باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 31 دسمبر، 2020

اوٹزی کے عشق (۴۰)


ستمبر 1991 میں ایک جرمن جوڑی کو کوہ پیمائی کرتے وقت ایک مردہ جسم ملا۔ اس کا نوے فیصد حصہ گلیشیر کی برف میں مضبوطی سے جما ہوا تھا۔ صرف سر اور کاندھے باہر تھے۔ برف میں یہ شخص بالکل محفوظ تھا۔ اس علاقے میں گمشدہ کوہ پیماوٗں کے جسم کئی بار ملا کرتے تھے لیکن یہ دریافت مختلف تھی۔ یہ لاش پانچ ہزار سال پرانی تھی۔
اس کو ٹائیرولین آئس مین کہا گیا اور اوٹزی کا نام دیا گیا۔ برف کی قید سے اس کو کچھ ہفتوں میں آزاد کروایا گیا۔ سائنسدان یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ اس کا تعلق نیولیتھک دور کے آخر سے تھا جو تانبے کا دور تھا۔
سوال ابھرنے لگے۔ یہ شخص کون تھا؟ کیسا ہو گا؟ کہاں سفر کیا ہو گا؟ اور حیران کن بات ہے کہ اس کی باقیات نے اس کے بارے میں کس قدر زیادہ انفارمیشن دے دی۔ اس کی آنت کے مواد نے اس کی پچھلے دو کھانوں کا بتا دیا (ہرن کا گوشت جو گندم اور پھلوں کے ساتھ کھایا گیا تھا)۔ آخری کھانے کے پولن تازہ تھے جس سے معلوم ہوا کہ اس کا انتقال موسمِ بہار میں ہوا تھا۔ اس کے بالوں نے پچھلے کئی مہینوں کی عمومی خوراک کا بتا دیا۔ بالوں میں پھنسے تانبے کے ذرات سے معلوم ہوا کہ وہ تانبا پگھلانے کا کام کرتا رہا تھا۔ دانت کے اینیمل سے معلوم ہو گیا کہ اس نے اپنا بچپن کہاں گزارا ہو گا۔ پھیپھڑوں کی سیاہی نے کیمپ میں جلائی آگے کے دھویں کی شکایت کر دی۔ ٹانگ کی ہڈیوں کے تناسب نے آشکار کیا کہ اس نے نوجوانی پہاڑی علاقوں پر طویل فاصلے طے کر کے گزاری۔ اسے گھٹنوں کے علاج کے لئے قدیم آکوپنکچر دیا گیا تھا۔ اس بات کا ہڈیوں کی حالت اور جلد پر نشانوں سے پتا لگا۔ ناخن میں بیماری کی تاریخ موجود تھی۔ ناخن میں تین لکیریں بتاتی تھیں کہ پچھلے چھ ماہ میں تین بار سسٹمک بیماری ہوئی تھی۔
ایک جسم سے بہت زیادہ ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکتا ہے کیونکہ زندگی کے تجربات جسم کو تشکیل دیتے ہیں۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس کا سب سے زیادہ اثر جس عضو میں ہوتا ہے، وہ دماغ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید کبھی کسی وقت ہم کسی شخص کی نیورل حالت کی مدد سے اس کے حالاتِ زندگی کا موٹا موٹا خاکہ پڑھنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس نے کیا کیا۔ اس کے لئے کیا اہم تھا۔ اگر ایسا ہو سکا تو یہ نئی طرز کی سائنس کا وجود دے گا۔ دماغ کی شکل دیکھ کر، کیا ہم پتا لگا سکیں کہ کسی شخص کی زندگی میں کیا ہوا؟ اس کو کس چیز کی پرواہ تھی؟ وہ اپنا کونسا ہاتھ استعمال کرتا تھا؟ اس کے ماحول میں اس کی دلچسپی کے سگنل کونسے تھے؟ اس کی بولی کا سٹرکچر کیا تھا؟ اور دوسرے بے شمار سوالات جو اس کے پیٹ، بالوں، گھٹنے یا ناخن سے پتا نہیں لگتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشمن کے مار گرائے جہاز کو ریورس انجینیر بھی اسی طریقے سے کیا جاتا ہے۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ فنکشن کا تعلق سٹرکچر سے ہو گا۔ اگر کاک پٹ کی تاریں کسی خاص ترتیب سے لگی ہیں تو ان کے پیچھے کوئی وجہ ہو گی۔ اسی طریقے سے دماغ کو ڈی کوڈ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
اگر اس میں ہم اچھی پیشرفت کر سکے تو کوئی بعید نہیں کہ اس صدی کے آخر تک ہم اٹلی میں محفوظ اوٹزی کو ایک بار پھر نکالیں۔ اس بار اسے شیشے کے کیس سے رہائی دلوائیں۔ اور ہم وہ کہانی پڑھیں جو اس کے دماغ کی چادر پر نقش ہے۔ ہم نہ صرف اس کی زندگی کو بیرونی نظر سے دیکھیں بلکہ اوٹزی کے اپنے اندرونی نکتہ نظر سے بھی۔ اس کے لئے کیا اہم تھا؟ وہ اپنا وقت کس طرح گزارتا تھا؟ اس کے عشق، اس کے جنون کیا تھے؟ اس وقت یہ سائنس فکشن ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی فکشن ہے جو سائنس بن سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں پہلے سے ہی معلوم ہے کہ طویل ٹائم سکیل پر مخلوقات کو ماحول تشکیل دیتا ہے۔ ہماری آنکھ کے فوٹوریسپٹر سورج سے نکلنے والے سپیکٹرم سے پرفیکٹ طریقے سے ہم آہنگ ہیں۔ یا پھر ہمارے جینوم میں قدیم انفیکشن کا بھی آرکیولوجیکل ریکارڈ ہے۔ لیکن زندگی کے مختصر ٹائم سکیل پر، دماغ کی وائرنگ کے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے۔ دماغ کا سٹرکچر اس کی پریشانیوں پر، وقت کی سرمایہ کاری پر اور کسی کے مقامی ماحول پر روشنی ڈالتا ہے۔اوٹزی نہ صرف اپنے عہد کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اس کے دماغی خلیوں پر مائیکروسکوپک ڈائری لکھی ہوئی ہے۔ ہم اس کے بہن بھائی، بچے، بزرگ، دوست، حریف دیکھ سکیں گے۔ بارش کی راتیں اور آگ کے الاوٗ کی مہک سونگھ سکیں گے۔ اس کی زبان اور آوازیں سن سکیں گے۔ اس کی خوشیاں، خوف، مایوسیاں اور امیدیں جان سکیں گے۔
اوٹزی کا دور وہ وقت تھا جب وہ ویڈیو کیمرہ سے کہیں اشارہ کر کے دنیا کی فلم محفوظ نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن اوٹزی کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اوٹزی خود ویڈیو کیمرہ تھا۔
(جاری ہے)         



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں