باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 28 ستمبر، 2023

جغرافیہ کے قیدی (41) ۔ مشرقِ وسطیٰ ۔ سیریا


سیریا کثیر مذہبی، کثیر قبائلی اور کثیر نظری ملک ہے۔ جب اس پر دباؤ پڑا تو یہ بکھر گیا۔ یہاں پر 70 فیصد سنی مسلمان ہیں۔ 2011 تک یہاں پر شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں الگ مذاہب کے لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ لیکن ان کو ٹوٹنے میں وقت نہیں لگا۔
جب فرانس نے اس علاقے پر حکومت کی تھی، تو اس وقت یہاں پر انہیں پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں سے مدد ملی۔ یہ علوی (حضرت علی کے پیروکار) گروپ تھا۔ فرنچ نے انہیں پولیس اور ملٹری میں اہم عہدے دیے اور یہ اس زمین پر اہم طاقت بن گئے۔
یہاں کے صدر بشار الاسد کا تعلق اسد قبیلے سے ہے جو کہ علوی ہے۔ (سیریا کی بارہ فیصد آبادی علوی ہے)۔ 1970 میں ان کے والد حافظ الاسد نے بغاوت کے بعد اقتدار سنبھالا۔ 1982 میں حماة میں ہونے والی اخوان کی بغاوت کو بری طرح کچلا۔ چند روز میں تیس ہزار لوگ قتل کئے۔ یہ یاد محو نہیں ہوئی۔ اور جب 2011 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو پرانے بدلے چکائے جانے تھے۔ اور یہ اس خانہ جنگی کی خونریزی کا سبب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیریا میں بارہ سال سے جاری خانہ جنگی ماند پڑ رہی ہے۔ روس، امریکہ، ترکی، سعودی عرب، قطر، ایران اس میں اپنے پسندیدہ گروہوں کے حق میں شریک رہے ہیں۔ آخر میں بشارالاسد اس میں فاتح رہے۔ اس نے چار لاکھ شہریوں کی جانیں نگل لیں۔
یہاں کے الگ علاقوں کو ایک ریاست کے طور پر چلانے کے لئے مہارت، جرات اور مفاہمت درکار ہو گی۔ ان میں سب سے مشکل عنصر مفاہمت کا رہے گا۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے ناکام ہونے والی فصلیں، بھوک، بے روزگاری، کالونیل نظام کے بعد گورننس کی ناکامی اور ماضی کے زخم یہاں پر انتہاپسندی اور عدم استحکام کا ایندھن رہیں گے۔  
اکیسویں صدی کی بدنام زمانہ عسکری تنظیم نے یہاں سے جنم لیا جس کا مشن سرحدیں گرا کر قدیم طرزِ حکومت بحال کرنا تھا۔ عربی میں “جاحش” کے معنی چھوٹے گدھے کے ہیں۔ جبکہ “فاحش” کے معنی بدکار کے ہیں۔ یہ دونوں برے الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ خلافت کی بحالی کا نعرہ لئے آنے والی تنظیم کا مشہور ہونے والا نام ان دونوں کے ہم وزن پر تھا۔ لیکن مشہور ہونے والا نام بنیادی طور پر تضحیک آمیز چھیڑ تھا۔۔
اس تنظیم کی محدود کامیابی کے پیچھے اس کی سفاکی تھی۔ مخالفت کا مطلب بے رحمانہ انجام تھا۔ کئی سال کے لئے یہ تنظیم دنیا بھر کے لئے سردرد رہی۔  2015 کے آخر تک اس کے پاس بڑا علاقہ تھا۔ ایک کروڑ لوگوں پر حکمرانی تھی۔ ایک ارب ڈالر کا سالانہ بجٹ تھا اور تیس ہزار جنگجو تھے۔ اس تنظیم کی شکست نہ صرف عسکری تھی بلکہ بڑی حد تک نظریاتی طور پر بھی اس کا صفایا ہو گیا۔ انہیں مسلمان آبادی میں پذیرائی نہیں ملی۔ لوگ صدیوں پہلے کی دنیا میں جانے کی خواہش نہیں رکھتے۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں