باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 19 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (22) ۔ جڑ میں شخصیت اور شخصیت کی جڑ


درخت کی “شخصیت” اور “شناخت” میں جڑ کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن ایسا کیوں؟ خیال ہے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں پر پودے کا “دماغ” موجود ہوتا ہے۔ دماغ؟ کیا یہ دور کی کوڑی نہیں؟ شاید۔ لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ درخت یادداشت رکھتے ہیں، سیکھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ ان تجربات کو کہیں نہ کہیں تو سٹور ہونا ہی ہے۔ اور اس کے لئے سٹور کرنے کا مکینزم درکار ہے جسے جاندار کے اندر ہی ہونا ہے۔ یہ کہاں پر ہے؟ کسی کو ٹھیک معلوم نہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ مقام جڑوں میں ہے کیونکہ یہ اس کی بہترین جگہ ہے۔ سویڈن کا یہ پرانا درخت یہ بھی دکھاتا ہے کہ زیرِ زمین کا حصہ درخت کا سب سے مستقل حصہ ہے۔ تو لمبے عرصے کی انفارمیشن سٹور کرنے کا مقام بھی یہی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اضافی چیز یہ کہ موجودہ تحقیق یہ دکھاتی ہے کہ درخت کی جڑوں کا نازک نیٹورک ایک حیرت کدہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک قبول کردہ حقیقت ہے کہ جڑوں کا نیٹورک درخت کی کیمیائی ایکٹویٹی کا مرکز ہے۔ اور اس میں کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ ہمارے اپنے اندرونی پراسس بھی کیمیکل پیغامات پر چلتے ہیں۔ درخت اشیا کو جڑوں کے ذریعے جذب کر درخت میں لاتے ہیں۔ اور درخت کی خوراک کو فنگس کے شریکوں کے ذریعے تقسیم کرتے ہیں اور پیغامات بھیجتے ہیں۔
لیکن کیا اسے دماغ کہا جا سکتا ہے؟ نیورولوجی میں نیورون ہونا ضروری ہیں جس میں کیمیکل کے علاوہ برقیاتی پیغامات بھی ہوں۔ اور ہم اس سب کی پودوں میں پیمائش کر سکتے ہیں اور یہ انیسویں صدی سے کی جا رہی ہے؟
اور اس نے حالیہ برسوں میں سائنسدانوں میں ایک گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔ کیا درخت سوچ سکتے ہیں؟ کیا یہ ذہانت رکھتے ہیں؟
یونیورسٹی آف بون میں فرانٹسک بالسکا کی ٹیم کا کہنا ہے کہ جڑوں کے سروں پر دماغ جیسے سٹرکچر پائے جاتے ہیں۔ سگنل کے پاتھ وے ہیں۔ کئی سسٹم اور مالیکیول ایسے ہیں جو حیوانات میں ہوتے ہیں۔
جب جڑ زمین میں اپنا راستہ محسوس کر کے بڑھ رہی ہوتی ہے تو یہ ماحول سے آگاہی رکھتی ہے۔ محققین ان برقی سگنلز کی پیمائش کر چکے ہیں جن سے رویہ بدلتا ہے۔ اگر جڑ کو زہریلا مادہ ملے، ایسا پتھر ملے جس میں سے گزرا نہیں جا سکتا یا پانی سے لبریز مٹی مل جائےتو یہ صورتحال کا جائزہ لیتی ہے اور سرے میں مناسب ترامیم کرتی ہے۔ اس کی سمت بدلتی ہے اور یہ کام تنہا نہیں، ہم آہنگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور اس طریقے سے بڑھتی جڑیں اہم علاقوں میں طریقے سے پھیلتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت بہت سے محققین اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اس کا مطلب ان کا ذہین ہونا ہے، یادداشت کی صلاحیت ہے یا احساسات رکھتے ہیں۔
اور یہاں پر یاد رہے کہ بہت سے سائنسدان اس بارے میں فکرمند ہو جاتے ہیں کہ اگر ہم اس طرح سوچیں گے تو حیوانات اور نبابات کے درمیان کی سرحد دھندلی ہو جائے گی۔ لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ اس میں مسئلہ کیا ہے؟
پودوں اور جانوروں کے درمیان کا فرق خوراک کے طریقے کا ہے۔ پودے خوراک کو فوٹوسنتھسس سے بناتے ہیں جبکہ حیوانات دوسروں کو کھا کر۔ دوسرا فرق رفتار کا ہے۔   انفارمیشن کو پراسس کرنے اور اس پر ایکشن لینے کی رفتار کا فرق ہے۔
اس کے علاوہ نہیں۔
اگر جانور احساس اور ذہانت رکھ سکتے ہیں تو پودوں میں اس کا موجود ہونا اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں