باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 مئی، 2021

جنگل کی باتیں


نوٹ: مندرجہ ذیل سوزن سمارینڈ کی کتاب کا ابتدائیہ ہے۔
نسلوں سے ہمارا خاندانی پیشہ جنگل سے درخت کاٹنے کا رہا ہے۔ ہماری زندگی کا انحصار اس پر رہا ہے۔ یہ میری وراثت ہے۔ میں نے بھی زندگی میں اپنے حصے کے درخت کاٹے ہیں۔
ہمارے سیارے پر کوئی بھی شے ایسی نہیں جسے زوال اور موت نہ ہو۔ اسی سے نئی زندگی پھوٹتی ہے۔ موت نئی پیدائش کا جنم ہے۔ اس چکر نے ہی مجھے سکھایا تھا کہ ساتھ ہی ساتھ بیج لگانے والا بھی بنا جائے۔ بیج سے درخت اگانے، کونپلوں کی حفاظت کرنا بھی اس چکر کا حصہ تھا۔
جنگل خود بھی اس سے بہت زیادہ بڑے چکروں کا حصہ ہے۔ مٹی کا بننا، انواع کا علاقے تبدیل کرنا، سمندروں کے پانی کی سرکولیشن۔ صاف ہوا، خالص پانی اور اچھی خوراک کے ذرائع۔ لینا اور دینا ۔۔۔ یہ فطرت کی دانائی کا ضروری حصہ ہے۔ یہ خاموش معاہدے ہیں اور فطرت کے توازن کی تلاش کا حصہ ہیں۔
اور اس میں غیرمعمولی سخاوت کا عنصر بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   
جنگل کیسے کام کرتا ہے؟ اس کا مٹی، پانی اور آگ سے تعلق کیا ہے؟ اس تجسس نے مجھے سائنسدان بنایا۔ میں جنگل کو دیکھتی تھی اور سنتی تھی۔ میں وہاں وہاں گئی، جہاں تجسس مجھے لے گیا۔ میں نے اپنے خاندان اور لوگوں سے کہانیاں سنیں۔ میں نے سکالرز سے سیکھا۔ ایک ایک قدم کر کے، ایک ایک معمے کے ساتھ، جو کچھ بھی میرے پاس تھا، وہ اس جاسوسی میں لگا دیا کہ یہ سب کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں لکڑیوں کی صنعت میں کام کرنے والی پہلی خواتین میں سے تھی۔ اور یہ میری خوش قسمتی تھی۔ لیکن میں نے جو دریافت کیا وہ ویسا نہیں تھا جیسا میں نے سوچا تھا۔ میں نے وسیع علاقے دریافت کئے جو درختوں سے خالی تھے۔ مٹی، جس میں سے قدرت کی پیچیدگی چوس لی گئی تھی۔ زمین کو موسم کی سختی نے آن لیا تھا۔  پرانے درخت جا چکے تھے جس کی وجہ سے نوجوان درخت خطرے میں تھے۔ صنعتی آرڈر غلط راستے پر تھا۔ انڈسٹری نے ایکوسسٹم کے کچھ حصوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا تھا۔ چوڑے درختوں والے درخت، پتے کھانے والے، خوراک چننے والے جانور اور ان پر بسیرا کرنے والے ۔۔۔ انکو طفیلی سمجھا جاتا تھا جو قیمتی درختوں اور فصلوں کے ساتھ مقابلے پر تھے اور انہیں خراب کرتے تھے۔ لیکن میں جو دریافت کرتی گئی، وہ یہ کہ یہ سب ضروری تھے۔ تنوع کم ہونے سے پورا جنگل تکلیف میں تھا اور اس کی وجہ سے باقی سب بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سائنسی مہم شروع کی کہ یہ دریافت کیا جائے کہ ہم کیا غلط کر رہے ہیں اور اس بات کا راز کیا ہے کہ جب زمین کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ اپنی مرمت کر لیتی ہے، جیسا کہ میرے آباء دیکھتے آئے تھے۔
درختوں نے جلد ہی چونکا دینے والے راز افشا کرنا شروع کر دئے جو میرے وہم و گمان میں نہ تھے۔ یہ آپس میں ایک دوسرے پر منحصر ایک مضبوط بُنا ہوا جال تھا۔ یہ محسوس کرتے تھے، رابطہ کرتے تھے اور تعلق بناتے تھے۔ بڑی ہی قدیم نفاست اور دانائی سے جس کا انکار اب نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے سینکڑوں تجربات کئے۔ ایک دریافت کے بعد اگلی۔ اور اس مہم میں میں نے درختوں کی ایک دوسرے سے کی جانے والی باتوں کا پتا لگایا۔ جنگل کا یہ معاشرہ تخلیق کیسے پاتا ہے۔
شروع میں میرے پیشکردہ شواہد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔ لیکن یہ بہت طریقے اور احتیاط سے کیا جانے والا کام ہے۔ پئیر ریویو ہو کر بڑے پیمانے پر پبلش کیا جا چکا ہے۔ اس میں پریوں کی کہانیاں نہیں، تخیل کی پرواز نہیں، جادو یا فلم کی فکشن نہیں۔
یہ دریافتیں جنگل کی مینجمنٹ کے طریقوں کو بھی چیلنج کر رہی ہیں، جو جنگل کے لئے خطرہ ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب گرم ہوتی زمین سے نیچر کو مطابقت حاصل کرنے میں دشواری ہے۔
میرے سوالات سادہ جگہ سے شروع ہوئے تھے کہ  مجھے اپنے علاقے کے جنگل کی مستقبل کی فکر تھی۔ لیکن ایک سراغ کے بعد اگلا ملتا گیا اور یہ مجھے یکے بعد دیگرے نئی دنیا میں لے گئے۔ کہ جنگل صرف درختوں کا مجموعہ نہیں۔
سچ کی تلاش میں، درختوں نے مجھے اپنا ادراک، اور اپنا ریسپانس، اپنے تعلقات اور اپنا مکالمہ دکھایا ہے۔ میرے بچپن کی جگہ سے شروع ہونے والی اس تلاش نے جنگل کی ذہانت آشکار کی اور یہ کہ ہم کیسے دوبارہ قدرت کی اس دانائی کا احترام کر سکتے ہیں اور اس سے زخمی ہو جانے والے رشتے کو بحال کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا سراغ مجھے اس وقت ملا جب میں زیرِ زمین فنگس کے نیٹورک پر درختوں کے بھیجے جانے والے دو طرفہ پرسرار پیغامات سن رہی تھی۔   جب میں نے ان مکالموں کے راستوں کا پیچھا کیا، تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ نیٹورک تو پورے جنگل کے فرش پر ہے اور تمام درختوں کو جوڑتا ہے۔ کئی جھرمٹوں کی صورت میں جس میں درختوں کے ہب اور فنگل لِنک ہیں۔ ایک ابتدائی سے نقشے نے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ بڑے اور پرانے درخت نئی پود کی زندگی کی نمو کا ذریعہ ہیں۔ صرف یہی نہیں، یہ اپنے نوجوان اور بوڑھے ہمسائیوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ خاص درخت دھاگوں اور سائنیپس کا مرکز تھے۔
میں آپ کو اپنے ساتھ اس سفر پر لے کر جاوٗں گی جو اس پیٹرن کا سب سے چونکا دینے والا حصہ ہے۔ اس نیٹورک میں ہمارے اپنے دماغ سے مماثلت ہے۔ اس کے ذریعے جوان اور بوڑھے درخت کیمیائی سگنل کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں، جواب دیتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔
اور یہ کیمیکل بالکل ہمارے نیوروٹرانسمٹرز کی طرح ہیں۔ آئیون سگنل بناتے ہیں جو فنگس کی ممبرین کی آبشار سے گزرتے ہیں۔ جی ہاں، یہ وہی طریقہ ہے جو ہمارے دماغ کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے درخت نئی نسل کی پرورش کرتے ہیں۔ انہیں خوراک اور پانی دیتے ہیں۔ ویسی ہی جیسے ہم خود اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور صرف یہی حقیقت کافی ہے کہ ہم کچھ توقف کریں۔ ایک گہرا سانس لیں اور جنگل کی سماجی فطرت پر غور کریں۔ فنگس کا یہ نیٹورک فٹنس کی تاریں ہیں۔ بوڑھے درخت اپنے بچوں کے لئے ماوٗں کا کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ “مدر ٹری” جنگل کی حفاظت، رابطے اور شعور کا بڑا شاندار مرکز ہیں۔ اور جب یہ مرتے ہیں تو اس سے پہلے یہ اپنی دانائی اپنے رشتہ داروں کو منتقل کرتے ہیں۔ نسل در نسل یہ نالج شئیر ہوتا ہے۔ یہ ان کی مدد کرتا ہے کہ کیا نقصان پہنچاتا ہے۔ کیا ان کے لئے مفید ہے۔ دوست کون ہے اور دشمن کون۔ کیسے ایڈاپٹ کرنا ہے اور تبدیل ہوتی دنیا میں بقا کیسے حاصل کرنی ہے۔ اور والدین یہی تو کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ خطرے کے سگنل، شناسائی کے پیغام اور حفاظت کی ہدایات اتنی جلدی بھیج سکیں جیسے ٹیلی فون کی کال کی جاتی ہے؟ یہ کیسے مشکل وقت اور بیماری میں دوسرے کی مدد کرتے ہیں؟ یہ ہمارے جیسے کیوں ہیں؟ یہ کسی سول سوسائٹی کی طرح کام کیوں کرتے ہیں؟
اپنی پوری زندگی جنگل میں جاسوس کے طور پر ان سراغوں کے پیچھے، جنگل کے بارے میں میرا نکتہ نظر ہی تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ ہر نیا انکشاف مجھے اس کے ساتھ اور گہرائی میں باندھ دیتا۔ اب سائنسی شواہد کو مزید نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ جنگل کی دانائی، اس کے شعور اور بقا کی صلاحیت کے لئے اس کی وائرنگ ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری یہ کتاب اس بارے میں نہیں ہے کہ ہم درختوں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔
میری یہ کتاب اس بارے میں ہے کہ یہ درخت ہمیں کیسے بچا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوزن سمارڈ کی پی ایچ ڈی فارسٹ سائنس میں ہے اور وہ برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان کی شہرت مائیکورائزل نیٹورک کی دریافت اور جنگل کی ایکولوجی پر تحقیق سے ہے۔


یہ پوری کتاب پڑھنے کے لئے
Finding the Mother Tree: Discovering the Wisdom of the Forest : Suzanne Simard





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں