باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 5 جون، 2021

فلسطین (22) ۔ انتفاضہ اول

 اسرائیلی قبضے کو دو دہائیاں گزر چکی تھیں۔ فلسطینیوں کی نئی جنریشن جوان ہو چکی تھی جس نے ملٹری قبضے کے سوال کچھ نہیں دیکھا تھا۔ آزادی اظہار پر پابندی تھی، فلسطینی جھنڈے کی نمائش پر پابندی تھی، پی ایل او کے حق میں بات کرنے پر پابندی تھی۔ انفرادی واقعات پر جرمانہ اور جیل، جبکہ اجتماعی واقعات میں گھروں کی مسماری اور جلاوطنی تھی۔ انتخاب جیتنے والے  نئی نسل پچھلی نسل سے زیادہ بے خوف تھی۔ قبضے کے خلاف بغاوت چھڑ گئی۔
انتفاضہ گراس روٹ لیول سے یکایک اٹھنے والی تحریک تھی۔ اس کا تعلق سیاسی لیڈرشپ سے نہیں تھا۔ یہ پورے علاقے میں شروع ہوئی۔ اس میں حصہ لینے والوں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، دیہاتی، کسان، تاجر، غریب، طلباء، دکاندار اور ہر شعبے کے لوگ۔
اس میں کئی حربے اپنائے گئے۔ ہڑتال، بائیکاٹ، ٹیکس نہ دینا اور دوسری سول نافرمانی۔ کبھی سیکورٹی فورس سے ٹکراوٗ ہو جاتا جہاں پر پتھروں کا مقابلہ ربڑ کی گولیوں سے ہوتا۔ لیکن زیادہ تر یہ غیرمسلح اور پرامن رہا۔ اور اس نے عالمی توجہ حاصل کی۔ اس سے کئی سال سے جاری کامیاب عالمی اسرائیلی پراپیگنڈا کی دھجیاں اڑ گئیں جس میں تاثر دیا جاتا تھا کہ فلسطینی اسرائیلی حکمرانی میں اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس میں استعمال کیا جانے والی اصطلاح enlightened occupation کی تھی۔
پہلا انتفاضہ پاپولر مزاحمت کی کامیاب مثال تھا اور یہ ہر لحاظ سے فلسطینی کامیابی رہی۔ اس سے پہلے فلسطینیوں کی بغاوت 1936 میں ہوئی تھی جس دوران ان میں آپس میں زبردست پھوٹ پڑ گئی تھی۔ اس کے برعکس 1987 میں شروع ہونے والی اس تحریک میں کوئی تقسیم نہیں تھی۔ اور بڑی حد تک تشدد اور اسلحے کا عنصر نہیں آیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ اس کا نہ صرف عالمی سطح پر، بلکہ اسرائیل کے اندر بھی بڑا مثبت اور طویل مدت اثر گیا۔ اس سے پہلے اسرائیل فلسطینیوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتا رہا تھا۔
نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں تک اس تحریک نے کامیابی سے یہ باور کروا دیا تھا کہ قبضہ ایسے نہیں جاری نہیں رہ سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ایل او قیادت 1982 کے بعد سے تیونس میں اور دوسرے عرب ممالک میں تھی۔ پی ایل او کو پہلے بھی جنگی راستہ ترک کرنے کا مشورہ دیا جا چکا تھا۔ تنظیم کی قیادت نے پاکستانی انٹلکچوئل اقبال احمد کو ملٹری حکمتِ عملی بنانے کا کام سونپا تھا۔ (اقبال احمد الجیریا میں مسلح مزاحمت کے حق میں تھے)۔ انہوں نے لبنان میں دورے کر کے پی ایل او کے مسلح مزاحمت کے طریقے پر شدید تنقید کی تھی اور اسے غیرموثر کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اسرائیلی مظلومیت کا تاثر بناتا ہے اور اسرائیلی قوم کو اکٹھا کرتا ہے۔ الجیریا کا طریقہ فلسطینی جدوجہد کے لئے مناسب نہیں۔ اس طریقے نے نقصان پہنچایا ہے۔  اقبال احمد کی تجویز کو فلسطینی قیادت نے ناپسند کیا تھا۔ لیکن انتفاضہ کی کامیابی نے پی ایل او قیادت کو اپنی رائے پر نظرثانی کا موقع دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ایل او کا ایک اور مسئلہ نئی آنے والی تنظیم تھی۔ پی ایل او قیادت جلاوطن تھی۔ اس وقت غزہ میں 1987 میں نئی قائم ہونے والی یہ تنظیم حماس تھی جس کو فلسطینیوں کی طرف سے سپورٹ ملی۔ (ابتدا میں اسرائیل نے اس کو بالواسطہ طور پر سپورٹ کیا۔ اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ نئی تنظیم کے آنے سے فلسطینی تقسیم ہو جائیں گے)۔   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور بڑا فیکٹر سرد جنگ کا خاتمہ تھا۔ اس بلاک سے جو سپورٹ ملتی رہی تھی، اب اس کی توقع نہیں رہی تھی، دنیا میں دو سپرپاورز کا دور ختم ہو گیا تھا۔ 1991 تک سوویت یونین دنیا کے نقشے سے غائب ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاسر عرفات نے ایک بہت بڑی غلطی کی تھی جو خلیج کی جنگ میں تھی۔ جب عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا تو اگست 1990 میں تمام عرب پاورز، بشمول سیریا اور مصر، نے عراق کے خلاف اتحاد کا ساتھ دیا۔ عراق کی یہ حرکت عرب لیگ کے ایک ممبر کو ہڑپ کرنا تھی۔ کالونیل دور کے خاتمے کے بعد ایسا کرنا ناقابلِ قبول تھا۔ یاسر عرفات نے اس موقع پر عرب ممالک کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے “نیوٹرل” رہنے کی کوشش کی، اور خلیج جنگ کی مخالفت کی۔
یاسر عرفات کے اس حیرت انگیز فیصلے کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک وجہ عراق سے ملنے والی سیاسی، عسکری اور اقتصادی مدد تھی۔ دوسرا یہ کہ عرفات کا عراقی ملٹری صلاحیت کے بارے میں خیال غیرحقیقی تھا۔ “صدام عظیم عرب ہیرو ہیں جو نئے صلاح الدین ہیں۔ امریکہ اور اتحادیوں کو شکست دیں گے”۔ اردن اور لبنان کے کچھ عام لوگوں میں پائے جانے والے اس جذباتی نکتہ نظر میں شاید عرفات بھی بہہ گئے تھے۔
اور یہ حیرت انگیز ہونے کے ساتھ افسوسناک اس لئے بھی تھا کہ کویت وہ ملک تھا جہاں یاسر عرفات کئی سال رہے تھے۔ یہاں پر فلسطینیوں کی بڑی کمیونیٹی تھی۔ یہ فلسطین کاز کا بھرپور حامی تھا اور واحد عرب ملک تھا جہاں انہیں اظہارِ رائے کی آزادی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ایل او کے اس فیصلے کے نتائج فوراً ہی آ گئے۔ مختصر سی جنگ میں عراق کو صاف شکست ہوئی۔ تمام خلیج ریاستوں نے پی ایل او کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ کویت سے فلسطینی بے دخل کر دئے گئے۔ پی ایل او تنہا اور کمزور پوزیشن پر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ پس منظر تھا جہاں سے اسرائیل فلسطین مذاکرات کا آغاز ہوا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں