باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 9 جون، 2021

فلسطین (23) ۔ اوسلو معاہدے


فلسطین (23) ۔ اوسلو معاہدے
دہائیوں تک اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے سے بات کرنے سے انکار کرتے رہے تھے۔ فلسطینی لیڈر اسرائیل کا نام تک ادا نہیں کرتے تھے۔ اسرائیلی لیڈر فلسطینیوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے، ان کو عرب کہا جاتا تھا اور پی ایل او کو دہشتگرد تنظیم۔ اسرائیلی قانون کے مطابق اسرائیلی شہری کے لئے پی ایل او کے ممبر سے ملنا اور بات کرنا جرم تھا۔
یہ بائیکاٹ 1991 میں ختم ہوا جب میں میڈرڈ میں دونوں فریقین نے ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ دسمبر 1991 سے جولائی 1993 تک مذاکرات کے کئی راونڈ بالواسطہ ہوئے۔  بالآخر، اسرائیلی وزیرِاعظم اسحاق رابین اور پی ایل او نے خفیہ مذاکرات کا فیصلہ کیا جن کے نتیجے میں اوسلو معاہدہ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ ستمبر 1993 کو عرفات اور رابین، دو دیرینہ دشمنوں کا مصافحہ ایک یادگار لمحہ تھا۔ یہ بڑی امید کا وقت تھا۔ لگتا تھا کہ امن قریب ہے۔ “اپنی آزاد اور خودمختار ریاست ہو گی”۔ فلسطینیوں کا خیال تھا کہ یہ وقت اب قریب ہے۔ “ایک بار معاملات طے ہو جائیں تو سیر کرنے دمشق کے قہوہ خانوں میں قہوہ پینے جایا کریں گے۔ مشرقِ وسطیٰ میں نہ سرحدی پابندیاں ہوں گی اور نہ افواج”۔ کسی دیوانے کا خواب لگنے والا مستقبل کا یہ نقشہ اس وقت کے اسرائیل کی اخباروں میں تھا۔ فضا میں امید تھی کہ امن قریب ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بعد والے واقعات ایسے نہیں رہے۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے معاہدے کا نام “عبوری حکومتی انتظامات کے اصولوں کا اعلامیہ” تھا۔ معاہدوں کی اس سیریز کو مجموعی طور پر اوسلو اکارڈ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ خفیہ مذکرات جنوری سے اگست 1993 تک ناروے کے شہر اوسلو میں ہوئے تھے۔
تیرہ ستمبر کو ہونے والا معاہدہ امن معاہدہ نہیں تھا، لیکن اگلا قدم تھا۔ اس میں اسرائیل نے غزہ سے اور مغربی کنارے کے شہر اریحا سے انخلا کرنا تھا۔ اس کے بعد اگلے پانچ سال میں مغربی کنارے کے کچھ اور علاقوں سے۔ اس دوران، فلسطین میں ایک نیم خودمختار حکومت کا قیام ہونا تھا جس کا کام اسرائیلی فوج کے نکل جانے کے بعد روزمرہ کا انتظام سنبھالنا تھا۔ امن و امان، پولیس، صحت، ٹیکس، تعلیم، سوشل ویلفئیر، کلچر اور سیاحت کے شعبے اس کے پاس آ جانے تھے۔
اس میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ مستقبل میں کن امور پر بات چیت ہونی ہے۔ فلسطینی سرحدیں، اسرائیلی آبادیاں، مہاجرین کا مسئلہ، یروشلم کا سٹیٹس ان میں شامل تھے۔
یاسر عرفات نے “اسرائیل کو امن سے رہنے کا حق” تسلیم کر لیا تھا اور اسرائیل نے “پی ایل او کو فلسطینیوں کا نمائندہ” تسلیم کر لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھائیس ستمبر 1995 کو دوسرے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس میں مغربی کنارے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ شہری علاقے جہاں پر فلسطین اتھارٹی کا مکمل کنٹرول ہو گا۔ دیہی علاقے جہاں پر سیکورٹی اسرائیل کی ہو گی، سول معاملات فلسطین اتھارٹی کے پاس۔ اور اسرائیلی آبادیاں اور ملٹری بیس، زرعی زمین اور بڑی سڑکیں جو اسرائیلی کنٹرول میں ہوں گے۔ یہ انتظام عارضی طور پر پانچ سال کے لئے کیا گیا تھا اور مذاکرات کے ٹائم ٹیبل میں طے کیا گیا تھا کہ یہ اس وقت تک ایسا رہے گا جب تک 1999 میں سارے معاملات طے نہیں ہو جاتے۔ لیکن مذاکرات کبھی بھی اس نہج تک نہیں پہنچے۔
یہ ابھی تک اسی طرح ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ایل او کو یہ دکھانا تھا کہ وہ حکومت کر سکتی ہے، اپنی آبادی پر کنٹرول رکھ سکتی ہے اور اسرائیل کے ساتھ امن قائم رکھ سکتی ہے۔ اسرائیل کے انخلا کے بعد اس کے شہریوں کو فلسطین کی طرف سے خطرہ نہیں ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف، اسرائیل کو رفتہ رفتہ فلسطین کو مکمل طور پر چھوڑ دینا تھا۔
ایسا نہیں ہوا۔
اپنی ناکامی کے باوجود اسحاق رابین، شمعون پیریز، یاسر عرفات اور محمود عباس کی یہ بڑی کامیابی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوسلو اکارڈ سے مشرقِ وسطٰی میں امن قائم نہیں ہوا۔ ان سے لگائی گئی بلند توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ نہ فلسطینیوں کو آزادی ملی، نہ ہی اسرائیلیوں کا “دمشق کے قہوہ خانے میں کافی کا کپ” کا خواب پورا ہوا۔
فلسطینیوں کے لئے بڑے شہروں سے اسرائیلی فوج کے انخلا نے اور فلسطینی اتھارٹی کے قیام نے زندگی کچھ آسان کر دی۔ اسرائیل اور فلسطین نے ایک دوسرے کو بطور حقیقت تسلیم کر لیا۔ کسی شکل میں فلسطین کی ریاست کا قیام ہو گیا۔ فلسطینی پاسپورٹ کا اجرا بھی ہو گیا۔ فلسطینیوں کو اپنے ملک کی شہریت مل گئی۔
بہت سے بڑے مسائل حل نہیں ہوئے۔

(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں