باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 20 اگست، 2023

ذہانت (46) ۔ مماثلت


یہ جنوبی ڈینور میں 2014 کا واقعہ ہے۔ سٹیو ٹیلی اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے۔ گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ ایک شخص معذرت خواہانہ انداز میں بولا کہ اس کی گاڑی غلطی سے ٹیلی کی باہر کھڑی گاڑی سے ٹکرا گئی ہے اور وہ باہر آ کر نقصان کا اندازہ کر لیں۔ وہ باہر نکل کر اپنی گاڑی کا دروازہ دیکھ رہے تھے کہ تین لوگ برآمد ہوئے۔ ٹیلی کو زمین پر گرا دیا۔ ایک نے بازو پکڑے۔ دوسرا ان پر کھڑا ہو گیا اور تیسرا ان کو بنددق کے بٹ مارنے لگا۔ لاتوں اور گھونسوں سے تواضع کی گئی۔
ٹیلی کو بہت چوٹیں آئیں۔ ہر قسم کے زخموں سے جسم بھرا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ “میں پولیس کو آواز دینے لگا تو یاد آیا کہ پولیس والے ہی تو مار رہے ہیں”۔
سٹیو ٹیلی کو دو بینک ڈکیتیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ایک ڈکیتی کے دوران ایک پولیس والے کو پیٹا گیا تھا جس وجہ سے پولیس والے اس قدر متشدد تھے۔
ٹیلی پکارتے رہے کہ “وہ پاگل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے غلط بندہ پکڑ لیا ہے” اور وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ انہیں گرفتار اس لئے کیا گیا تھا کہ ان کی شکل ایک شخص سے ملتی تھی۔ وہ جو کہ اصل ڈاکو تھا۔ ٹیلی کی شناخت کی تصدیق چہرے پہچاننے والے سافٹ وئیر نے کی تھی۔
ٹیلی کے پاس اچھا دفاع تھا۔ لیکن انہیں مقدمے سے چھوٹنے میں ایک سال لگا۔ اس دوران دو ماہ سخت جیل میں رہے۔ ملازمت جاتی رہی۔ گھر بک گیا۔ بچوں تک رسائی ختم ہو گئی۔ کوئی کام ملنے کی امید بھی۔
یہ سب اس وجہ سے کہ ایک الگورتھم کو مغالطہ لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 2015 میں ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے ٹیغان لیوکس نے چار ہزار لوگوں کی فوٹوگراف سے آٹھ فیچر نکالے اور ان کا موازنہ کر کے نتیجہ نکالا کہ اس بات کا امکان کہ دو لوگوں کے چہرے ایک جیسے ہوں، دس کھرب میں سے ایک سے بھی کم ہے۔
لیکن اس کی درستگی پر شک کرنے کی اچھی وجہ ہے۔ مثلاً، ساتھ لگی تصویر نیل ڈگلس کی ہے۔ وہ جہاز میں جس شخص کے ساتھ بیٹھے، اس کے چہرے کے ساتھ مماثلت حیرت انگیز تھی۔ ان کی لی گئی سیلفی وائرل ہو گئی، جس کے بعد  انہیں سرخ بالوں اور داڑھی والے کئی لوگون نے اپنی تصاویر بھیجنا شروع کر دیں کہ وہ بھی انہی کی طرح لگتے ہیں۔ نیل نے بی بی سی کو کہا، “لگتا ہے کہ میرے ہم شکلوں کی ایک چھوٹی سی فوج بنائی جا سکتی ہے”۔
تو پھر دس کھرب میں سے ایک کا دعویٰ؟ کیا یہ غلط ہے؟ یہاں پر ایک تضاد ہے۔ وہ یہ کہ “ہم شکل” کی تعریف کیا ہو گی؟ اگر کان کی پیمائش میں چند ملی میٹر کا فرق ہے؟
اگر ہم شکل ہونے کے معیار کو زیادہ کڑا کر دیا جائے تو ایک شخص کی دو تصاویر بھی نہیں ملیں گی۔ عمر، بیماری، تاثرات کے علاوہ کیمرہ کا زاویہ بھی فرق ڈال دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں تنظیم Project innocence  کا کہنا ہے کہ غلط سزا پانے والوں میں 70 فیصد ایسے ہیں جہاں پر غلط شناخت عینی شاہدین کی گواہی کی وجہ سے ہے۔
ہمارے لئے غیرمانوس چہروں کو کنفیوز کرنا بہت آسان ہے۔ (مثلاً، ایک پاکستانی اپنی نظر میں چینیوں کے چہروں میں مماثلت دیکھ لے گا جبکہ چینیوں کے لئے ان میں بہت فرق ہو گا)۔ ایک ماں کے لئے اپنے بچوں کی شکل بہت مختلف ہو گی جبکہ دوسرے کہیں گے کہ بہنوں کی شکل کتنی ملتی جلتی ہے۔ اور اگر آپ کسی سے بہت اچھی واقفیت رکھتے ہوں گے تو جڑواں میں فرق میں بھی کوئی مشکل نہیں ہو گی۔
اور یہاں پر ایک کلیدی نکتہ ہے۔ مماثلت دیکھنے والے کی آنکھ میں ہے۔
چہرے پہچاننے کی ٹیکنالوجی شناخت کے لئے ڈی این اے کی طرح قابلِ اعتبار نہیں۔
اور اگرچہ ہم خیال کرتے ہیں کہ ہمارا چہرہ ہماری پہچان ہے لیکن شناخت کے نتائج کے لئے یہ اتنا اچھا نہیں جتنا ہمارا گمان ہے۔
بدقسمتی سے، الگورتھم بھی اس مسئلے کو حل نہیں کرتے اور ان کی مدد سے مجرم کی پہچان میں احتیاط برتنا ہوتی ہے۔ مماثلت اور شناخت ایک چیز نہیں اور نہ ہی کبھی ہوں گے، خواہ الگورتھم جتنا بھی اچھا ہو جائے۔
(جاری ہے)

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں