باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 15 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (44) ۔ ترکیہ ۔ اکیسویں صدی میں


سرد جنگ ختم ہوئی۔ اگلا دور آیا لیکن پرانے مسائل تو وہی تھے۔ 1990 کی دہائی میں ترکی نے خود کو تجارتی راستے کے طور پر دوبارہ establish کر لیا۔ گیس اور تیل کی پائپ لائن عراق اور کیسپین سے شروع ہو کر اناطولیہ سے ہوتی ہوئی یورپ پہنچتی تھیں۔ اس کی فوج ناٹو میں سے بڑی اور قابل تھی۔ سرد جنگ نے دنیا کے کئی معاملات کو سردخانے میں رکھا ہوا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس بوتل کا ڈھکن کھل گیا۔
عراق میں ہونے والی پہلی خلیجی جنگ کے نتیجے میں لاکھوں عراقی کرد بھاگ کر اس کی سرحدوں میں آ گئے تھے۔ اور یہ وجہ تھی کہ اس نے عراق میں نیم خودمختار کرد علاقہ قائم کرنے میں مدد کی (لیکن بعد میں یہ اس کے لئے سردرد بن گیا)۔
عثمانی سلطنت کا ایک اور سابق حصہ بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ یہ بلقان کی جنگیں تھیں۔ یوگوسلاویہ ٹوٹ گیا۔ بوسنیا، کروشیا، سربیا، میسیڈونیا اور کوسووو کو نسلی فسادات کا سامنا تھا۔ ترکی ان کو اشیا برآمد کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا نہ کہ ان کی جنگیں درآمد کرنے میں۔
سابق عثمانی سلطنت کے علاقوں میں ایک اور بڑا تنازعہ آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان تھا۔ اور اس کا مرکز متنازعہ زمین تھی جو نگورنو کاراباخ ہے۔ ترکی کو ایک اور مسئلہ قفقاز اور وسطی ایشیا میں روسی اور ایرانی اثر بڑھنے کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکی خود ابھی مغرب سے وابستہ تھا اور یہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ اسے یورپی یونین میں شمولیت کرنے دی جائے گی۔ لیکن اکیسویں صدی شروع ہو چکی تھی اور ایسے کوئی آثار نہیں تھے کہ ترکی کو شامل کیا جائے گا۔ معاشی طور پر یہ معیار کو پورا نہیں کرتا تھا لیکن ایک اور چیز جس کی پیمائش نہیں کی جا سکتی تھی وہ یہ کہ یہ “اتنا یورپی” نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ ملک نے اپنا رخ بدلا اور نئے لیڈر کے نیچے اس نے اپنا مزاج بھی۔
یہ نیا رخ ماضی سے سبق لیتے ہوئے مستقبل کو شکل دینے کا تھا۔ یہ لیڈر طیب اردگان تھے۔ پہلے وزیر اعظم اور پھر صدر کے طور پر اردگان ترکی کو ایسی طاقت کے طور پر بدلنا چاہتے تھے جو ہر طرف سے کھیل سکے۔ ناٹو کے اتحادی اور یورپی یونین کے امیدوار کے طور پر بھی اور اسلامی اور ایشیائی روابط بنا کر بھی۔
اردگان 1994 میں استبول کے مئیر منتخب ہوئے تھے۔ 1999 میں انہیں مذہبی بنیاد پر اشتعال انگیزی کے جرم میں چار ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔انھوں نے سرعام ایک وطن پرستی سے سرشار نظم پڑھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مسجدیں ہماری چھاونیاں ہیں، گنبدیں ہمارے حود ہیں، میناریں ہماری سنگینیں ہیں اور مومن ہمارے سپاہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
آزاد ہونے کے بعد انہوں نے پارٹی بنائی جو کہ “انصاف اور ترقی پارٹی” تھی۔ اس کا مخفف اے کے پی ہے۔ اس پارٹی نے 2002 کے انتخابات جیتے اور اس سے اگلے برس اردگان وزیراعظم بن گئے۔ سیاسی طور پر کائیاں رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر نیشلسٹ ہیں۔ اور ان کی پارٹی کا اقتدار میں آنا جدید ترکی کی تاریخ میں ایک بڑا شفٹ تھا۔ نظریاتی طور پر اس کا ناٹو سے رویہ اب نیم گرم ہے۔ اردگان جانتے تھے کہ ملک کی آبادی قدامت پسندی کی طرف مائل ہو رہی ہے اور دیہی آبادی کی شہروں کی طرف نقل مکانی بھی شہروں کا مزاج بدل رہی ہے۔ اور اردگان سمجھتے ہیں کہ ترکی کی قسمت نئی طاقت کے طور پر ابھرنا ہے جب مغرب زوال پذیر ہو جائے گا۔ بیسویں صدی کے آخر میں ترکی کی طاقت بڑھی تھی۔ سوویت کے نکل جانے کے بعد پڑوس میں ترک ملٹری کا مقابلہ نہیں تھا۔
لیکن اکیسویں صدی میں شروع ہونے والی جنگوں کی وجہ سے ترکی کو احتیاط سے چلنا تھا۔
 (جاری ہے)

       




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں