باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 15 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (43) ۔ ترکیہ ۔ جدید ترکی


بلقان کی 1912 اور 1913 میں ہونے والی جنگوں نے یہ دکھا دیا کہ عثمانیہ سلطنت کتنی بیمار ہو چکی تھی۔ بلغاریہ نے قسطنطنیہ پر قبضہ تقریباً کر ہی لیا تھا۔ اور پھر جب انہیں نے پہلی جنگ عظیم میں ہارنے والی سائیڈ کا انتخاب کیا تو یہ سلطنت کے اپنی موت کے پروانے پر دستخط تھے۔
آج ترکیہ میں قومی فخر اجاگر کرنے کے لئے پڑھائی جانے والی کہانیوں میں گالیپولی میں برطانیہ کی شکست کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن یہ ایک ہاری ہوئی جنگ اور سلطنت کو نہیں روک سکا۔ 1918 میں جنگ بندی ہوئی۔ دارالحکومت برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی فوج کے ہاتھ آیا۔ سلطنت کو توڑ دیا گیا اور سلطان کو معزول کر دیا گیا۔ نئی سرحدوں میں ترکی بولنے والے کئی لوگ گریس اور قبرص کی سرحدوں کے اندر تھے جبکہ دس لاکھ سے زیادہ گریک لوگ ترکی کی سرحدوں کے اندر،۔
گریس اور ترکی کی جنگ 1919 سے 1922 تک ہوئی۔ اس میں جنرل مصطفٰے کمال کی قیادت میں ترک فوج نے گریس کو فیصلہ کن شکست دی۔ آبادیوں کا تبادلہ اس کے بعد ہوا۔ لیکن پچھلی صدی میں دونوں ممالک کی تلخی باقی رہی ہے۔ ترک اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے جس کے تحت گریس کو ان جزائر کا کنٹرول مل گیا ہے جو ترک ساحل کے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ سیریا کے ہاتھ کرد اور عرب حصہ آ جانا بھی کچھ قوم پرستوں کو کھٹکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفىٰ کمال جو کہ اتاترک کے لقب سے جانے جاتے ہیں، 1923 میں قائم ہونے والے نئے ملک کے پہلے صدر بنے۔ انقرہ کو دارالحکومت بنایا۔ قسطنطنیہ کا نام استنبول ہوا۔
انہوں نے پندرہ سال حکومت کی جس میں ملک کو بدل دیا۔ اس وقت میں بڑے اقدامات لئے گئے۔ ان کی طرف سے جاری کئی احکام سطحی تھے لیکن ارادے کا بھرپور اظہار تھا۔ مقصد ماضی سے ناطہ توڑنا تھا۔ مثلاً، مردوں کے لئے ترکی ٹوپی پہننا ممنوع ہوا۔ خواتین کے لئے نقاب کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ گریگورین کیلنڈر کا اجرا ہوا۔ رسم الخط کو عربی سے بدل کر لاطینی کر دیا گیا۔
مصطفی کمال جانتے تھے کہ زبان کلچر ہوتا ہے۔ اور وہ نیا کلچر عثمانی نہیں بلکہ ترکی بنانا چاہتے تھے۔ تعلیم یافتہ لوگ درباری ترک زبان بولتے تھے۔ یہ ترکی، عربی اور فارسی کا ملغوبہ تھی۔ جبکہ غریب طبقے کی زبان میں خالص ترکی تھی۔ اور یہ طبقاتی تقسیم کا ایک سبب تھا۔ صدر نے پورے ملک کا دورہ کیا۔ ان کے پاس ایک بلیک بورڈ ہوتا تھا۔ دیہات کے چوپالوں میں اور سکولوں میں طلبا کے لئے ترک زبان اور نئے حروف تہجی کا چاک سے لکھ کر بتاتے تھے۔ یہ ایک اچھی سیاسی چال ثابت ہوئی۔ اس سے ان کی شخصیت کا cult عوام میں بنا۔ اس سے پہلے سربراہ حکومت اور عوام کے تعلق کا تصور نہیں تھا۔
ایک اور کام جو کیا گیا وہ ترکوں کی طرف سے کئے گئے کسی بھی متنازعہ کام کا انکار تھا۔ اس میں آرمینیا میں 1915 سے 1923 میں بڑے پیمانے پر ہونے والے قتل عام بھی شامل تھے۔ اس کو تاریخ کے صفحات سے ہی مٹا دیا گیا۔ (آج ترکیہ میں یہ تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ آرمینیا میں ظلم و ستم کیا گیا لیکن اس بات سے سخت انکار کیا جاتا ہے کہ ایسا منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا تھا)۔ تاریخ میں ترمیم اور ردوبدل اور کلچر کو بدلنے کے اقدامات نے وہ مقصد حاصل کرنے میں بہت کامیابی دی جو کہ نئی دنیا میں جدید ترک ریاست کے ابھرنے کا تھا۔
لیکن ایک مسئلہ تھا۔ دنیا بدل گئی تھی۔ ترک سلطنت سکڑ گئی تھی۔ اور اگرچہ ترکی یورپ اور ایشیا کے درمیان کا پل تھا لیکن یہ پہلے سے کم مفید تھا۔ سویز نہر نے نئے بحری تجارتی راستے بھی کھول دیے تھے۔ اور امریکہ کی دنیا کے سٹیج پر آمد کا مطلب تھا کہ یورپی تاجروں کے لئے زیادہ دلچسپ منڈی ایشیا نہیں بلکہ امریکہ بن گئی تھی۔
ترکی 1920 کی دہائی میں زراعت پر انحصار کرنے والا ملک تھا۔ نئے ملک میں صنعتکاری ہونا شروع ہوئی۔ 1929 سے 1938 تک صنعتی پیداوار میں 80 فیصد اضافہ ہوا لیکن 1929 ہی وہ وقت تھا جب بہت بڑا عالمی معاشی بحران شروع ہوا تھا۔ اور یہ ترکی کے لئے بھی بحران بن گیا۔ زرعی مصنوعات کے قیمتیں کریش ہو گئیں۔ ٹرانزٹ زون کے طور پر اس کی اہمیت کم ہو چکی تھی۔ ملک میں آمدن گر رہی تھی۔ مشرق میں کرد بغاوت کھڑی ہو گئی تھی۔ ترکی کو خود کو طاقت کے طور پر منوانے میں جدوجہد کا سامنا تھا۔
جب دوسری جنگِ عظیم آئی تو ترک فوج اچھی حالت میں نہیں تھی۔ ہتھیار ناقص تھے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد دونوں فریقین نے ترکی کو اس میں گھسیٹنے کی کوشش کی۔ ترکی کے پاس موقع تھا کہ جرمنی کا ساتھ دے۔ جرمن فوج نے اس کے دیرینہ دشمن گریس پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور اس سے اتحاد کرنے سے ترکی کو اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس حاصل کرنے کا موقع تھا۔ لیکن ترکی جنگ میں ثابت قدمی کے ساتھ نیوٹرل رہا۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ جیت کون رہا ہے تو فروری 1945 میں اس نے جیتنے والی سائیڈ کی طرف سے اپنا رخ کر لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سوویت فوج برلن کی طرف بڑھ رہی تھی اور جرمن شکست نوشتہ دیوار تھی۔ ترکی نے جرمنی اور جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یہ اچھی حکمت عملی رہی اور ترکوں کو دنیا کے نئی تنظیم نو کرنے والی کانفرنسوں میں جگہ مل گئی۔
جنگ ختم ہو گئی۔ ان کے دیرینہ حریف روسی رہے تھے جن سے ان کی صدیوں سے جنگیں ہوتی رہی تھیں۔ ان کے فوجی اب بلقان میں سوویت سلطنت کی توسیع کے کام میں لگے تھے۔ یہ کردوں کی مدد کر رہے تھے تا کہ ترکوں کو کمزور کیا جا سکے اور ساتھ ہی سیریا اور عراق پر اثرانداز ہوا جا سکے۔ تنہائی ترکی کے لئے آپشن نہیں تھی۔ چھ سال بعد ترکی NATO  کا رکن تھا۔
یہ بندھن حالات کے سمجھوتے کا نتیجہ تھا۔ سرد جنگ گرم ہو رہی تھی۔ ناٹو کے لئے ترکی کو ساتھ ملانا اہم تھا۔ مغربی ممالک یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے کہ ترکی ماسکو کی طرف دیکھے۔ یہ اہم جغرافیائی جگہ پر تھا۔ گریس نے بھی انہی وجوہات کی بنا پر ناٹو میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگرچہ یہ دونوں آپس میں دوست نہیں تھے لیکن دونوں کی وجہ سے ناٹو کو بحری راستوں میں اہم مقام مل گیا۔ ترکی کی بحریہ کے سپرد بحیرہ اسود میں سوویت بحریہ کو الجھانے کا کام آیا۔ جبکہ اس کی فوج سوویت بلاک کے کنارے پر تھی جو کہ بلغاریہ کی سرحد تھی۔ اور اس وجہ سے مغربی دنیا ترکی کے اندرونی حالات سے صرفِ نظر کرتی رہی۔ ترکی میں فوج نے 1960، 1971 اور 1980 میں حکومت کے تخت الٹائے۔ مغرب نے گلا کھنکار کے اسے اندرونی معاملہ کہا۔ ترکی میں سویلین حکومت 1990 کی دہائی سے شروع ہوئی۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں