باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 14 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (41) ۔ ترکیہ


ترکیہ کے معنی “ترکوں کی زمین” کے ہیں۔ اور اگر آپ کا خیال ہے کہ ترک اس زمین سے آئے ہیں جو آج ترکیہ ہے تو یہ درست نہیں۔ ترک یہاں سے بہت دور منگولیا کے مشرق میں التائی کے پہاڑوں سے آئے تھے۔
انہیں پہلے اناطولیہ کی بڑی سطح مرتفع پار کرنی تھی۔ مرمرہ سمندر کے پاس کے علاقے زرخیز زمین ہیں جہاں تازہ پانی دستیاب ہے اور خوراک اگائی جا سکتی ہے جو بڑی آبادی سپورٹ کر سکتی ہے۔ اور سمندر بھی جھیل کی طرح ہے جس میں تجارت آسانی سے ہو سکتی ہے۔ اس سمندر کے مغربی حصے سے ڈرڈانلیس کی آبنائے سے ایجین سمندر تک رسائی ہے اور مشرق میں باسفورس ہے جو تنگ مقام پر ایک کلومیٹر سے کم چوڑا ہے۔ ان دونوں آبناؤں کا کنٹرول دفاع میں بہت بڑا فائدہ دیتا ہے۔
اور یہ ایک چھوٹی ریاست کو سپورٹ کر سکتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایسی ریاست بہت دیر قائم نہ رہتی۔ اچھی زمین ہمیشہ بیرونی طاقتوں کی نگاہوں میں ہوتی ہے۔ اور خاص طور پر اگر آپ تجارتی راستوں کے بیچ میں ہوں جہاں سے ٹیکس اکٹھا کر رہے ہوں۔ یونانیوں، رومیوں، بازنطینویں اور پھر ترکوں نے اس زمین کو ایسے ہی دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانیوں نے اس زمین کو اپنی سلطنت کا مرکز بنایا۔ اور یہاں سے مشرق وسطی، افریقہ اور جنوبی یورپ کو کنٹرول کیا۔ جدید ترکی مشرق اور مغرب کے چوراہے پر ہے اور یہ اس کا دنیا میں کردار رہا ہے۔ یہ وہ دروازہ ہے جہاں سے تارکین وطن یورپ پہنچتے ہیں اور یہ اسے طاقت دیتا ہے۔ اور یہ عرب دنیا کے جھگڑوں میں زیادہ ملوث ہو رہا ہے جس میں لیبیا اور سیریا سر فہرست ہیں۔ اور یہاں پر اس کا پالا دوسری علاقائی طاقتوں سے پڑتا ہے۔
مشرق سے مغرب تک ترکیہ کی چوڑائی 1600 کلومیٹر ہے جبکہ شمال سے جنوب تک یہ 500 سے 800 کلومیٹر ہے۔ 97 فیصد زمین ایشیا میں ہے اور زیادہ حصہ اناطولیہ کا ہے۔ اس کی سرحدیں آٹھ ممالک سے ہیں جن میں گریس، بلغاریہ، جارجیا، آرمینیا، آذربائیجان، عراق، ایران اور سیریا شامل ہیں۔ اور جب عثمانی اپنی سلطنت بنانے نکلے تھے تو یہ ان کا پڑوس تھا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نویں صدی سے خانہ بدوش ترک قبائل مشرقی منگولیا سے نکلے تھے۔ التائی پہاڑ پار کیے تھے۔ قازق علاقوں میں پہنچے تھے۔ یہاں سے وسطی اشیا سے ہوتے ہوئے بحیرہ کیسپین تک آئے تھے جہاں ان کا سامنا بازنطینی سلطنت سے ہوا تھا۔ اس وقت تک اسلام فارس میں پھیل چکا تھا۔ یہ بازنطینی ریاست کی مشرقی سرحدوں پر تھے اور یہاں سے اناطولیہ میں حملے شروع کئے۔ 1037 میں ترک سلجوقوں کی سلطنت بنی تھی جو کہ آج آرمینیا ہے۔ یہاں سے اگلا پڑاؤ جارجیا تھا۔
بازنطینی فوج کی سلجوقوں سے 1071 میں ملاقات ہوئی۔ یہ وان جھیل کا مقام تھا جو موجودہ ترک ایران سرحد سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بازنطینیوں کو بری شکست ہوئی اور اس نے ترکوں کے لئے اناطولیہ کا دروازہ کھول دیا اور یہاں امارتیں بننے لگیں۔ اگلے دس سال میں انہوں نے اپنی سلطنت کا نام “سلطنتِ روم” رکھ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندراعظم کی فتوحات کے بعد یہاں گریک کلچر عام تھا۔ کرد، گریک اور آرمینیائی باشندے رہتے تھے۔ اگلی صدیوں میں کئی ترک کلچر میں ضم ہو گئے۔ کئی نے اسلام قبول کر لیا اور ترک زبان اپنا لی۔ آج کے ترکوں میں آرمینیا اور گریک سے رشتہ داری بھی ہے اور قازق جیسے ترک لوگوں سے بھی۔
شمال مغرب اناطولیہ میں جو امارات قائم ہوئی تھیں، ان میں سے تیرہویں صدی کے ایک امیر عثمان غازی تھے۔ انہوں نے بحیرہ اسود کے ساحل کے ساتھ بازنطینی علاقے پر قبضہ کیا اور انہیں وسطی اناطولیہ تک دھکیل دیا۔ یہ ترک قبائل میں سے سب سے بڑے اور طاقتور نہیں تھے لیکن انہوں نے ابتدائی فتوحات کو استعمال کرتے ہوئے مزید زمین اور دوسری ترک امارات فتح کر لیں۔
سن 1326 تک یہ برسا کا کنٹرول لے چکے تھے۔ یہ قسطنطیہ سے 150 کلومیٹر دور تھا۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے۔ اور 1453 میں بازنطینی سلطنت کا یہ عظیم شہر تنہا رہ چکا تھا۔ اس کی مضبوط دیواریں ایک ہزار سال سے کھڑی تھیں۔ عثمانیوں نے اس کا 53 روز کا محاصرہ کیا اور ایک بار اس کا دفاع کمزور پڑا تو یہ شہر بھی ان کے ہاتھ آ گیا۔
اب انہیں اس بات کی ضرورت تھی کہ کوئی علاقائی طاقت مرمرہ سمندر کے قریب نہ آ جائے اور اناطولیہ تک نہ پہنچ جائے۔ اس میں کمزور جگہ وہ تھی جہاں پر استبول کا مقام تھا۔ اور اس کے دفاع کے لئے پہلے سمندری راستہ بلاک کرنا تھا اور اس کے لئے مزید علاقہ فتح کرنا تھا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں