باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 24 اپریل، 2021

ملکیت (1)


شینن وسنانٹ نے 2007 میں نیلامی میں باربی کیو گرل خریدی۔ یہ نیلامی ایک سٹوریج کمپنی کر رہی تھی۔ یہ کمپنی لوگوں کو چیزیں رکھنے کے لئے کرائے پر جگہ دیتی تھی۔ جن لوگوں نے دیر سے کرایہ ادا نہیں کیا تھا، ان سے کرایہ وصول کرنے کے لئے ان کی چیزوں کی نیلامی کی گئی تھی۔ صرف دو ڈالر میں یہ زبردست سودا تھا۔ لیکن جب گھر لا کر اس کو کھولا تو اس میں ایک کٹا ہوا بائیاں انسانی پاوٗں پڑا تھا۔ یہ کس کا تھا؟ کوئی قتل کیا گیا تھا؟ شینن نے فوری پولیس کو فون کیا۔ پولیس اس پاوٗں کو لے گئی۔ تفتیش شروع ہو گئی۔ شینن کو خیال آیا کہ پاوٗں تو ان کا ہے کیونکہ انہوں نے خریدا ہے۔ انہوں نے اس کو پولیس سے واپس لے لیا۔ پولیس یہ دریافت کر چکی تھی کہ یہ کسی مردہ کا نہیں بلکہ ایک جیتے جاتے شخص کا ہے۔ یہ شخص جان وڈ تھے۔
تین سال پہلے جان وڈ حادثے کا شکار ہوئے تھے جس میں ان کے والد کی وفات ہو گئی تھی۔ وہ خود شدید زخمی ہوئے تھے جس وجہ سے یہ کاٹنا پڑا تھا۔ انہوں نے یاد کے طور پر ہسپتال کو کہہ کر پاوٗں خود لے لیا تھا۔ یہ عجیب درخواست تھی لیکن ہسپتال والے مان گئے تھے۔ جان وڈ مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ ان کا گھر بک گیا۔ انہوں نے اپنا سامان رکھنے کے لئے سٹوریج سے جگہ کرائے پر لے لی۔ بعد میں وہ کرایہ ادا نہ کرنے کے سبب، نیلام کے ذریعے یہ شینن تک پہنچ گیا۔
جب جان وڈ اپنا کٹا ہوا پاوٗں لینے شینن کے پاس آئے تو شینن نے دینے سے انکار کر دیا کہ اصل مالک وہ ہیں، انہوں نے اسے قانونی طریقے سے خریدا ہے۔ آپس میں بات طے نہیں ہو سکی تو معاملہ عدالت میں پہنچ گیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ جان کو ملے گا لیکن انہیں اس کے بدلے شینن کو پانچ ہزار ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔
یہ مشہور واقعہ ملکیت کے بارے میں ہمارے کچھ تصورات کو چیلنج کرتا ہے۔ میری ملکیت کیا ہے؟ ہم تصور کرتے ہیں کہ میرا جسم میری اپنی ملکیت ہے۔ کوئی جسم کو بلااجازت چھو لے تو سخت برا منایا جاتا ہے اور چھوٹے بچے بھی ایسا کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ تصور درست ہے کہ میرا جسم ہر طرح سے میری ملکیت ہے؟
لازمی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر کسی کو اپنے جسم کے ساتھ کچھ بھی کرنے کی اجازت ہوتی لیکن ایسا نہیں۔ کئی جگہ پر اپنے اعضاء کی فروخت غیرقانونی ہے۔ کئی جگہوں پر اپنے جسم پر نقوش کھدوانا قانونی نہیں۔ کئی جگہ پر اپنی جان لے لینا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ قدیم روم میں آزاد شخص خود کشی کر سکتا تھا لیکن فوجی اور غلام نہیں۔ خودکشی کو ریاست یا مالک سے چوری کرنا گردانا جاتا تھا۔ (ستم یہ کہ اس کی کوشش کرنے پر سزائے موت تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی جان ریاست لے سکتی ہے لیکن آپ خود ایسا کرنے کے مجاز نہیں)۔
اور اگر آپ فوت ہو گئے ہیں تو پھر جسم کی ملکیت کس کے پاس ہے؟ اس پر بھی اتفاق نہیں۔ کیا آپ کے اعضاء عطیہ کئے جا سکتے ہیں؟ عام طور پر اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ “ہاں، آپ نے پیشگی اجازت دی ہو”۔ لیکن ملکیت کا حق کیا اس کا ہے جو اب اس دنیا میں ہی نہیں رہا؟ یا پھر لواحقین (یا ہسپتال یا ریاست) کا بھی؟ کیا آپ کے لواحقین (یا ہسپتال یا ریاست) آپ کے اعضاء بیچ کر پیسے کما سکتے ہیں؟
قیمتی چیز زمین پر پڑی ملی تو کس کی ہے؟ اگر کھدائی کرتے ہوئے ملی تو پھر کس کی ہے؟ اگر یہ کسی نجی زمین سے ملی؟ اگر یہ پبلک زمین سے ملی؟ ملکیت ایسا معاملہ نہیں جس پر کوئی اتفاقِ رائے ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن چوری، فراڈ، ڈاکہ، ناجائز قبضہ، سرقہ ۔۔۔ بہت سے جرائم کا تعلق ہی ملکیت کے تصور سے ہے۔ سرحدی تنازعات، ماحول کی حفاظت جیسے اہم ترین معاملات کا اجتماعی ملکیت سے۔ تو پھر ایک نظر اس پر کہ ملکیت ہے کیا؟ اور اس بہت ہی سادہ سے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کونسی شے کس کی ہے؟
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں