ہیں۔ یہ اتنے نہیں جتنے ہم ان سے کسی وقت میں توقع رکھتے تھے۔ یعنی نصف صدی پہلے کی سائنس فکشن کے ملازم روبوٹ کہیں پر نہیں اور کسی کی اب ایسے روبوٹ آنے کی توقع بھی نہیں۔ ہمیں آہستہ آہستہ ادراک ہوا ہے کہ یہ انسانوں کے متبادل بننے سے بہت ہی دور ہیں لیکن یہ ان کی بڑھتی اہمیت کم نہیں کرتا۔


اس شعبے میں ہونے والی تیزرفتار ترقی کی ایک وجہ بہتر اور سستے سنسر ہیں جن سے روبوٹ کی “آنکھ”، انگلیوں کا لمس یا ان کا توازن بہتر ہو سکتا ہے۔ اور دوسری وجہ سافٹ وئیر ہے جس کی وجہ سے ان کا “دماغ” بہتر ہو رہا ہے۔


مشین کی سوچ ابھی وہ علاقہ ہے جہاں ابتدائی توقعات بہت بلند تھیں۔ مصنوعی ذہانت کی ایجاد کی کوشش کا آغاز 1956 کی ڈارٹ ماوتھ کالج کی ورکشاپ سے ہوا۔ “ایسے مشینیں جو زبان کا استعمال کر سکیں۔ تجریدی تصورات بنا سکیں۔ وہ مسائل حل کر سکیں جو انسان حل کرتے ہیں اور خود سیکھ سکیں”۔ اس کا مقصد قرار پایا۔ اور خیال تھا کہ بیس سال میں اس کو حاصل کر لیا جائے گا۔


اب بھی اس کے بارے میں پیشگوئی اگلے بیس سال کی ہی ہے۔ ایسا کیوں؟ اس کی دلچسپ وجہ فیوچرسٹ فلسفی نک بوسٹروم دیتے ہیں۔ “بیس سال مستقبل کی پیشگوئی کرنے والوں کے لئے بڑی تبدیلی کی پیشگوئی کا اچھا وقت ہے۔ اگر آپ اس سے کم وقت کی پیشگوئی کریں گے تو لوگ توقع رکھنے لگیں گے کہ کسی ابتدائی شکل میں پروٹوٹائپ ابھی موجود ہو گی۔ اور اگر اس سے زیادہ وقت کی پیشگوئی کریں گے تو لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیس سال تک پیشگوئی کرنے والا ریٹائر ہو چکا ہو گا۔ شہرت کا رسک نہ ہونا بڑے دعوے کو ممکن کرتا ہے”۔


لیکن اس کی عملی وجہ بھی تھی۔ مصنوعی ذہانت میں مشکلات کا علم آہستہ آہستہ ہوا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ Narrow AI  میں اب اچھی پیشرفت ہو چکی ہے۔ یعنی ایسے ذہین پروگرام جو “گو” کھیل سکیں، ای میل فلٹر کر سکیں، فیس بک کی فوٹو پہچان سکیں۔ پراسس تیز ہو رہے ہیں، ڈیٹا زیادہ ہو رہا ہے، پروگرامر زیادہ ماہر ہو رہے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ذہین پروگرام کی ذہانت زیادہ غیرشفاف ہو رہی ہے۔


بوسٹروم کا خدشہ ذہین پروگرامز کی خود کو بہتر کرنے کی صلاحیت پر ہے کہ کیا اس صلاحیت کے حاصل کر لینے کے بعد ان کو کنٹرول کیا جا سکے گا؟ تاہم یہ ابھی کا مسئلہ نہیں، مصنوعی جنرل ذہانت “بیس سال بعد” کا مسئلہ ہے۔


لیکن تنگ مصنوعی ذہانت دنیا کے کاروبار میں تبدیلیاں لے کر آ رہی ہے۔ برسوں سے الگورتھم کئی کام اپنے ذمے لے رہے ہیں۔ ریکارڈ رکھنا، کسٹمر سروس۔ لیکن اب اعلیٰ ذہانت کا تقاضا کرنے والے روزگار بھی محفوظ نہیں رہے۔


آئی بی ایم کا واٹسن اس وقت ڈاکٹروں سے بہتر پھیپھڑوں کے سرطان کی شناخت کر سکتا ہے۔ کونسے دلائل کیس جیتنے کا امکان بہتر کریں گے؟ سافٹ وئیر تجربہ کار وکیلوں کے قریب پہنچ رہا ہے۔  سرمایہ کاری کی تجویز روبو ایڈوائزر دے رہے ہیں۔ خبروں کی ترتیب میں مدد کر رہے ہیں۔ یہ آرٹیکل بھی شاید آپ اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ کہیں پر ذہین الگورتھم نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ اس کو پڑھنے میں آپ کو دلچسپی ہو گی اور یہ آپ کی نیوز فیڈ میں پیش کر دیا گیا تھا۔


اور کچھ اکانومسٹ اب ایک نیا ٹرینڈ دیکھ رہے ہیں۔ پیداوار اور روزگار کا تعلق اب ترقی یافتہ ممالک میں جدا ہو رہا ہے۔ تاریخی طور پر زیادہ پیداوار کا مطلب زیادہ ملازمتیں اور زیادہ تنخواہیں تھا۔ لیکن اکیسویں صدی میں یہ تعلق ٹوٹ رہا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آئیڈیا کہ نئی ٹیکنالوجی روزگار کے مواقع کم کر سکتی ہے، کم از کم دو سو سال پرانا خوف ہے جو ہمیشہ غلط ثابت ہوتا رہا ہے۔ اور نئی پیدا ہونے والے روزگار اوسطاً پہلے سے بہتر رہے ہیں۔  لیکن ماضی مستقبل کا ضامن نہیں۔  ٹیکنالوجی جسمانی کام کا متبادل رہی ہے لیکن ذہانت میں ایسا نہیں۔ ٹیکنالوجی کرنے سے زیادہ سوچنے والا کام انسانوں سے لے رہی ہے۔ روبوٹ کے دماغ بہتر ہونے کی رفتار ان کے جسم بہتر ہونے سے زیادہ ہے۔ روبوٹ تمام کام تو نہیں کر سکتے۔ روبوٹ جہاز لینڈ کروا سکتے ہیں، حصص کا کاروبار کر سکتے ہیں لیکن ٹوائلٹ صاف نہیں کر سکتے۔


اگر روبوٹ انسانوں سے زیادہ بہتر سوچ سکیں، پلاننگ کرنے اور کام کرنے میں بہتر ہوں جبکہ انسان شیلف سے چیزیں اٹھانے میں بہتر ہوں تو پھر انسان اور مشین کا رشتہ ایک نیا رخ لے سکتا ہے۔ اور شاید یہ بیس سال سے کم عرصے میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے۔۔۔




 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں