ہاتھی کا دل ایک منٹ میں صرف 30 بار دھڑکتا ہے، انسان کا ساٹھ سے ستر بار، گائے کا پچاس سے اسی مرتبہ جبکہ چوہے کا 600 بار۔ ایک دن میں ایک چوہے کو زندہ رہنے کے لئے اپنے وزن کے پچاس فیصد وزن کے برابر خوراک لینا ہوتی ہے۔ انسان کو صرف دو فیصد۔
ایسا کیوں؟ اس کی وجہ سطح کا قانون ہے۔ یہ سادہ سا قانون بتاتا ہے کہ ایک شے کا اگر حجم بڑھتا ہے تو اس کے مقابلے میں سطحی رقبے کا تناسب کم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک غبارے کو جتنا پھلا دیں گے، اس کا اندرونی حصہ سطح کے مقابلے میں زیادہ تر غالب ہوتا جائے گا۔
حرارت سطح سے خارج ہوتی ہے۔ اگر سطح کا رقبہ حجم کے مقابلے میں زیادہ ہو گا تو پھر درجہ حرارت برقرار رکھنے کیلئے اتنا زیادہ کام کرنا پڑے گا۔ اور اس وجہ سے چھوٹی مخلوق کو بڑی کے مقابلے میں زیادہ حرارت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ اور اس وجہ سے ہاتھی اور چوہے میں خوراک اور دل کی دھڑکن کا فرق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ کسی بھی جانور کے دل کی دھڑکنیں تمام عمر میں جمع کی جائیں تو تقریباً برابر ہی ہوتی ہے۔ دھڑکن تیز ہو یا آہستہ، تقریباً تمام جانوروں میں، اگر وہ اوسط زندگی جئیں، یہ تعداد 80 کروڑ ہے۔ اور اس میں استثنا انسان کو ہے۔ ہم پچیس سال کی عمر میں اتنی دھڑکنیں مکمل کر لیتے ہیں اور پھر بڑھاپے تک اس سے تین گنا کر لیتے ہیں۔ لیکن نہیں، اس کی وجہ کوئی جسمانی برتری نہیں۔ ہماری متوقع عمر کی وجہ ہمارا علم ہے۔ ہائی جین، میڈیکل سائنس وغیرہ نے ملکر متوقع عمر بڑھا دی ہے ورنہ تاریخ میں ہم بھی باقیوں سے اس ضمن میں مختلف نہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم سرد خون والے جانور ہوتے تو توانائی کی ضرورت بہت کم کر سکتے تھے۔ ایک عام ممالیہ ایک عام رینگنے والے جانور کے مقابلے میں تیس گنا زیادہ توانائی خرچ کرتا ہے۔ اور اس سے فائدہ یہ ہے کہ صبح سویرے ہم چھلانگ لگا کر بستر سے نکل آتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پہلے چٹان پر لیٹ کر سورج سے گرم ہونے کا انتظار کرنا پڑے۔ ممالیہ رینگنے والے جانوروں کے مقابلے میں زیادہ توانائی رکھتے ہیں اور زیادہ چست ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بہت ہی غیرمعمولی باریک tolerance میں وجود رکھتے ہیں۔ ہمارا جسمانی درجہ حرارت 98.6 درجے فارن ہائیٹ ہے۔ اور یہ اس سے ایک درجے کے اندر اندر ہی رہتا ہے۔ اگر چند درجے اوپر یا نیچے ہو جائے تو بہت بڑا مسئلہ ہے۔ چند درجے کا فرق دماغ کو ایسے بحران میں مبتلا کر سکتا ہے جو سخت نقصان یا موت پر متنج ہو سکتا ہے۔ اور اس تباہی سے بچنے کے لئے دماغ کے پاس ایک قابلِ بھروسہ کنٹرول سنٹر ہے۔ یہ ہائیپوتھلامس ہے جو جسم کو بتاتا ہے کہ کب پسینہ لا کر درجہ حرارت گرانا ہے۔ اور کب کانپ کر بڑھانا ہے یا پھر خون کو جلد سے دور ہٹا کر زیادہ اہم اعضا کی طرف لے جانا ہے۔
جسم یہ کام بہت اچھی طرح سے کرتا ہے۔ ایک مشہور تجربے میں برطانوی سائنسدان سٹیو جونز نے ایک شخص کو ٹریڈمِل پر میراتھن بھگوائی اور اس دوران کمرے کا درجہ حرارت انتہائی سرد سے انتہائی گرم تک لے گئے۔ یہ منفی پینتالیس سے پچپن ڈگری سینٹی گریڈ تک تھا جو انسان برداشت کی حد کے قریب کے ہیں۔ اور اس شخص کی جسمانی ورزش اور درجہ حرارت کے اتنا فرق کے باوجود اس کے اپنے درجہ حرارت میں آنے والا فرق پوری میراتھن کے دوران ایک ڈگری سے کم رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جانتے ہیں کہ کئی بار ہمارا درجہ حرارت اس نارمل سے کچھ اوپر چلا جاتا ہے اور ہم اسے بخار کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ یہ ہوتا کیوں ہے۔ آیا بخار دفاعی میکانزم ہے جو جارح پیتھوجن کو مارنے میں مددگار ہے۔ یا پھر یہ جسم کے امیون سسٹم کا بائی پراڈکٹ ہے جو انفیکشن دور کرنے کی لڑائی کے دوران کی محنت سے ہو جاتا ہے۔
اور یہ بڑا اہم سوال ہے کیونکہ اگر بخار دفاعی حربہ ہے تو اسے کم کرنا اچھی بات نہیں۔ حد کے اندر رہتے ہوئے بخار کو ہونے دینا دانشمندی ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ایک ڈگری بلند ہونے کی وجہ سے وائرس کا اپنی کاپی بنانے کا پراسس سست پڑ جاتا ہے۔ یہ دو سو گنا کم ہو سکتا ہے۔ اور یہ حیرت انگیز کمی ہے۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ ہمیں ٹھیک طور سے بخاروں کی سمجھ نہیں ہے۔
اگر درجہ حرارت کو بڑھا دینے سے حملہ آور جراثیم سے دفاع میں مدد ملتی ہے تو ایسا کیوں نہیں کہ یہ مستقل طور پر بلند ہی رہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا مہنگا ہو گا۔ اگر جسم کا درجہ حرارت مستقل طور پر دو سے تین درجے اوپر رکھنا ہو تو اس کے لئے جسم کی توانائی کی ضروریات میں بیس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارا موجودہ درجہ حرارت مفید ہونے اور مہنگا ہونے کے درمیان کا توازن ہے۔ اور یہ جراثیم کو بھی بڑی حد تک قابو میں رکھتا ہے۔
جسم میں ہر چیز کی طرح ہی یہاں پر اہم چیز ٹھیک توازن کی ہے۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں