باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 2 جنوری، 2022

کینسر (99) ۔ مستقبل


رچرڈ کلازنر نے 1997 میں لکھا، “کینسر کے خلاف جنگ میں ترقی نہ ہونے پر مایوسی قبل از وقت ہے۔ دنیا میں ماضی کا بہترین علم رکھنے والے بہت سے ہیں، مستقبل کا علم رکھنے والا کوئی نہیں۔ یہ غیرمعمولی طور پر دشوار کام ہے کہ اس بات کی پیشگوئی کی جا سکے کہ آج حاصل ہونے والی بصیرت آئندہ کس سمت میں فائدہ دے گی۔ مثلاً، جب فلیمنگ نے پھپھوندی لگی روٹی سے پنسلین دریافت کی تھی تو اس وقت کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہ حادثاتی دریافت کتنا بڑا انقلاب برپا کرنے لگی ہے۔ یا لوہے کے پھیپھڑے کی ٹیکنالوجی کو وائرولوجی کی ترقی کی وجہ سے پولیووائرس کی ویکسین کی دریافت نے ختم کر دیا تھا۔ ماضی کی بنیاد پر یہ قیاس کرنا کہ مستقبل بھی ایسا ہی رخ لے گا ۔۔ یہ طریقہ کام نہیں کرتا”۔
کسی حد تک کلازنر درست تھے۔ جب انقلابی دریافتیں ہوتی ہیں تو ان سے ہونے والا اثر معمولی نہیں ہوتا۔ یہ پیراڈائم تبدیل کر دیتا ہے۔ وہ سائنسدان، جس نے پنسلین کی دریافت سے پہلے پیشگوئی کی تھی کہ بیکٹیریل نمونیا لاعلاج ہے یا وہ شخص جو پولیو ویکسین کی دریافت سے پہلے لوہے کے پھیپھڑے بنانے والے ادارے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اچانک ہی تاریخ میں احمق دکھائی دینے لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کینسر میں کوئی سادہ، آفاقی یا پکا علاج نظر میں نہیں اور کبھی نظر بھی نہیں آتا۔ اس کا ماضی اپنے مستقبل سے ہر وقت محوِ گفتگو ہے۔ پرانے مشاہدات نئی تھیوریوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ روس کے وائرس دہائیوں بعد دوبارہ واپس آ جاتے ہیں۔ جارج بیٹسن کا مشاہدہ کہ سکاٹ لینڈ کے چرواہوں کی کہ سکاٹ لینڈ کے چرواہوں کی کہانیوں سے سبق لے کر اووری نکال دینا چھاتی کے کینسر کو سست کر دیتا ہے، واپس آ کر ٹیموکسفن کی صورت میں ایک ارب ڈالر کی دوا بنا دیتا ہے۔
یقیناً، کینسر کا مقابلہ کرنے کے اوزار اگلے پچاس سال میں بہت مختلف ہوں گے۔ مستقبل کے ڈاکٹر آج والوں پر شاید ہنسیں کہ ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے قدیم قسم کے زہروں کے کاک ٹیل جسموں میں انڈیلا کرتے تھے۔ لیکن جنگ کا میدان وہی رہے گا۔ ایک نہ رکنے والا، ضدی اور مکار موذی۔ امید و یاس کے بدلتے چکر۔ اس کے خلاف ایک بڑا چھکا مار دینے کی توقع، ہار کی مایوسی، کبھی کامیاب ہو جانے کا بہت زیادہ اعتماد۔
یونانی ٹیومر کے لئے اونکوس کا لفظ استعمال کرتے تھے جس کے معنی بوجھ کے ہیں۔ اور ہمارے جینوم سے ابھرنے والا یہ موذی ہماری ہمیشہ زندہ رہ جانے کی امید کو پابند کر دیتا ہے۔ لیکن اونکوس کا لفظ یونانی لفظ نیک سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب بوجھ لے کر چلنے کے ہیں۔ اور کینسر کا خلیہ یہی کرتا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک میٹاسٹیٹائز ہو جانے والا۔۔ یہ بوجھ کی نئی جگہ منتقلی کا سفر ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ آتوسہ کے سفر کی داستان بتاتی ہے کہ یہ سائنسی دریافتوں کا طویل سفر بھی ہے۔ اور اس سفر میں انسان کی ایجاد اور دریافت کی صلاحیت، اسے شکست دے کر زندہ رہنے جانے کی تمنا بھی موجود ہے۔ یہی مستقبل میں ہونے والا کینسر کا سفر ہے۔
ہمارا جینوم اس بیماری کو تخلیق کرتا ہے اور اس جینوم سے ابھرنے والا جاندار، یعنی انسان، اس کے خلاف نبرد آزما ہے۔ جنگ کے ہتھیار بدلتے رہیں گے۔ میدان یہی رہے گا۔
(جاری ہے)





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں